پولیس ناکام‘ سڑک چھاپ لٹیرے چھاگئے
شیئر کریں
2011 سے 2013 کے درمیان میں اسٹریٹ کرائمز کی 98 ہزار سے زیادہ وارداتیں درج ہوئیں
لٹیروں کے اکثر گروہ متعلقہ تھانوں سے متعلق ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر پولیس کو بھتہ دیتے ہیں
کراچی جرائم پیشہ عناصر کے لیے سونے کی چڑیا بن گیا،پستول کی نوک پر موبائل چھیننا،بٹوا نکالنا، موٹر سائیکل اڑانا معمول بن گیا،کراچی آپریشن سے ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کا زور ٹوٹا، لیکن اسٹریٹ کرائم بڑھ گئے ۔ذرائع کے مطابق کراچی میں5 ستمبر 2013کو شروع ہونے والا آپریشن شہر کے لیے امن کی نوید سمجھا گیا،قتل وغارت گری، ٹارگٹ کلنگ اور اغوا برائے تاوان جیسے سنگین جرائم پر تو کسی حد تک قابو پا لیا گیا،لیکن یہ آپریشن اسٹریٹ کرائمز پر موثر قابو نہ پاسکا۔شہر میں ستمبر 2011 اور اگست 2013 کے عرصے میں اسٹریٹ کرائمز کی 98ہزار 812وارداتوں کی رپورٹ پولیس کے پاس درج کرائی گئیں، جبکہ آپریشن شروع ہونے کے بعد یعنی ستمبر 2013 اور ستمبر2016کے دوران ایک لاکھ87 ہزار 636اسٹریٹ کرائم کی وارداتیں ہوئیں۔اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ستمبر 2011 سے اگست 2013 تک 20ہزار 899شہریوں سے موبائل فون چھینے گئے۔ ستمبر 2013 میں آپریشن شروع ہونے سے لیکر ستمبر2016 کے دوران شہر قائدمیں59 ہزار 109شہریوں کو زبردستی موبائل فون سے محروم کیا گیا۔موبائل چوری کی وارداتوں میں بھی کراچی آپریشن کے بعد اضافہ ہوا، آپریشن سے قبل کے 2 برسوں میں 23ہزار 372 وارداتوں کے مقابلے میں آپریشن شروع ہونے کے بعد کے 2 برسوں میں موبائل چوری کی 58 ہزار 91شکایتیں موصول ہوئیں۔ایک جانب جہاں اسٹریٹ کرائمز میں اضافہ ہوا وہیں گاڑیاں چوری اور چھیننے کی وارداتوں میں کمی ہوئی۔ستمبر 2011 سے اگست 2013تک کے درمیان گاڑی چوری کی 2ہزار 606وارداتیں رپورٹ کی گئیں جبکہ ستمبر 2013 سے ستمبر2016کے یہ تعداد دوہزار 426رہی۔انہی مذکورہ عرصوں میں 7ہزار 324گاڑیاں چھینی گئیں جبکہ آئندہ دوسال میں یہ تعداد 5ہزار 338 رہی۔ ستمبر 2011 اور اگست 2013 کے درمیان11 ہزار 142موٹر سائیکلیں چوری کی گئیں ۔اس کے برعکس ستمبر 2011 اور اگست 2013 کے درمیان شہر میں 33ہزار 469موٹر سائیکلیں چھینی گئیں،جبکہ ستمبر 2013 اور ستمبر 2016 کے دوران 54ہزار 752 موٹر سائیکلیں چھین لی گئیں۔
شہر قائد کراچی میں ایک طویل عرصے سے دوسرے جرائم کے ساتھ ساتھ موبائل فونز کی چوری اور چھیننے کا سلسلہ بھی زور و شور سے جاری ہے ۔روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں افراد اپنے قیمتی موبائل فونز سے محروم ہورہے ہیں ۔تاہم اس سلسلے میں انتظامیہ خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہا ہے۔آجکل کراچی کا کوئی ایک علاقہ ایسا نہیں ہے جہاں موبائل فونز کے چوری یا چھیننے کی وارداتیں نہیں ہو رہی ہو۔ شہر قائد میں ایک یا دو نہیں بلکہ کئی ایسے گروہ سرگرم ہیں جو شہر بھر میں جیب کاٹنے اور موبائل فونز چھیننے کی وارداتوں میں مصروف عمل ہیں ۔ ذرائع کے مطابق ہر گروپ میں کم از کم آٹھ سے دس افراد شامل ہوتے ہیں جس میں سے دو افراد استاد یا جیب کا ٹنے کے ماہر اور دو سے تین افراد سہولت کار یا ٹیک لگانے والے ہو تے ہیں جبکہ باقی ماند ہ افراد کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ جس میں بیچ بچاﺅ یا متاثرہ شخص کو زدوکوب کرنے والے ہوتے ہیں۔ہر گروہ کے ساتھ ایک مخصوص علاقہ ہوتا ہے جہاں دوسرے گروہ کو گھسنے کی اجازت نہیں ہوتی۔انتہائی باخبر ذرائع کے مطابق ہر گروہ کا ایک سرغنہ ہوتا ہے جو گروہ کے ساتھ ساتھ غیر محسوس انداز میں سفراور نگرانی کرتا رہتا ہے۔اکثر گروہوں کے متعلقہ تھانوں کے ساتھ تعلقات ہوتے ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر پولیس کو مخصوص حصہ بھی دیا جاتا ہے۔ ہر گروہ کے کارندے صبح سویرے ذیلی گروہ میں تقسیم ہوکر مختلف گاڑیوں میں سوار ہو جاتے ہیں ۔جیب کاٹنے کے ماہر یا استاد رش کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگوں کے جیب اور بیگ سے موبائل فون نکال کر سہولت کار کو منتقل کرتا ہے جو فی الفور موبائل لے کرگاڑی سے اتر جاتا ہے جبکہ دیگر افراد گاڑی میں موجود رہتے ہیں یوں یکے بعد دیگرے کئی لوگوں کے جیبوں سے نقدی اور موبائل فونز چوری کرکے ایک ایک سہولت کار کو دے دیے جاتے ہیں جسکے بعد آخری مرحلے میں استاد بھی مناسب اسٹاپ پر اتر کر سہولت کاروں سے مل جاتا ہے اور یوں سارے موبائل فونز اکھٹے کیے جاتے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ پورے دن میں ہر گروہ کم از کم پچیس سے لیکر تیس موبائل فونز چوری کرتے ہیں جبکہ اس کے ساتھ ساتھ ہزاروں روپے نقدی بھی مل جاتے ہیں۔ جیب کتروں کے ہر گروہ میں شامل زیادہ تر افراد اکثر منشیات کے عادی اور بے روزگار افراد ہوتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اکثر علاقے کے ایسے لوگ بھی ان گروہوں میں شامل ہو جاتے ہیں جو کھاتے پیتے خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں لیکن بری صحبت کی وجہ سے وہ بھی عادی ہوچکے ہوتے ہیں۔ذرائع کے مطابق جیب کتروں کے گروہوں کا اکثر گاڑیوں کے ڈرائیورز اور کنڈکٹرز سے بھی اس سلسلے میں تعلق ہوتا ہے اور وہ بھی اکثر سہولت کار کا کردار ادا کرتے ہیں مثلا جب کبھی کوئی جیب کترا گاڑی میں پکڑا جاتا ہے تو ڈرائیور اس کو عوام کی پٹھائی اور سخت سزا سے بچانے اور پولیس کو حوالے کرنے میں دیگر سہولت کاروں کی طرح مدد فراہم کرتاہے۔دن بھرعوام کو لوٹنے کے بعد جیب کتروں کا گروہ کسی مکان یا ڈیرے میں سارے فونز لاکر جمع کرتے ہیں۔ گروہ کا سرغنہ متعلقہ دوکانداروں اور دیگر عام لوگوں سے رابطہ کرکے ان کو بلاتے ہیں اور پہلے سے ہر فون کا ریٹ مقررکیا جاتا ہے۔دوکاندار یا عام آدمی کیلئے چوری شدہ موبائل فونز کی قیمت تقریبا اصل قیمت کے نصف یا اس سے تھوڑا ساکم مقرر کیا جاتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے تھوڑی ہی دیر میں سارے فونز فروخت ہو جاتے ہیں۔موبائل فونز کے مالکان نا صرف اپنے قیمتی موبائل سے محروم ہو جاتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اہم اور ذاتی ڈیٹا سے بھی ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں ۔بسا اوقات چوری شدہ موبائل فونز میں موجود اہم اور پرسنل تصویروں،ویڈیوز اور آڈیو فائلوں کو نیٹ پر بھی اپ لوڈ کئے جانے کے واقعات سامنے آئے ہیں۔سب سے پریشان کن بات اس سلسلے میں یہ بھی ہے کہ چوری شدہ موبائل فونز میں اکثر وہ موبائل بھی شامل ہوتے ہیں جس کا ڈبہ اور رسید مالک کے پاس ہونے اور سی پی ایل سی بلاک کرنے کے باوجود بھی وہ موبائل فون استعمال اور مارکیٹ میںآزادانہ فروخت ہورہے ہیں۔ کیونکہ اس عہد کے جیب کترے بھی کافی ہوشیار ہو چکے ہیں۔ اسلئے وہ یا تو وہ موبائل فون ہمسایہ ممالک میں سیل کرنے کیلئے بھیجتے ہیں یا باسانی ہزار سے پندرہ سو روپے میں سی پی ایل سی بلاک سیٹ کا آئی ایم ای تبدیل کیا جاتا ہے۔ انتہائی باخبر ذرائع کے مطابق کراچی کے تمام موبائل مارکیٹوں میں فلیشنگ اور سافٹ ویئر والے دکانداروں میں سے اکثر اس گھناﺅنے دھندے میں برابر کے شریک ہیں جو فی موبائل سی پی ایل سی بلاک سیٹ کے ہزار سے دو ہزار روپے چارجز لیتے ہیں جبکہ ایک سیٹ کو ڈی کوڈ کرنے میں پندرہ سے بیس منٹ کا وقت درکار ہوتا ہے تاہم دکاندار گاہک کو مطمئن کرنے کیلئے دو دن سے ایک ہفتے تک کا ٹائم دیتے ہیں۔