پاک بھارت خوشگوار تعلقات کشمیر کے حل سے مشروط
شیئر کریں
ریاض احمدچودھری
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں رائے شماری اور کشمیری عوام کو حق خودارادیت دینا ہی مسئلہ کشمیر کا واحد قابل عمل حل ہے۔ تنازعہ کشمیر حل کیے بغیر جنوبی ایشیاء میں دیر پاامن قائم ہو سکتا ہے اور نہ ہی پاکستان اور بھارت کے مابین اچھے تعلقات قائم ہو سکتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں قتل و غارت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا بنیادی سبب بھارت کی ہٹ دھرمی اور کشمیریوں کوان کا پیدائشی حق دینے کی مخالفت کرنا ہے۔صدر آزاد جموں وکشمیر سردار مسعود خان کا کہنا ہے کہ بھارت کی جانب سے کشمیری عوام کو ان کے پیدائشی اور جمہوری حق سے محروم کرنے کے باعث مقبوضہ آبادی کے ڈیڑھ کروڑ عوام گزشتہ70 سال سے امن و خوشحالی کے لئے ترس رہے ہیں۔ حق خودارادیت اقوام متحدہ کے چارٹر کا بنیادی اصول قرار دیتے ہوئے مسعود خان نے کہا کہ دنیا کے مختلف خطوں میں اسی اصول کی بنیاد پر کئی تنازعات کا حل تلاش کیا گیا اور اسی اصول کی بنیاد پر کشمیر کے تنازعے کا حل تلاش کرنا ضروری ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی صورت میں عالمی برادری کی یقین دہانیوں کے باوجود بھارت سے حق خودارادیت کا مطالبہ کرنے والے کشمیریوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں گزشتہ 29سال کے دوران ایک لاکھ سے زیادہ کشمیریوں کو شہید کیا گیا ، 22ہزار سے زیادہ خواتین کو بیوہ اور ہزاروں بچوں کو یتیم کیا گیا۔ مقبوضہ کشمیر میں خواتین کے ساتھ ا?بروریزی کے 11ہزار واقعات ہوئے 6ہزارگمنام قبروں کا پتہ چلا جہاں نوجوانوں کو ماورائے عدالت قتل کر کے دفن کیا گیا ہے۔
بھارت مقبوضہ وادی میں اپنی فوج کے مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے واقعات کو چھپانے کے لئے کشمیریوں کی جائز اور منصفانہ جدوجہد کو دہشت گردی قراردینے کی کوشش کر رہا ہے۔حالانکہ ہندوستان غیر مسلح اور نہتے کشمیریوں کے خلاف ریاستی دہشت گردی کا ارتکاب کر رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کے خلاف اس کی مذموم سازشوں کی ناکامی کے بعد اب بھارت وادی کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ رائے شماری کی صورت میں وہ اپنے حق میں نتائج حاصل کر سکے۔ اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں واضح طور پر ہندوستان سے کہا گیا ہے کہ وہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے حق خودارادیت کا احترام کرے جس کو بین الاقوامی قانون کے تحت تحفظ حاصل ہے۔ اولاً، ہیومن رائٹس کونسل ایک تحقیقاتی کمیشن بنائے جو مقبوضہ کشمیر میں جا کر حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کے بارے میں تحقیقات کرے اور دوسرے ہندوستان کے دو کالے قوانین۔ آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ اور پبلک سیفٹی ایکٹ کو منسوخ کیا جائے۔ اگر ہندوستان جموں و کشمیر میں رائے شماری کے لیے اپنی مخالفت ترک کر دے تو رائے شماری کے انعقاد میں کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہیں ہو گا۔ اقوام متحدہ کے پاس اس کا ایک باقاعدہ بلوپرنٹ اور ضابطہ کار موجود ہے۔جموں و کشمیر میں متعین اقوام متحدہ کے مبصر مشن کی رپورٹس سیکرٹری جنرل اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو نہیں پہنچائی جا رہی ہیں۔اس وقت آزاد کشمیر اپنے وسائل سے چالیس ہزار کشمیری مہاجرین کا خیال رکھ رہا ہے اور 1947ء سے اب تک تقریباً بیس لاکھ کشمیری مہاجرین پاکستان یا آزاد کشمیر میں نقل مکانی کر چکے ہیں اور سوسائٹی کا حصہ بن چکے ہیں۔ پاکستان اور آزاد کشمیر نے ان مہاجرین کی آبادی کاری کے سلسلہ میں کسی بین الاقوامی ادارے سے کوئی مدد نہیں لی ہے۔
بھارت کے زیرانتظام کشمیر کی صورت حال پر مسلسل نہ صرف کشمیری بلکہ دنیا بھر میں بات کی جا رہی ہے۔ ‘پاکستان بھی کہہ رہا ہے کہ وہاں آزادی اظہار اور مذہبی آزادی ختم ہو رہی ہے۔’ابھی جو وہاں انتخابات ہوئے ہیں تو بھی عالمی سطح پر وضع کردہ معیار کے مطابق نہیں تھے۔ وکلا کی جو تنظیمیں ہیں ان پر پابندیاں ہیں۔’کشمیر میں انسانی حقوق کی بہت سے خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں لیکن اہم یہ ہے کہ عالمی برداری اس پر ایکشن لے گی یا نہیں اور کشمیری خود ہی بات کرتے رہیں گے۔’پاکستان کی طرف سے بھی بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں ‘بنیادی انسانی حقوق اور آزادیوں اور پرامن اجتماعات پر پابندیوں’ کی مذمت کی جاتی رہی ہے۔بھارت نے پانچ اگست 2019 کو اس کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں انڈین آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت دی گئی خصوصی حیثیت، یا خود مختاری کو منسوخ کر دیا تھا۔پاکستان کے علاوہ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی بھی طرف سے بھارتی حکومت سے اس کے زیر انتظام جموں و کشمیر سے 2019 میں کیے گئے اقدامات کو واپس لینے کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد پاکستان نے بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات کم کرتے ہوئے تجارت معطل کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے انکشاف کیا ہے کہ بھارت نے انسانی حقوق کے محافظوں اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق دبانے اور اپنے مخالفین کو خاموش کرانے کے لیے انسداد دہشت گردی اور منی لانڈرنگ سمیت جابرانہ قوانین کا استعمال کیا جن میں طویل مدت تک حراست میں رکھنا اور ماورائے عدالت ہلاکتیں شامل ہیں۔ حکام نے ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کا استعمال کرتے ہوئے انسانی حقوق کے محافظوں کو ہراساں کیا۔