صحافی کو اہلکار کا تھپڑ....فریقین کو پیشہ ورانہ تربیت کی ضرورت
شیئر کریں
صحافیوں کو بھی سمجھنا چاہیے سپاہی اتنے تعلیم یافتہ نہیں ہوتے ، الجھنے سے گریز کرنا چاہیے،تفتیش میں کسی فریق سے امتیاز نہیں برتاجائے گا،ایف سی
صحیح یا غلط ‘یہ الگ بحث ہے،سوال یہ ہے کہ یہ تھپڑ کسی خاتون کو پڑا ہے یا کسی صحافی کو؟ایکٹیو ازم نقصان کا سبب بنا، عوام اور سینیئر صحافیوں کا تبصرہ
کراچی پولیس نے گزشتہ جمعرات کو لیاقت آباد میں واقع نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا)کے دفتر کے باہر K-21 چینل کی خاتون صحافی کے ساتھ پیش آنے والے بدسلوکی کے واقعے کی دو مختلف ایف آئی آر درج کر لی ہیں۔ایک ایف آئی آر کے۔21چینل کی میزبان اور دوسری نادرا حکام کی جانب سے درج کروائی گئی ہے۔پولیس کے مطابق نادرا کراچی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر نیازحسین اعوان کی جانب سے الزام لگایا گیا ہے کہ کے۔21کے پروگرام” کراچی کی آواز “کی میزبان صائمہ کنول سمیت دیگر ٹیم نے زبردستی نادرا کے دفتر میں داخل ہونے کی کوشش کی اور کارِسرکار میں مداخلت کی مرتکب ہوئی۔اس کے علاوہ انھوں نے سرکاری دفتر کی حدود میں شورشرابہ کیا، عملے کو ہراساں کیا اور وہاں موجود گارڈ سے بدتمیزی کی اور اس کی وردی کھینچی۔دوسری جانب کے۔21چینل کے پروگرام کراچی کی آواز کی میزبان صائمہ کنول نے پولیس کو درخواست دی ہے کہ نادرا کے دفتر میں موجود فرنٹئیرکانسٹیبلری کے سپاہی نے ان سے اور ان کی ٹیم سے بدسلوکی کی، ان کا کیمرا چھیننے کی کوشش کی، انھیں صحافتی ذمہ داریوں کی ادائیگی سے روکنے کی کوشش کی اور ان پر تشدد کیا، تھپڑ مارا اور ان پرفائرنگ بھی کی۔ ایس ایس پی ضلع وسطی مقدس حیدر کا کہنا ہے کہ پولیس نے دونوں درخواستوں پر ایف آئی آر درج کر کے ضابطے کی کارروائی شروع کر دی ہے۔انھوں نے بتایا کہ ایف سی سے مذ کورہ اہلکار کو پولیس کے حوالے کرنے کی درخواست کی گئی ہے اور جیسے ہی یہ منظور ہوگی پولیس جا کر اس گارڈ کو گرفتار کر لے گی۔اس ضمن میں نادرا کے ترجمان فائق علی چاچڑ نے بتایا کہ اس بارے میں نادرا فریق بنی ہے کیونکہ یہ سارا واقعہ نادرا کے دفتر کی حدود میں پیش آیا ہے تاہم وہ اس بارے میں حتمی رپورٹ وزارتِ داخلہ کو دیں گے اور پھر وزارتِ داخلہ ہی اس معاملے پر اپنا بیان پیش کرے گی۔کراچی میں موجود ایف سی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ بہت افسوس ناک واقعہ ہے اور مذکورہ اہلکار لانس نائیک سید حسن کو معطل کر کے شامل تفتیش کر لیا گیا ہے ۔ایف سی کے مطابق وہ چاہتے ہیں کہ دونوں فریقوں سے ایک ہی جیسا سلوک کیا جائے اور کسی کی سماجی حیثیت کو مدِ نظر نہیں رکھا جائے۔ایف سی ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف سی کے سپاہی قبائلی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں اور وہاں کے رواج میں کسی کو اس طرح ہاتھ لگانا بہت شدید بے عزتی سمجھا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مذکورہ اہلکار تو اردو بھی ٹھیک سے نہیں بول سکتا اور صحافیوں کو بھی سمجھنا چاہیے کہ یہ سپاہی اتنے تعلیم یافتہ نہیں ہوتے اور ان کا ایک خاص پس منظر ہوتاہے، ان سے الجھنے سے گریز کرتے ہوئے کسی بھی معاملے پر افسرانِ بالا سے رجوع کرنا چاہیے۔
خاتون رپورٹرکوایف سی اہلکار نے تھپڑ مار کر صحیح کیا یا غلط یہ الگ بحث ہے،سوال یہ ہے کہ یہ تھپڑ کسی خاتون کو پڑا ہے یا کسی صحافی کو؟عوام کا تبصرہ یوں ہے کہ اہلکار نے ایک عورت کو تھپڑ نہیں مارابلکہ ایک صحافی کو تھپڑ مارا ہے کیونکہ پروفیشنل ازم میںجنس کی تفریق نہیں ہوتی ،ایک طرف مرد اور عورت کے مساویانہ حقوق کی بات ہوتی ہے تو دوسری طرف ایک تھپڑ مساواتِ مرد و زن کے فلسفے کو دھڑام سے زمین بوس کردیتا ھے اور فورا ًجنس پروفیشنل ازم پر غالب آجاتی ہے اور واویلا کچھ اس طرح کیا جاتا ھے کہ”بے شرم اہلکار نے ایک عورت کو تھپڑ مارا”حالانکہ سچ یہ ہے کہ اہلکار نے حدود سے تجاوزکرنے والی صحافی کو تھپڑ مارا ہے۔
نجی ٹی وی چینل کی خاتون اینکرکو تھپڑ مارنے کے معاملے پرفرنٹیئر کانسٹیبلری بھی اپنے اہلکار سید حسن کی حمایت میں آگئی ہے۔نادرا حکام نے ایف آئی آر درج کرادی ہے جسکے مندرجات میں واقعے کی ذمے داری خاتون اینکر پر ڈالی گئی ہے کہ خاتون صحافی نے پہلے ایف سی اہلکار کی یونیفارم کو پکڑ کر کھینچا تھا۔ نادرا ذرائع کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کو واقعے کی تمام تفصیلات سے آگاہ کردیا گیا ہے جبکہ واقعے کی مکمل فوٹیج بھی وزیرداخلہ کو ارسال کی گئی ہیں جس کے بعد چوہدری نثار نے معاملے کی تحقیقات کا حکم دے دیا۔واضح رہے کہ نجی ٹی وی چینل کے 21کی خاتون نیوز اینکرصائمہ کنول نادرا آفس لیاقت آبادمیں شہریوں کو درپیش مشکلات کے حوالے سے پروگرام کر رہی تھیں کہ اس دوران انہیں وہاں بطور سیکیورٹی گارڈ تعینات حسن عباس نامی ایف سی اہلکار نے اشتعال میں آ کر تھپڑرسید کردیا۔ اس حوالے سے موقف دیتے ہوئے صائمہ کنول کا کہنا تھا کہ لیاقت آباد نادرا آفس سے متعلق شکایات مل رہی تھیں، وہاں پروگرام کرنے گئے تو نادرا آفس کی انتظامیہ نے بات کرنے سے انکار کردیا جبکہ ایف سی گارڈ نے پہلے کیمرہ مین پر تشدد کیا۔ ایف سی اہلکار خواتین سے بدتمیزی کررہا تھا، جب اسے روکا گیا تو مجھے تھپٹر ماردیا۔ صائمہ کنول نے مزید بتایا کہ اگرمیڈیا سے یہ سلوک ہوا ہے توعوام کے ساتھ کیسا سلوک ہوگا؟ نجی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے صائمہ نے بتایا کہ سکیورٹی گارڈ پہلے بہت آرام سے بات سن رہا تھا لیکن پھر اچانک اٹھ کر آفس کے اندر گیا اور باہر آنے پر اس نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا۔ صائمہ نے کہا کہ سیکورٹی گارڈ اندر سے جانے کیا احکامات لے کر آیا تھا کہ اس نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا۔ان کا کہنا تھا کہ سیکورٹی گارڈ اور اس کے ساتھیوں نے ہوائی فائرنگ بھی کی ۔
سینیئر صحافی سبوخ سیدنے تبصرہ کیا ہے کہ اس طرح تو محلے کی ماسیاں بھی نہیں کرتیں جس طرح یہ محترمہ جرنلزم کررہی ہیں ۔یہ انتہائی افسوس ناک رویہ ہے ۔چینل مالکان جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے کے اصول پر جرنلزم نہیں بلکہ دھندے بازی میں مصروف ہیں ۔سینیئر صحافی کا موقت تھا کہ انہیں چاہیے تھا کہ وہ عورتوں کی بے عزتی کرنے کا منظر ریکارڈ کر کے اپنے چینل پر دکھاتیں، اس بندے کا موقف لینے کی کوشش کرتیں ، اگر وہ بات نہیں کرنا چاہتا تو اس کی فوٹیج بنا تیں ۔ جن عورتوں سے بدتمیزی کی ان کا موقف لیتیں اور نشر کر دیتیں ۔موصوفہ ایکٹر نما اینکرکی غصے سے لرزتی آواز، ان کا اشتعال پیدا کرنے والا انداز ، ان کا سپاہی کی وردی کھینچنا ، اس پر ہاتھ اور مائیک سے حملہ آور ہوجانا صحافت نہیں ، ان کی ذاتی لڑائی بن چکا ہے ۔یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ سپاہی کا عورت پر ہاتھ اٹھانا درست نہیں ، بالکل ٹھیک کہا لیکن یہ عورت سپاہی کی وردی پر ہاتھ اٹھانے کے بعد صحافت اور احترام کا حق کھو چکی تھیں ۔ ہاتھ اٹھاو¿ گے تو ہاتھ اٹھایا جائے گا ۔
خاتون رپورٹر صائمہ کنول کو نادرا کے سیکیورٹی گارڈ کی طرف سے تھپڑ مارے جانے کی وڈیو سوشل میڈیا پر موضوعِ گفتگو بنی ہے جس پر عوام کا مِلا جلا رجحان دیکھنے کو ملا۔ کسی نے خاتون رپورٹر کی حمایت میں حقوقِ نسواں کے راگ الاپے اور کوئی سیکیورٹی گارڈ کو درست ثابت کرنے کے لیے ہزاروں وجوہات پیش کر رہا ہے لیکن بہت کم افراد ایسے تھے جنہوں نے اس افسوسناک واقعے کے محرکات کی نشاندہی کی۔
خاتون رپورٹر کا سیکورٹی گارڈ کو گریبان سے پکڑنا اور مائیک لے کر ہراساں کرنا اور پھر ردِ عمل میں سیکیورٹی گارڈ کا تھپڑ مارنا دونوں ہمارے معاشرے کے انتہا پسند رویے ہیں اور یہ دونوں رجحانات قابلِ مذمت اور انتہائی افسوسناک ہیں جس کی ذمہ داری فریقین پر عائد ہوتی ہے۔ لیکن کیونکہ صحافی ایک سیکیورٹی گارڈ کی نسبت ہمارے معاشرے کا زیادہ پڑھا لکھا اور مہذب طبقہ ہے اس لیے واقعے کی زیادہ ذمہ داری خاتون صحافی پر عائد ہوتی ہے۔ایک اور سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ تھپڑ کھانے والی خاتون صحافی سے تمام تر ہمدردیوں کے باوجود سچ یہ ہے کہ اس رپورٹنگ میں وہ بطور صحافی کہیں نظر نہیں آئیں ۔ کوئی برا نہ مانے تو کہوں کہ ہمارے کئی صحافیوں کو بھی تربیت کی ضرورت ہے لیکن جہاں تنخواہیں ہی تاخیر سے ملتی ہوں وہاں تربیت پر کون دھیان دے گا ؟ "تمہیں شرم نہیں آتی ؟ ” جیسے عامیانہ جملے اور گفتگو نہ کرنے والے کا بار بار راستہ روک کر اس کے سامنے بدمعاشوں کی طرح کھڑے ہو کر ذاتی حملے صحافیوں کے شایان شان نہیں اور کسی کا بازو کھینچ کر اس کو موقف دینے پر مجبور کرنا صحافتی ضابطہ اخلاق کے خلاف ہے ۔ جس طرح جدید کیمرہ اٹھا لینے سے ہر شخص کیمرہ مین نہیں بن جاتا اسی طرح مائیک تھام لینے سے انسان رپورٹر نہیں بن جاتا۔ خاتون لبرل ہوں گی کہ ان کے نزدیک کسی مرد کا بازو تھامنا معیوب نہیں لیکن ممکن ہے وہ گارڈ اتنا لبرل نہ ہو کہ کسی بھی خاتون کو اپنے جسم پر ہاتھ لگانے کی اجازت دے دیتا۔
اطلاعات یہ ہیں کہ معاملے پر نجی چینل کی انتظامیہ اور نادرا حکام میں مذاکرات ہوئے۔ نادرا کے ڈی جی بریگیڈئیر (ر) ناصر اور نجی چینل کی جانب سے غفران مجتبیٰ مذاکرات میں شریک ہوئے۔ فریقین کے درمیان معامات طے پا گئے ہیں اور دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف درج مقدمات واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
٭٭٭