غیر جانبداری کا پردہ:سہیل وڑائچ کے کالموں کا دُہرا معیار
شیئر کریں
عماد بزدار
سہیل وڑائچ کی تحریریں بظاہر غیر جانبداری کا لبادہ اوڑھے ہوتی ہیں، لیکن ایک گہری نظر ڈالیں تو ان میں چھپی ہوئی جانبداری اور تضادات بے نقاب ہوتے ہیں۔ سہیل وڑائچ، جو خود کو ایک غیر جانبدار تجزیہ کار کے طور پر پیش کرتے ہیں، درحقیقت بڑے ہی باریک طریقے سے میاں نواز شریف کے حمایتی اور عمران خان کے ناقد نظر آتے ہیں۔ان کی تحریروں میں تضاد کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ جب میاں نواز شریف اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو ان کی حمایت میں نرم لہجہ اپنایا جاتا ہے ، اور جب عمران خان اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو انہیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ اس بات کا کھلا اظہار نہیں کیا جاتا کیونکہ غیر جانبداری کا تاثر دینا زیادہ موثر ثابت ہوتا ہے ، تاکہ عوام
کو میاں صاحب کے حق اور عمران خان کے خلاف نرم طریقے سے قائل کیا جا سکے۔مثال کے طور پر، میں آپ کی خدمت میں سہیل وڑائچ کے دو کالمز کے اقتباسات پیش کرتا ہوں۔ ان دونوں کالمز میں سہیل وڑائچ کے بیانیے اور انداز میں واضح تضاد نظر آتا ہے ، جو ان کی سیاسی ترجیحات کو ظاہر کرتا ہے ۔ایک کالم”وہ کیوں بولا” ( 24اکتوبر 2020 )اور دوسرا کالم ”شہرت کا نشہ” (14اکتوبر 2024) ان تضادات کو بے نقاب کرنے کے لیے بہترین مثالیں ہیں۔ایک وہ کالم جب میاں نواز شریف اپوزیشن میں تھے ، اور دوسرا کالم اب جب عمران خان اپوزیشن میں ہیں اور جیل میں قید ہیں، مشکلات کے پہاڑ کا سامنا کر رہے ہیں۔”وہ کیوں بولا” (24اکتوبر 2020) میں سہیل وڑائچ نے میاں نواز شریف کے اُس جرأت مندانہ اقدام کا دفاع کیا تھا جب انہوں نے کھل کر کچھ طاقتور شخصیات کا نام لیا۔وڑائچ نے نواز شریف کی طرفداری کرتے ہوئے یہ بتایا کہ انہیں جس حد تک مجبور کیا گیا، وہ بالآخر بولنے پر مجبور ہو گئے ۔ ان کے الفاظ میں:
”پالتو بلی کو تنگ کریں، اُسے گھیر کر کونے میں لے جائیں تو وہ بھی پنجے جھاڑ کر حملہ آور ہو جاتی ہے ۔ فاختہ
جیسا امن پسند تو کوئی چرند پرند نہیں مگر کوئی چیل اُس کی جان لینے کے لئے اُس پر جھپٹ پڑے تو فاختہ
بھی پھڑپھڑا کر چیل کے پنجوں سے نکلنے کی کوشش کرتی ہے ۔ہر شریف شہری اور ہر امن پسند کی ایک حد
ہوتی ہے ، سرخ لکیر عبور کرکے اگر شیر بھی بھینسوں کے علاقے میں آ جائے تو وہ اکٹھی ہو کر اُسے بھگانے
کی کوشش کرتی ہیں۔نواز شریف اقتدار سے نکلا، چپ رہا۔ الیکشن سے نااہل ہوا، چپ رہا۔ عدالتوں میں
باربار پیش ہوا، چپ رہا۔ سزائیں قبول کیں، چپ رہا۔ جیل گیا، چپ رہا۔ بیمار ہوا، چپ رہا۔سیاست تو
کرتا رہا مگر طاقتور اداروں کے خلاف زبان نہ کھولی۔ نجی محفلوں میں وہ ان کی چیرہ دستیوں اور زیادتیوں کی
کہانی سناتا رہا مگر آن دی ریکارڈ اپنی زبان کو تالا لگائے رکھا مگر یہ حد ایک دن تو ٹوٹنا تھی، یہ خاموشی ایک نہ
ایک دن تو ختم ہونا تھی۔ وہ لندن میں لمبے وقفے کے بعد جا ختم ہوئی اور پھر اُس کی انتہا گوجرانوالہ کے
جلسے میں ہو گئی”۔
یہاں وہ نواز شریف کو ایک مظلوم شخصیت کے طور پر پیش کرتے ہیں جسے اتنا مجبور کیا گیا کہ بالآخر انہوں نے طاقتوروں کے خلاف بولنے کا فیصلہ کیا۔ وڑائچ نے نواز شریف کی خاموشی کو ایک”سرخ لکیر”قرار دیا، جو وقت گزرنے کے ساتھ ٹوٹ گئی۔ نواز شریف کو جس طرح سے طاقتور اداروں نے نشانہ بنایا، وڑائچ نے اس عمل کو غیر منصفانہ اور ناجائز قرار دیا، یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ کوئی بھی انسان یا جانور ہو، اگر اسے کونے میں دھکیلا جائے تو وہ آخر کار بول پڑتا ہے۔ مگر جب ہم ”شہرت کا نشہ” (14اکتوبر 2024) کا جائزہ لیتے ہیں، تو تصویر بالکل الٹ نظر آتی ہے ۔ یہاں عمران خان کو، جو خود ایک سال سے زائد قید میں ہیں، ان کے لیڈروں کو پریس کانفرنس کروا کر ان سے زبردستی پارٹی چھڑوائی گئی ، ان کی پارٹی کو انتخابی نشان سے محرومی جیسے سنگین حالات کا سامنا ہے ، ان کے مینڈیٹ پر دن دیہاڑے ڈاکہ ڈالا گیا ، ان پر اور ان کی غیر سیاسی بیوی پر عدت جیسا گھٹیا کیس بنا کر دونوں کو سزائیں دی گئیں ، ان کی دو بہنیں پرامن احتجاج کرتے ہوئے گرفتار کی گئیں ان کا وکیل تاحال لاپتہ ہے لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود عمران اپنے احتجاج کا پرامن آئینی حق استعمال کرنا چاہتا ہے جسے سہیل وڑائچ نے عمران کی جدوجہد کو سرخ کپڑا دکھا کر طاقت کے بھینسے کو مشتعل کرنے کے مترادف قرار دیا۔ جہاں ایک طرف نواز شریف کو بلی اور فاختہ جیسے مظلوم کرداروں سے تشبیہ دی گئی، وہیں عمران خان کو طاقتوروں کو اشتعال دلانے والا قرار دیا گیا۔
”طاقت کے بھینسے کو اگر باربار تشدد کا سرخ کپڑا دکھائیں تو وہ بھڑک کر حملہ کرتا ہے ، کاش ایسا نہ
ہو۔ تاریخ کا لکھا مگر روز روشن کی طرح واضح ہوتا ہے ، تحریک انصاف کے پالیسی ساز دیوار پر
لکھی ہوئی تحریر کو کیوں نہیں پڑھتے کیوں طاقت کے بھینسے کو بار بار سرخ کپڑا دکھا رہے ہیں؟
سیاسی جماعتیں اس قابل نہیں ہوتیں کہ ریاست کا حملہ برداشت کرسکیں، شہرت بڑی چیز ہے مگر
طاقت کے مقابلے میں اس کا جیتنا مشکل ہوتا ہے” ۔
یہاں وڑائچ کا لہجہ بالکل مختلف ہے ۔ وہ عمران خان کی حکمت عملی کو غیر دانشمندانہ قرار دیتے ہیں اور طاقت کے مقابلے میں کامیابی کو ناممکن سمجھتے ہیں۔ وہ تجویز دیتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو ریاست کے حملے کا سامنا نہیں کرنا چاہیے کیونکہ”سیاسی جماعتیں اس قابل نہیں ہوتیں کہ ریاست کا حملہ برداشت کرسکیں”۔
سہیل وڑائچ جب نواز شریف کے لیے دلیل دیتے ہیں کہ ایک مظلوم آخرکار بول پڑتا ہے ،تو وہ اس کو جائز اور قابل قبول قرار دیتے ہیں۔ مگر جب عمران خان کے حامی احتجاج کرتے ہیں جس کا حق انہیں پاکستان کا آئین دیتا ہے ، تو وڑائچ انہیں نصیحت کرتے ہیں کہ ریاست کی طاقت سے مقابلہ نہ کریں۔ اس کے علاوہ، نواز شریف کے لیے جو ہمدردی اور حمایت کا اظہار کیا جاتا ہے ، وہ عمران خان کے لیے سرزنش اور تنقید میں بدل جاتا ہے ۔یہ رویہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ سہیل وڑائچ، اپنی غیر جانبدارانہ حیثیت کے باوجود، اصل میں ایک مخصوص سیاسی شخصیت کے حق میں ہیں اور دوسری کے خلاف۔ یہ تضادات قارئین کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ آیا وڑائچ کی غیر جانبداری واقعی ایک حقیقت ہے یا محض ایک پردہ جس کے پیچھے ان کی اصل ترجیحات چھپی ہوئی ہیں۔
سہیل وڑائچ کی تحریروں کا تجزیہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ جس شخصیت کی حمایت کر رہے ہوتے ہیں، ان کے لیے دلیل گھڑنا ان کے لیے آسان ہوتا ہے ، چاہے وہ کسی کو مظلوم اور مجبور ثابت کریں یا کسی کو طاقتور کے سامنے بے بس قرار دیں۔ لیکن جب حالات بدلتے ہیں اور دوسری شخصیت کو اسی طرح کی صورتحال کا سامنا ہوتا ہے ، تو وڑائچ کا زاویہ بالکل بدل جاتا ہے ۔ یہ تضاد نہ صرف ان کے کالموں میں واضح ہے بلکہ ان کے قارئین کے سامنے بھی اُبھر کر آتا ہے ۔ ان کی تحریروں میں موجود تضادات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ طاقت اور سیاست کے کھیل
میں ہر کوئی اپنا مفاد دیکھتا ہے ، چاہے وہ خود کو کتنا ہی غیر جانبدار پیش کرے ۔ ان کی غیر جانبداری کا لبادہ دراصل ایک خوبصورت پردہ ہے جس کے پیچھے ان کی سیاسی ترجیحات چھپی ہوئی ہیں۔