اگرایساہواتو۔۔۔!
شیئر کریں
سمیع اللہ ملک
11مئی 1995کوجوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤکے معاہدے میں فریق ممالک نے یہ ایک مرتبہ پھر سر جوڑ کر فیصلہ کیا تھاکہ عدم پھیلاؤ کامعاہدہ غیرمعینہ مدت تک مؤثر رہنا چاہیے۔ اس معاہدہ کاآغاز1970میں ہواتھااورابتدائی طورپراِس معاہدے کی مدت 25 برس رکھی گئی تھی۔اسی لیے 1995ء میں اس معاہدہ کے جائزے اوراس میں توسیع کیلئے ہونے والی کانفرنس کے سامنے دوراستے تھے کہ اِس معاہدے کومستقبل میں مؤثررکھنے کیلئے اس میں توسیع ،اس کی کوئی مقررہ مدت یایہ معاہدہ غیرمعینہ مدت تک ہوناچاہئے۔ دانشمندانہ طورسے این پی ٹی کے فریقین نے معاہدے میں غیرمعینہ مدت تک توسیع کافیصلہ کیاجس سے یہ یقینی بنانے میں مدد ملی کہ جوہری ہتھیاروں کاپھیلاؤروکنے کی کوششوں کی بنیاد قائم رہے گی۔پچیس سال بعداس فیصلے کی خوشی مناتے ہوئے اس بات کااعادہ کیاگیاکہ پچاس سال بعدبھی یہ معاہدہ عدم پھیلاؤکی مصدقہ ضمانتوں کیلئے شایدیک قابل اعتباربنیادمہیا کرتا رہے گاجس کی بدولت جوہری توانائی کے پرامن استعمال اورجوہری اسلحے پرکنٹرول اوراس کے خاتمے کی کوششوں کیلئے عالمگیرتعاون ممکن ہوتاہے۔
اگست 2016ء تک،191ریاستیں اس معاہدے کی فریق بن چکی ہیں جبکہ شمالی کوریانے1985میں اس میں شمولیت اختیارکی تھی لیکن کبھی اس کی تعمیل نہیں ہوئی بلکہ2003 میں جوہری آلات کے دھماکے کے بعداس معاہدے سے الگ ہونے کااعلان کردیا۔جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤمعاہدے پریواین2015ریویوکانفرنس میں برطانوی وزارت خارجہ کی وزیرمملکت بیرونس جوائس اینلے نے سرد جنگ کے بعدوارہیڈزکی عالمی تعداد میں نمایاں کمی کے باوجودعالمی تخفیف اسلحہ کی سست رفتار پر اضطراب کااظہارکرتے ہوئے کہاتھاکہ حالیہ برسوں میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے انسانی اثرات پرہونے والی کئی بین الاقوامی کانفرنسوں میں یہ احساس بہت نمایاں نظر آیاہے لیکن اس کے ساتھ یہ تصدیق بھی کردی کہ ہم ناروے اور امریکا کے ساتھ اپنے تاریخی تصدیقی کام کوجاری رکھیں گے۔
23جولائی 2024 کوجوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤسے متعلق جنیوامیں معاہدے کی گیارہویں جائزہ کانفرنس کی تیاری کے موقع پر چین کی وزارتِ خارجہ نے بیان جاری کیاکہ یہ معاہدہ بین الاقوامی جوہری تخفیف اسلحہ اورعدم پھیلاؤکے نظام کی بنیاد ہے اورسلامتی اور ترقی کیلئے انٹرنیشنل گورننس سسٹم کا ایک اہم ستون ہے،معاہدے کے ایک رکن ملک کی حیثیت سے چین نے ہمیشہ معاہدے کے مقصد کو مضبوطی سے برقراررکھاہے،اپنی ذمہ داریوں کووفاداری سے پوراکیاہے اورمعاہدے کے تین ستونوں: جوہری تخفیف اسلحہ، جوہری عدم پھیلاؤ اورجوہری توانائی کے پرامن استعمال کی جامع اورمتوازن پیش رفت کی وکالت کی ہے۔ان تمام مثبت کوششوں کے باوجودآخریہ معاہدہ کیوں ناکام ہوکررہ گیاہے اورعالمی امن کے خشک اورخطرناک ایندھن میں خاکم بدہن کبھی ایک چنگاری کاکام کرکے دنیاکوپتھرکے زمانے میں دھکیل سکتاہے۔
یوکرین میں جنگ کے آغازہی میں جن خدشات کاذکرکیاتھا،وہ بالآخردرست نکلے کہ امریکا نے سردجنگ کے زمانے کے جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلا ؤکے ایک اہم بین الاقوامی معاہدے سے یکطرفہ طورپردستبردارہونے کااعلان کردیا۔یہ معاہدہ جسے انٹرمیڈی ایٹ رینج نیوکلئیرفورسزٹریٹی(آئی این ایف)کہا گیا، 1987 میں اس وقت کے امریکی صدر ریگن اور سوویت یونین کے گوربا چوف کے درمیان طے پایاتھا۔درمیانی فاصلے تک مارکرنے والے جوہری ہتھیاروں کے اس معاہدے کامقصدوسیع سطح پرتباہی مچانے والے ہتھیاروں کی دوڑکوروکناتھا۔عالمی ماہرین نے اس معاہدے کوایک سنگِ میل قرار دیا تھا لیکن اچانک امریکا نے روس کی جانب سے لگائے گئے کروزمیزائل کواس معاہدہ کی خلاف ورزی قراردیکراپنی درپردہ پالیسی کااظہارکردیا۔روس نے امریکاکے اس الزام کو مسترد کیا جبکہ ٹرمپ نے اپنے دورِاقتدارمیںامریکی ریاست نویڈامیں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی تھی کہ ہم اس معاہدے کوختم کرنے جارہے ہیں اورہم اس سے دستبردارہوجائیں گے۔ جونہی 13 جون 2022 کو امریکا نے 13 جون 2002 کو ”اے بی ایم ” معاہدہ سے علیحدگی اختیارکرنے کااعلان کیا تواس سے اگلے ہی دن روس نے بھی”اسٹارٹ2”معاہدہ سے دستبرداری کا اعلان کر دیا۔
ادھرروس نے سردجنگ کے دوران ہونے والے 1989 کے انٹرمیڈیٹ رینج نیوکلیئرفورسزکے تحت میزائلوں پرعملدرآمدکرنے کے معاہدے کوخیرباد کہنے کی وجہ یہ بتائی کہ واشنگٹن نے روس کے نئے کروزمیزائل ٹیسٹ کوآئی این ایف کی شرائط کی خلاف ورزی قراردیتے ہوئے اس معاہدے کومعطل کردیاتھاجس کے جواب میں پیوٹن نے اس عزم کااظہارکیا کہ وہ سردجنگ دورکے ایٹمی ہتھیارکنٹرول کے معاہدے سے روس کونکال لیں گے جوایٹمی جنگ کے خلاف کیاگیاتھا۔انہوں نے کہاکہ حالیہ برسوں میں چین نے جوطرفہ معاہدے کا دستخط کنندہ نہیں ہے،ایٹمی میزائلوں میں خاصی پیش رفت کی ہے اس لئے فوجی خطرات کی وجہ سے اس معاہدے کی اہمیت کم ہوگئی ہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل روس نے واشنگٹن کی جانب سے نئے کروزمیزائل ٹیسٹ کی تردیدکردی تھی بلکہ اس نے جوابی اقدام کے طور پر امریکا پرالزام عائدکیاتھاکہ اس نے مشرقی یورپی رکن امریکی میزائل ڈیفنس سسٹم نصب کرکے اس معاہدے کی پہلے ہی خلاف ورزی کی ہے۔
پیوٹن نے کہاکہ اب ماسکونئے میزائلوں کی تیاری اورموجودہ نظام کی تبدیلی پرکام شروع کردے گا تاہم جب تک امریکافیصلہ نہیں کرتا اس وقت تک ہم ہتھیارنصب نہیں کریں گے ۔ اب اینٹ کاجواب پتھرسے دیتے ہوئے ہم بھی امریکی شراکت داری کی طرح اس معاہدے کومعطل قراردے رہے ہیں،واضح رہے کہ آئی این ایف معاہدہ زمین سے مارکرنے والے میزائلوں کے حوالے سے تھاجن کی حد پانچ سوکلومیٹراورپانچ ہزارپانچ سوکلومیٹرکے درمیان تھی۔تجزیہ نگاروں نے خبردارکیاہے کہ میزائلوں پرکنٹرول کے معاہدے کے خاتمہ اور یورپ سے میزائل ڈیفنس سسٹم کی تنصیب سے یورپی یونین کے ممالک کیلئے خطرہ ہوسکتاہے۔خارجہ تعلقات پریورپی کونسل کے شریک چیئرمین نے آئی این ایس کے خاتمہ کی صورت میں یورپ کوروسی زمینی لانچرسے پندرہ سوکلومیٹررینج کے کروزمیزائل سے ہی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔روس کے معاہدے سے نکلنے کے اعلان سے پہلے چین نے محاذآرائی ٹالنے کی کوشش کی تھی،ادھرامریکامیں کانگرس نے پینٹاگون کونئے میزائل کی تحقیق اورتیاری کیلئے فنڈز مہیاکر دیئے ہیں تاہم امریکی حکام نے زوردیاہے کہ امریکا یورپ میں فوری طور پر درمیانی حدکے میزائل کی تنصیب کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
امریکاکاماننا ہے کہ کئی مرتبہ مذاکرات کے باوجودکسی سمجھوتہ تلاش کرنے میں ناکامی کی وجہ سے امریکانے معاہدہ معطل کیاتھااورجوابی اقدام کے طورپرروس بھی سردجنگ کے دوران ہونے والے اس میزائل معاہدے آئی این ایف سے نکل گیاہے۔ برطانوی اخباردی گارڈین کے مطابق ٹرمپ کے قومی سلامتی کے مشیرجان بولٹن امریکاکواس معاہدے سے دستبرارکرانے کی کوشش کررہے تھے جبکہ امریکی محکمہ دفاع اس کوشش کے خلاف تھا۔ روس کے نائب وزیرِخارجہ سرگئی ریاب کووکے مطابق امریکاکی اس معاہدے سے دستبرداری سے جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤکی عالمی کوششوں کوشدیدجھٹکالگاہے اور روس کیلئے ناگزیرہوگیاہے کہ روسی فوج فعال میزائل پروگرام کیلئے زمینی لانچنگ سسٹم اور ہائپرسونگ گرانڈ بیس انٹرمیڈیٹ رینج میزائل تیارکرے جس میں اب وہ خودکفیل ہوگیاہے۔
”اسٹارٹ” یعنی سٹریٹجک آرمز ری ڈکشن ٹریٹی، جو تخفیفِ اسلحہ کا ایک عالمی معاہدہ1991میں روس اورامریکا کے درمیان طے پایا تھا اوریہ1994میں نافذ العمل ہوگیاتھا۔اس معاہدے کامقصداس وقت کی دوعالمی طاقتوں کے درمیان جوہری ہتھیاروں اوردورتک مار کرنے والے میزائلوں اور وسیع سطح پرتباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی کمی کرناتھا۔ امریکااورروس کے نمائندوں نے بیجنگ میں آئی این ایف کوبچانے کی کوششوں کے سلسلے میں مذاکرات کیے جوناکام رہے۔امریکاکے مطابق اگر روس نے اس معاہدے کی خلاف ورزی میں یورپ میں لگائے گئے میزائلوں کوتباہ نہ کیاتووہ آئی این ایف سے بھی فوری علیحدہ ہوجائے گاجبکہ ماسکونے امریکی مطالبے کومستردکرتے ہوئے کہاکہ اس کے”نوواٹور9ایم 729”میزائل اس معاہدے کی حدود و قیودکے مطابق لگائے گئے ہیں۔
روس کے وزیرخارجہ سرگئی لاوروف نے خبردارکیاہے کہ ایران کی شہری جوہری تنصیبات پراسرائیلی حملہ ایک”سنگین اشتعال انگیزی” ہو گا۔ اسرائیل وزیردفاع کے ممکنہ حملے کے متوقع جواب میں ایرانی پارلیمنٹ میں”این پی ٹی”سے دستبرداری پرغور شروع ہوگیاہے جبکہ ایران پہلے ہی قطرکے ذریعے امریکاکوپیغام دے چکاہے کہ اسرائیلی حملے کے جواب میں غیرروایتی جواب دیاجائے گا۔ اگر ایسا ہوا تو۔۔!