اس زندگی سے تو موت اچھی۔۔سچی کہانی فرضی نام کے ساتھ
شیئر کریں
ڈاکٹر سید مبین اختر
ثناءہر وقت تھکی تھکی رہتی تھی، نہ کسی کام میں دلچسپی ،نہ ہی کسی آنے جانے کا شوق۔ ثنا کے شوہر نے بہت کوشش کی کہ مختلف طریقوں سے اس کا دل بہلائے مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔شاہد، ثناءکی ہر وقت کی مایوسی اور اداسی سے جیسے اب تھک سا رہا تھا کچھ عرصے سے تو کسی کام میں دلچسپی لینا اور اسے کرنا تو دور کی بات اب تو اس نے کمرے سے نکلنا بھی بند کر دیا تھا۔ ثناءکا شوہر جب گھر آتا تھا تو بچے بے حال اور گھر بالکل بکھرا ہوا لگتا تھا۔ اب تو شاہد کو گھر جانے سے بھی خو ف آنے لگا تھا کہ گھر جاﺅں گا تو اداسی مایوسی اور بے ترتیبی کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔
شاہد کے دوست نے مشورہ دیا کہ بھابھی کو گھمایا پھرایا کرو ۔ Shoppingوغیرہ کراو¿ اور اس طرح ان کا دل بہل جائے گا۔ شاہد نے ثنا سے جب کہا کہ چلو میں تمہیں خریداری کے لیے بازار لے کر چلتا ہوں تو وہ چڑ گئی اور کہنے لگی آپ مجھے بازار لے جانے کو کہہ رہے ہیں۔ یہاں تو میں زندگی سے ہی بے زار بیٹھی ہوں، اس زندگی سے بہتر ہے کہ مجھے موت آ جائے ،آخر میں مر کیوں نہیں جاتی ہوں اور یہ کہہ کر ثناءرونے لگی ۔ شاہد کے ساتھ ساتھ ثناءکے بچے بھی پریشان ہو گئے اور وہ بھی رونے لگے کہ امی کو کیا ہو گیا ہے۔ نہ ہم سے پہلے کی طرح باتیں کرتی ہیں اور نہ ہماری کسی چیز میں دلچسپی لیتی ہیں اس کے بچے بھی اداس رہنے لگے اور کھانا پینا بھی صحیح سے نہیں کھاتے تھے۔ ثنا کے شوہر شاہد نے دفتر میں اپنے دوست سے مشورہ کیا کہ کیا کرے۔ اب تو بچے بھی پریشان رہنے لگے ہیں اور ماسی بچوں کا خیال ماں کی طرح تو نہیں رکھ سکتی ہے۔
شاہد کے دوست نے مشورہ دیا کہ کسی ڈاکٹر کو دکھاﺅ شاید بھابھی کو ڈپریشن ہو اور ساتھ میں کراچی نفسیاتی ہسپتال جانے کا مشورہ دیا۔ پہلے تو شاہد سوچ میں پڑ گیا کہ ثنا کو نفسیاتی ہسپتال لے کر جاﺅں کہ نہیں لیکن گھریلو حالات دن بدن بگڑتے دیکھ کر آخر ہسپتال جانے کا فیصلہ کر لیا۔
کراچی نفسیاتی ہسپتال میں ثناءکا علاج شروع ہو گیا اور دوائی کے علاج کے ساتھ نفسیاتی مسائل پر بھی گفتگو بھی ہوتی رہی ۔ ثناءکی طبیعت بہتر ہونے لگی اور کچھ عرصے میں ثناءمکمل صحت یاب اور زندگی کی طرف لوٹ گئی ۔ اب جب شاہد گھر آتا ہے تو گھر صاف ستھرا ہوتا ہے، کھانا بھی پکا ہوا ملتا ہے اور ان کے بچے خوشی خوشی سارے گھر میں کھیل رہے ہوتے ہیں۔ ثنا بھی ہنستی مسکراتی ہوئی شوہر کا استقبال کرتی ہے اور پورا خاندان بچوں کے ساتھ گھومنے پھرنے بھی جاتا ہے۔ شاہد سوچ ہی نہیں سکتا تھا اس کی زندگی میں یہ دن بھی واپس آ سکتا ہے۔اپنے مسائل اور ذہنی امراض کے لئے مندرجہ ذیل پتہ پر خط لکھیں:کراچی نفسیاتی ہسپتال ،ناظم آباد نمبر3 ،کراچی