مودی دور حکومت میں خواتین تشدد کا نشانہ
شیئر کریں
ریاض احمدچودھری
مودی سرکار کے تیسرے دور حکومت میں بھارتی خواتین کو زیادتی کے بعد قتل کرنے کے واقعات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ بھارتی ریاست بنگال کے شہر کولکتہ میں خواتین کے ساتھ زیادتی اور ان کوصنفی بنیادوں پر تشدد کا نشانہ بنانے کے یکے بعد دیگرے کئی واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔ حال ہی میں ہونے والے ایک انسانیت سوز واقعہ میں مغربی بنگال کے نواحی علاقے نندی گرام میں بی جے پی کے کارکنوں نے سیاسی مخالفت کی بنیاد پرخاتون کو برہنہ کرکے 300 میٹر تک پیدل چلنے پر مجبور کیا۔ برہنہ کئے جانے والی خاتون کے گھر والوں کو بھی بی جے پی کے کارکنان کی جانب سے مارا پیٹا گیا اور گھر کو بھی نقصان پہنچایاگیا۔متاثرہ خاتوں کا کہنا ہے کہ میں بی جے پی کے ساتھ تھی لیکن حال ہی میں دوسری پارٹی میں شامل ہوئی تھی جس کی وجہ سے مجھ پر حملہ کیا گیا۔ پولیس نے بی جے پی کے یوتھ صدر تاپس داس سمیت 6 افراد کو حراست میں لے لیا۔مودی سرکار کو اس وقت شدید ریاستی اور عالمی دباؤ کا سامنا ہے اور بی جے پی کے کارکن اپنی پارٹی کے لئے مزید شرمندگی کا باعث بن رہے ہیں۔
بھارت میں جنسی درندگی عروج پر، خواتین شدید غیرمحفوظ ہوگئیں، بھارت دنیا کا وہ واحد ملک بن چکا ہے جہاں عورت نہ آرمی کیمپوں میں محفوظ ہے اور نہ ہی پولیس اسٹیشن میں۔ آئے روز کبھی چلتی بس میں تو کبھی ہسپتالوں میں بھارتی خواتین کو اجتماعی زیادتیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔بھارت میں خواتین کا مستقبل شدید خطرے میں، بچیاں سکولوں، کالجوں، ہسپتالوں اور بازاروں میں جانے سے ڈرنے لگی ہیں۔حال ہی میں ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی ریاست کرناٹکا میں بی جے پی کے ایم ایل اے این مونیراٹھا نے ریاستی اسمبلی میں اپنے آفس کے اندر ایک خاتون کے ساتھ زیادتی کی ۔ ریاست کرناٹکا کے ضلع کاگالی پورا پولیس اسٹیشن میں این مونیراٹھنا کے خلاف ریپ کے علاوہ ذات پات کے مسئلے میں لوگوں کو اکسانے پر بھی ایف آئی آر درج ہیں ۔ پولیس کے مطابق بی جے پی کے ایم ایل اے این مونیراٹھنا اس وقت عدالتی حراست میں ہیں اور پولیس ان کے خلاف چارج شیٹ تیار کر رہی ہے۔
شائنگ انڈیا کا راگ الاپنے والا بھارت خواتین کیلئے غیر محفوظ ملک بن گیا ہے۔ بھارت میں جنسی تشدد کے واقعات روز بروز شدت اختیار کر رہے ہیں۔بھارت میں جرائم کا ریکارڈ رکھنے والے قومی ادارے کا کہنا ہے کہ ملک میں روزانہ اوسطاً جنسی زیادتی کے 92 مقدمے درج ہوتے ہیں۔نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق بھارتی دارالحکومت دہلی میں فی ایک لاکھ خواتین میں جنسی زیادتی کے معاملات کی شرح ملک بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ بھارت میں ریپ کے بہت سے معاملے پولیس تھانوں تک پہنچ ہی نہیں پاتے۔دہلی میں خواتین کی کل تعداد 87 لاکھ 80 ہزار ہے اور اس حساب سے یہاں ریپ کے مقدمات کی شرح 18.63 فیصد رہی۔اہم بات یہ ہے کہ دہلی میں گذشتہ برس کے دوران ایسے واقعات کے مقدمات کے اندراج میں دس فیصد سے زیادہ کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ گزشتہ سال یہاں یہ شرح صرف آٹھ اعشاریہ دو چھ فیصد ہی تھی۔
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق ریپ کے واقعات میں دہلی کے بعد دوسرے نمبر پر میزورام رہا جہاں ایسے معاملات کی شرح 17.8 فیصد رہی جو کہ گذشتہ برس کے مقابلے میں تین فیصد کم ہے۔اہم بات یہ ہے کہ اس پوری ریاست میں خواتین کی آبادی پانچ لاکھ ہے۔ اس فہرست میں تیسرے مقام پر سکم تھا جہاں خواتین کی کل آبادی صرف دو لاکھ 95 ہزار ہے تاہم اوسطاً ملک میں ریپ کے کل مقدمات میں سے تقریباً ساڑھے چودہ فیصد یہاں درج کیے گئے۔جنسی زیادتی کے معاملات میں کئی سال سے خبروں میں رہنے والی ریاست مدھیہ پردیش میں اس سال بھی سب سے زیادہ 4335 کیس درج ہوئے مگر یہاں ایک لاکھ خواتین کے حساب سے ان کی شرح بارہ فیصد رہی۔مدھیہ پردیش میں تقریبا تین کروڑ 58 لاکھ خواتین ہیں۔اب تو یہ حال ہے کہ بھارتی پولیس اور فوج کے عہدیدار و اہلکار ریپ کیسوں کی اعانت کرتے ہیں۔ زیادہ تر ریپ کیس پولیس اہلکاروں کے زیر سایہ ہو رہے ہیں۔ بھارتی پولیس کے اعلی افسرنے انتہائی شرمساری سے یہ انکشاف کیا ہے کہ خاتون فوٹو جرنلسٹ کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے واقعے میں ملوث پانچ ملزمان میں سے ایک ملزم پولیس کا اپنا آدمی تھا، جس سے پولیس علاقے میں مخبری کا کام لیتی تھی۔ بھارتی پولیس کے اس واقعے میں مخبر کے ملوث ہونے کی اطلاعات کے بعد تفتیش پر بھی سوال اٹھنا شروع ہو گئے ہیں کہ آیا بھارتی پولیس اس کیس کو اپنے منطقی انجام تک پہنچائے گی اور کیا اس ظلم کا شکار فوٹو جرنلسٹ کے انصاف کیا جائے گا۔پولیس چیف نے اعتراف کیا کہ پولیس کا ایسا رویہ بھارت میں خواتین کے خلاف جرائم میں کمی کے بجائے اضافے کا باعث بنے گا۔ اگر ہمیں اپنے دیش میں بڑھتے ہوئے جرائم کو ختم کرنا ہے تو بھارتی پولیس کو بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔
بھارت میں 2012 میں جنوبی دہلی میں ایک لڑکی کی جنسی زیادتی کے بعد موت کے نتیجے میں ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔اس کے بعد ملک میں خواتین کے تحفظ کے لیے سخت قوانین بنائے گئے لیکن عمومی رائے یہی ہے کہ یہ قوانین ایسے واقعات کو روکنے کے لیے کافی نہیں۔بھارتی فلم انڈسٹری کی اداکاروں کا کہنا ہے کہ ہمارے ملک بھارت میں خواتین کی عزت محفوظ نہیں ہے حکومت کو اس حوالے سے قوانین بدلنے چاہئیں۔ ممبئی میں خواتین بہت زیادہ غیر محفوظ ہیں حکمرانوں کو خواتین کو تحفظ دینے کیلئے نئے قوانین بنانا ہوں گے۔