سپریم کورٹ نے بلڈوزر کومسمار کردیا!
شیئر کریں
معصوم مرادآبادی
غیرقانونی، غیردستوری اور غیراخلاقی بلڈوزر کارروائی پرگزشتہ منگل کو سپریم کورٹ نے اگرچہ عبوری پابندی لگائی ہے ، لیکن اس سے ان تمام لوگوں نے راحت کی سانس لی ہے جو بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں آخری درجے کے ظلم وستم کا شکار ہیں۔ تمام قانونی ضابطوں اور اخلاقیات کو پس پشت ڈال کر جس طرح مسلمانوں کی جائیدادوں پر بلڈوزر چلایا جارہا ہے ، وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ سپریم کورٹ نے واضح الفاظ میں کہا کہ”ملک میں ناجائز انہدام کا کوئی بھی معاملہ آئینی اخلاقیات کے خلاف تصور کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں آئندہ سماعت کی تاریخ یکم اکتوبر طے کی گئی ہے اور اس وقت تک عدالت کی اجازت کے بغیر کوئی توڑ پھوڑ نہیں کی جائے گی، البتہ سپریم کورٹ کا یہ حکم سڑک اور فٹ پاتھ پر بنے ہوئے ناجائز ڈھانچوں پر نافذ نہیں ہوگا۔عدالت نے کہا ہے کہ وہ اس سلسلے میں تمام فریقین کو سننے کے بعد گائڈ لائن جاری کرے گی۔
سماعت کے دوران سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت کی توجہ اصل مسئلہ سے ہٹانے کی کوشش کرتے ہوئیکہا کہیہ بیانیہ قایم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ایک خاص برادری کے گھروں کو منہدم کیا جارہا ہے ۔ اس پر عدالتی بنچ نے کہا کہآپ بے فکر رہیں، بیرونی شور ہمیں متاثر نہیں کرتا۔ کسی کا مکان صرف اس لیے کیسے منہدم کیا جاسکتا ہے کہ وہ ایک ملزم ہے ۔ عدالت کی یہ رولنگ جمعیة العلماء اور بعض دیگر فریقوں کی عرضیوں پر سماعت کے دوران سامنے آئی ہے ۔ظاہر ہے عدالت عظمیٰ کے اس قدم سے ان لوگوں کو راحت ملی ہے جوگزشتہ ایک عرصے سے بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں بلڈوزردہشت گردی کا شکار ہیں اور جہاں بغیر کسی قانونی کارروائی کے ان کی زندگی بھر کی محنت کو ملبے میں تبدیل کیا جارہا ہے ۔ حالیہ عرصے میں ایسے کئی المناک واقعات سامنے آئے ہیں جہاں کسی ملزم کے گھر پرصرف اسلیے بلڈوزر چلاکر مسمار کردیا گیا ہے کہ وہ مسلمان ہے ۔ گزشتہ ہفتہ آسام کی بی جے پی سرکار میں بلڈوزر ایسی ہی ظالمانہ کارروائی کی مخالفت کرنے والوں پر پولیس نے اندھادھند فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں دوبے گناہ مسلم نوجوان ہلاک ہوگئے ۔
یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ اس ملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی ہے اورکسی کو بھی اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کسی کو سزادے سکے ۔ مگر بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں یہ چلن عام ہوگیا کہ کوئی مسلمان اگر کسی معاملے میں ملزم قراردیا جاتا ہے تو اسسب سے پہلے اس کا مکان منہدم کردیا جاتا ہے ۔ اس سلسلہ کی سب سے بڑی واردات پچھلے دنوں مدھیہ پردیش کے چھترپور میں ہوئی تھی،جہاں توہین رسالت کے خلاف احتجاج کی قیادت کرنے والے مقامی لیڈر حاجی شہزاد علی کا دس کروڑ روپے کی لاگت کا مکان آن واحد میں بلڈوزر چلاکر مسمار کردیا گیا تھا۔ حاجی شہزاد علی کو پہلے مقامی تھانے پر پتھراؤ کا ملزم قراردیا گیا اور اس کے بعد ان کے عالیشان مکان پر بلڈوزر چلاکراسے تہس نہس کردیا گیا۔ اتنا ہی نہیں ان کے گھر میں کھڑی ہوئی قیمتی کاریں بھی بلڈوزر سے روند دی گئیں۔اسی دوران اترپردیش کے ایودھیا میں آبروریزی کا الزام لگا کر وہاں کے ایک تاجر معید خاں کا شاپنگ کمپلکس منہدم کردیا گیا تھا، جس میں تقریباً پچاس دکانیں اور ایک بینک تھا۔یہ دونوں کارروائیاں بغیر کسی قانونی عمل کے انجام دی گئی تھیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جونہی کوئی مسلمان کسی معاملے میں قانون کی گرفت میں آتا ہے تو سب سے پہلے اس کے مکان یا کاروباری ادارے کو ناجائز تعمیر قرار دے کر اس پر بلڈوزر چلادیا جاتا ہے ۔ جو عمارت برسوں سے قانونی تھی وہ اچانک ناجائز تعمیرات کے زمرے میں کیسے آجاتی ہے ، یہ بات کسی کی سمجھ میں نہیں آتی۔ اس سے یہ اندازہ ہوا کہ بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں مسلمانوں کے ساتھ جان بوجھ کر سوتیلا سلوک کیا جارہا ہے ۔اس سے قبل اسی مدھیہ پردیش میں غریب مسلمانوں کی ایک پوری بستی کو یہ کہہ کر منہدم کردیا گیا تھا کہ وہاں گاؤ کشی ہورہی تھی۔ قانون کی نگاہ میں اگر کوئی ملزم ہے تو اس کی مذہبی شناخت کی بناء پر اسے بخشا نہیں جاناچاہئے ۔ کیونکہ قانون کی نگاہ میں سب برابر ہیں اور اس اعتبار سے ہرایک کے ساتھ سلوک کیا جاناچاہئے ۔اس کے لیے قانون میں طریقہ کار موجود ہے ۔سرکاری مشنری کا بنیادی کام اس طریقہ کار کی پیروی کرتے ہوئے کسی بھی ملزم کو وافر ثبوتوں اور شہادتوں کے ساتھ عدالت کے روبرو پیش کرنا ہوتا ہے ۔ یہ عدالت کاکام ہے کہ وہ دستیاب شواہد کی روشنی میں کسی بھی ملزم کی قسمت کا فیصلہ صادر کرے ۔ لیکن یہ کام اگر حکومت کی مشنری اپنے ہاتھ میں لے کر لوگوں کو سزائیں دینے لگے تو پھر ملک کے اندر عدالتوں اور قانون کی ضرورت ہی کہاں باقی رہتی ہے ۔
بلڈوزر کارروائی کے دوران سب سے المناک واقعہ گزشتہ دنوں آسام کے کامروپ ضلع میں پیش آیا جہاں اپنے گھروں کو توڑنے کے خلاف احتجاج کرنے والے مسلمانوں پر پولیس نے بے خطر گولیاں چلا دیں، جس کے نتیجے میں دومسلم نوجوان موقع پر ہی ہلاک ہوگئے ۔ بعدازاں جب یوڈی ایف کے ممبراسمبلی مقامی مسلمانوں کا حال جاننے علاقہ میں گئے تو پولیس نے ان کے ساتھ دھکا مکی اور بدتمیزی کی۔ مزید افسوس اس بات کا ہے کہ صوبائی وزیراعلیٰ نے خاطی پولیس والوں کی سرزنش کرنے اور ان کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے الٹے غریب متاثرتن کو ہی سنگین نتائج کی دھمکی دی۔یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ آسام کے وزیراعلیٰ ہیمنت بسوا سرما آئے دن مسلمانوں کے خلاف اپنی متعصبانہ ذہنیت کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں۔ انھیں آسام میں مسلمانوں کی آبادی سے خدا واسطے کا بیر ہے اور وہ ان کی تعداد کم کرنے کے فارمولوں پر غور کرتے رہتے ہیں۔ان کی ریاست میں بھی انصاف قایم کرنے کاکام بلڈوزر کے حوالے کردیا گیا ہے ۔
بلڈوزر کے ذریعہ انصاف قائم کرنے کا سلسلہ سب سے پہلے اترپردیش میں شروع ہوا تھا اور وہاں کے وزیراعلیٰ کو ‘بلڈوزربا با’ کہا جانے لگا تھا۔ اس کے بعد مدھیہ پردیش کے سابق وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نے کمان سنبھالی اور انھیں ‘بلڈوزر ماما’کہا جانے لگا۔ اس کے بعد بی جے پی کے اقتدار والی دیگر ریاستوں میں بلڈوزر کو ایک پالیسی کے طورپر اپنا لیا گیااور اب بلڈوزر کارروائیاں روز کا معمول بن گئی ہیں، جن کی وجہ سے مسلمانوں میں دہشت پیدا ہوگئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم تنظیموں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے اس معاملے میں سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور انصاف کی پکار لگائی۔سپریم کورٹ نے اس معاملے میں واضح موقف اختیار کیا اوراس پر عبوری پابندی عائد کرتے ہوئے کہا کہ بلڈوزر جسٹس کی تعریف وتوصیف نہیں ہونی چاہئے ۔ اگر ناجائز انہدام کا ایک بھی معاملہ ہے تو یہ دستور ی اقدار کی خلاف ورزی ہے ۔ اس معاملے میں عدالت نے فی الحال دوہفتہ تک پابندی عائد کی ہے ۔ وہ اگلی سماعت کے دوران حتمی فیصلہ صادر کرے گی۔ جب اٹارنی جنرل تشار مہتہ نے اس معاملے میں آناکانی کی تو عدالت نے حکومت کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہدوہفتہ تک بلڈوزر پرروک سے کوئی آسمان نہیں گرپڑے گا۔ حکومت نے جب ملک گیر سطح پر امتناع پر اعتراض کیا تو عدالت نے اسے یہ کہہ کرمسترد کردیا کہ ‘عدالت دستور کی دفعہ142کے تحت اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے یہ احکامات جاری کررہی ہے ۔عدالت نے عندیہ دیا کہ وہ رہنما خطوط کی بجائے غیرقانونی بلڈوزر کارروائیوں کے خلاف احکامات جاری کرسکتی ہے ۔عدالت کے اس واضح موقف سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ملک میں ‘بلڈوزر جسٹس’ کے نام پر جاری آخری درجہ کے ظلم کو روکنے میں کامیاب ہوجائے گی اور ملک میں انصاف کا نظام قائم ہوگا۔