کامیابی کا راز: عاجزی یاتکبر
شیئر کریں
سمیع اللہ ملک
ایک ہاتھ سے ٹوپی سنبھالے بھاگتاہواآدمی سامنے شیڈمیں کھڑی چمکدارکارکے ڈرائیورکے کان میں سرگوشی کرتاہے توفوراباہر کے ماحول میں ایک سراسیمگی اورحرکت پیداہوجاتی ہے۔وہ چمکدارگاڑی جوکچھ دیرپہلے ایک شیڈکی چھاں میں دفترکے سامنے کھڑی تھی،جس پروقفے وقفے سے ڈرائیوراس کی دیکھ بھال کرتے ہوئے گرد صاف کررہاتھا،مکھی تک کو بیٹھنے نہیں دیتاتھا،وہ فوراگاڑی چوکس حالت میں ممکن حدتک دفترکے دروازے کے قریب لاکرکھڑی کردیتاہے اورڈرائیورباہرنکل نگاہیں نیچے کرکیمدب دفترکی طرف منہ کرکے کھڑا صاحب کاانتظارکرتاہے۔اتنے میں بڑے دفترکادروازہ کھلتاہے۔چپراسی بریف کیس اور صبح کی اخباریں ہاتھ میں لئے باہرآتاہے اوردوسراآدمی ہاتھ میں کچھ فائلیں لئے اس کے پیچھے پیچھے چل رہا ہے۔ ڈرائیورکے پیچھے والی سیٹ کادروازہ کھول کرنہائت سلیقے سے پہلے فائلیں اوراس کے ساتھ بریف کیس کے اوپراخباریں رکھ دیں جاتی ہیں۔پھر ڈرائیورکے ساتھ والی سیٹ کوزورلگا کرآخرممکن حدتک آگے کردیاجاتاہے تاکہ پچھلی سیٹ کے سامنے کافی جگہ آرام سے ٹانگیں پھیلانے کیلئے میسرآجائے۔گرمی کاموسم ہوتو ائرکنڈیشن صاحب کے دفتر سے نکلنے سے بیس منٹ پہلے چلادیاجاتاہے ۔
صاحب بہادرایک شانِ بے نیازی سے برآمد ہوتے ہیں،اردگردموجودلوگ ایک دم ساکت وجامدہوجاتے ہیں،گفتگوکرنے والابات کرنابھول جاتاہے،بے ترتیب یونیفارم والا ٹوپی سیدھی کرلیتاہے اورسگریٹ پیتاہواشخص سگریٹ پھینک دیتاہے یاکہیں چھپا دیتا ہے۔ پچھلادروازہ جوڈرائیورسے دوسری سمت والاہے اسے کھول کرسرجھکائے کوئی شخص کھڑا ہوتاہے۔صاحب بہادرتشریف رکھتے ہیں، اشاروں کامنتظرگاڑی کوخراماں نکالتاہوامنظرسے غائب کردیتاہے۔پوراراستہ صاحب بہادریاتواخباروں کی ورق گردانی کرتے ہیں یا پھر اگرکوئی فائل ضروری محسوس ہوتواسے دیکھاجاتاہے۔وہ حتی الامکان کھانسنے سے بالکل پرہیزکرتاہے اوراگرایساہوجائے توکھانسنے کی تکلیف سے فارغ ہوتے ہوئے اپنی اس حرکت پربڑانادم اورشرمساردکھائی دیتاہے۔
اس پورے سفرمیں ڈرائیورکی حیثیت ایک کل پرزے سے زیادہ نہیں ہوتی۔یوں لگتاہے کہ کہ کمپنی نے سٹیئرنگ،گیئریاسیٹ کی طرح اسے بھی فکس کردیاہے جسے صرف احکامات سننے اوراس پرعمل کرناہے۔وہاں روک دو،ادھر لے چلو،میرایہاں انتظار کرو،میں واپس آرہا ہوں، مجھے یہاں تین گھنٹے لگ جائیں گے اورڈرائیورروبوٹ کی طرح سرہلاکریا پھر منہ سے سعادت مندی کے الفاظ نکالتارہتاہے۔یہ منظرآپ کوہراس دفتریاادارے کے باہرملے گاجہاں کوئی صاحبِ اختیارتشریف رکھتاہے۔کسی سرکاری یاغیر سرکاری کاکوئی امتیاز نہیں۔ وزیر کادفتریاسیکرٹری کا،جرنیل کاہیڈکوارٹریاعدلیہ کی عمارات،کسی پرائیویٹ کمپنی کے دفاترہوں یا بینک کی شاندارعمارت،سب جگہ صاحبانِ طاقت اوروالیانِ حیثیت کیلئے ایک ہی سیٹ مخصوص ہے۔ان کی گاڑی کہیں پہنچے ،لوگ وہی دروازہ کھولنے کیلئے لپکتے ہیں۔
پاکستان میں جب میں یہ سارے مناظردیکھتاہوں تواکثرمیرے ذہن میں یہ سوال اٹھتاہے کہ یہ سب لوگ ڈرائیورکے ساتھ والی سیٹ پرکیوں نہیں بیٹھتے۔کیاوہ آرام دہ نہیں،کیا وہاں ائرکنڈیشن کی ہواصحیح طورپرنہیں پڑتی،کیاوہاں سے راستہ،اردگردکی عمارتیں یا لوگ ٹھیک طرح سے نظرنہیں آتے؟؟؟لیکن ان سب سوالوں کاجواب نفی میں ملتاہے۔یہ سامنے والی سیٹ زیادہ آرام دہ بھی ہے اور ائرکنڈیشن کی ہوا بھی اگلی سیٹ پرزیادہ لطف دیتی ہے،باہرکامنظربھی صحیح طورپرنظرآتاہے توپھراگلی سیٹ خالی کیوں رہتی ہے یاپھراس میں سٹاف آفیسریاپی اے کیوں بٹھایاجاتاہے؟
دراصل یہ کہانی اس نفرت اورتکبرکی ہے جس میں ڈرائیورکی حیثیت ایک انسان سے کم ہوکربادشاہوں کے رتھ اورمہاراجوں کی بڑی بڑی سواریاں چلانے والوں کی ہواکرتی تھیں ۔ یہ کیسے ہوسکتاہے کہ ایک اعلی مرتبہ اورمقام رکھنے والی شخصیت ڈرائیور کے برابرآکر بیٹھ جائے اوردیکھنے والے ان دونوں میں تمیزتک نہ کرسکیں کہ کون افسرہے اورکون معمولی حیثیت کا ڈرائیور۔ ایک زمانہ ان متکبر افسران، وزرا، جج،جرنیل اوراعلی عہدیداروں پرایساآیاکہ ان کو چھوٹی سوزوکی پرسفرکرناپڑاجس کی پچھلی سیٹ انتہائی بے آرام اورکم جگہ والی تھی لیکن تکبر اپنا راستہ خودبناتاہے۔اگلی سیٹوں کومکمل طورپرفولڈکیاجانے لگااورآقاومالک کی تمیزکوبرقراررکھنے کے نئے نئے طریقے دریافت کئے گئے۔
یہ رویہ ان ساری قوموں پرگزراہے جنہوں نے انسانوں کوغلام اورمحکوم بنانے کے ڈھنگ ایجادکئے تھے۔امریکامیں” جم کرو”کے قوانین کے تحت بسوں میں کالوں کی سیٹیں گوروں کی سیٹوں سے علیحدہ یعنی پچھلی طرف ہوتیں اوراگرکوئی کالااگلی سیٹ پر بیٹھ جاتاتواسے گولی ماردی جاتی اوراگرکوئی گوراپچھلی سیٹ پربیٹھنے کی جسارت کرتاتولوگ اسے طعنے مارمار کر ماردیتے ۔لندن شہرمیں آج بھی کالے رنگ کی ٹیکسیوں کارواج ہے جس میں ڈرائیورکی سیٹ اورسواریوں کے درمیان شیشے کی دیوار فکس ہے جس کی کھڑکی صرف مسافرکھول سکتا ہے تاکہ ڈرائیورکی حیثیت،مرتبہ اوراس سے بات کرنے کاتعین بھی وہی کرے جوپچھلی سیٹ پربراجمان ہے۔صدیوں تک فرعونوں، شہنشاہوں،آمروں،ڈکٹیٹروں اوران کے چھوٹے چھوٹے کارپردازوں کی سواریاں بھی ایسی تھیں کہ ان کاعام لوگوں سے کوئی تعلق نہ رہے۔ دھول اڑاتی یہ سواریاںجہاں عوام الناس کا مذاق اڑاتی تھیں وہاں ان سواریوں پرسفرکرنے والے بھی انسانوں کے درمیان تمیز، فرق اورآقااورغلام کے قانون میں بٹے ہوئے تھے۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ کئی ایک مناظرایسے بھی یہاں دیکھنے کوملتے ہیں جس کو دیکھتی آنکھیں اپنے اندرصدیوں محفوظ کر لیتی ہیں۔ چند سال پہلے پاکستان کے فوراسٹار جنرل میرے ساتھ گاڑی میں جارہے تھے کہ اچانک ٹریفک سگنل پرگاڑی کھڑی کی توساتھ والی لین میں برطانیہ کے وزیراعظم بھی اشارہ کھلنے کے منتظرتھے۔میں نے فوری طور پراپنے مہمان کو ساتھ والی لین کی طرف دیکھنے کی دعوت دی اور کہا” کیا آپ جانتے ہیں کہ اس گاڑی میں پچھلی سیٹ پربیٹھاہواشخص اس ملک کاوزیرِاعظم ہے ۔میں نے وزیراعظم کی طرف دیکھ کرجونہی ہاتھ ہلایاتواس کے جواب میں اس نے کئی مرتبہ ہاتھ ہلاتے ہوئے شکریہ اداکیااور اسی اثنا میں ٹریفک سگنل کھل گیااورہم دونوں اپنی اپنی راہ پرچل دیئے۔ میرے مہمان نے باقی ساراسفرنہائت خاموشی میں گزارا، پتہ نہیں اس خاموشی میں کوئی ندامت تھی یا میرے سوال کاان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
ہمارے ہاں صدراوروزیراعظم اول توعوام سے کوسوں دورہیں لیکن اگرکبھی نکلناپڑے توسینکڑوں گاڑیوں کے سائرن بجاتے ہوئے قافلے کے جلومیں نکلتے ہیں۔اعلی عدلیہ کے چیف جسٹس بھی بیس گاڑیوں کے سکواڈمیں آتے جاتے ہیں،ملک کے وزیرِداخلہ جن کے ذمے اس ملک کے شہریوں کی سلامتی کی ذمہ داری ہے،وہ اس وقت کہیں نہیں جاتے جب تک ایک بھاری سیکورٹی گارڈان کوچاروں طرف سیکورٹی فراہم نہیں کرتے۔اب تومعمولی وزرابھی سیکورٹی اورسائرن والی گاڑیوں کے بغیرسفرنہیں کرتے۔تکبر ،غروراور گھنٹوں ساتھ چلنے، آرام پہنچانے والے شخص سے کراہت اوردوری کے اس ماحول میں پتہ نہیں کیوں مجھے اپناماضی یاد آجاتا ہے اوراسلاف کے وہ معیار آنکھوں کے سامنے گھومنے لگتے ہیں ۔روم کے بادشاہوں کی طرح رہن سہن اورلباس پہننے والوں عیسائیوں کے بیت المقدس پرجب پھٹے پرانے کپڑے پہننے والے مسلمانوں نے فتح حاصل کی توشہرحوالے کرنے کیلئے خلیفہ وقت حضرت عمرفاروق کاانتظارتھا۔ایک گھوڑاجس کے سم گِھس کربیکارہوچکے تھے،رک رک کرقدم رکھتاتھا،اس کے ساتھ خلیفہ وقت اورفاتح ایران وشام عمرابن خطاب اورغلام موجود۔طے ہوا کہ آدھاراستہ غلام سواری کرے گااورآدھاراستہ خلیفہ ۔بیت المقدس قریب آیاتوباری غلام کی آگئی اورپھرتاریخ نے انسانی احترام کا عجیب و غریب منظردیکھا۔غلام گھوڑے پرسواراور خلیفہ وقت باگ تھامے بیت المقدس میں داخل ہوئے۔شاہی کروفراورلباس پہنے رومی عیسائی صرف ایک فقرہ بول سکے”ایساہی شخص عزت کا مستحق ہے اورایسے ہی شخص کوفتح نصیب ہواکرتی ہے”۔اس تاریخی فقرے کے بعد بھی اگر کوئی مجھ سے سوال کرتاہے کہ ہم دنیامیں ذلیل ورسواکیوں ہیں،بے آبرواوربے آسراکیوں ہیں،تومجھے کوئی حیرت نہیں ہوتی!
ہمارے وزیراعظم امریکا21ستمبرکوبرطانیہ اورامریکاکے دورے پرروانہ ہورہے ہیں جہاں ان کی ملاقاتیں عالمی مالیاتی اداروں سے بھی ہونی ہیں جن کے بارے میں ان کوکہناہے کہ یہ ادارے ناک کی لکیریں نکلوانے کے بعدسودی قرض جیسی لعنت دینے کاوعدہ کریں گے۔
رہے نام میرے رب کاجس کے ہاتھ میں عزت وذلت ہے۔
یہ آرزوتھی کہ ہم اس کے ساتھ ساتھ چلیں
مگروہ شخص تورستہ بدلتاجاتاہے
وہ بات کہہ،جسے دنیابھی معتبرسمجھے
تجھے خبرہے،زمانہ بدلتاجاتاہے