میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
انسانیت کی بے لوث خدمت ہی اصل عشق مصطفی ؐ ہے!

انسانیت کی بے لوث خدمت ہی اصل عشق مصطفی ؐ ہے!

جرات ڈیسک
منگل, ۱۷ ستمبر ۲۰۲۴

شیئر کریں

آج پاکستان اور آزاد کشمیر سمیت دنیا بھر میں اہل اسلام آمد مصطفیؐ کو بڑی عقیدت اور جوش سے منارہے ہیں۔پاکستان اور آزاد کشمیر میں ربیع الاول کا چاند نظر آتے ہی آمد مصطفی کا جشن منانے کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں اور گلی کوچوں اور بازاروں کو سجانے کے نت نئے سازوساما ن کی عارضی دکانیں سجنا شروع ہوجاتی ہیں،اس کے پیچھے کوئی دنیاوی لالچ کارفرما نہیں ہوتی بلکہ نبی آخرالزمان سے محبت ہی اس کی پشت پر کارفرما ہوتی ہے۔سیرت نگاروں کی ایک رائے کے مطابق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت 12 ربیع الاول کو ہوئی۔ مگر آپ کی ولادت باسعادت کا روز سعید پیر کا دن ہی تھا، اس پر بالعموم اتفاق ہے۔ ابن کثیر حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت بھی پیر کے دن، بعثت بھی پیرکے دن، مکہ سے ہجرت بھی پیر کے دن، مدینہ میں تشریف آوری بھی پیرکے دن اور رحلت بھی پیر کے دن ہوئی۔ اللہ رب العزت نے جہاں آپ کوتمام انسانیت سے افضل اوراعلیٰ مقام و مرتبہ عطا فرمایا ہے وہاں آپ کو بہت سے ایسی خوبیاں اور خصوصیات بھی عطا فرمائی ہیں جو تمام انبیاء اور کل کائنات سے آپ کوممتاز کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سیکڑوں خصوصیات آپ کودے رکھیں ہیں۔اس روئے ارض پر انسانوں کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ کے بعد حضرت محمد ہی، وہ کامل ترین ہستی ہیں جن کی زندگی نے اپنے اندر عالم انسانیت کی مکمل رہنمائی کا پورا سامان مہیا کیا ہے تا کہ بنی نوع انسان ان کی اتباع کر کے فلاح پا سکیں۔حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہادی عالم، وجہ تخلیق کائنات اور انسان کامل تھے۔سرور کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پوری دنیا کیلئے عملی نمونہ بن کر آئے،ان جیسا کوئی نہ تھا اور نہ ہی آئے گا،سرور کائناتؐ کا مقام بہت ہی اعلیٰ و ارفع ہے۔اللہ رب العزت اور فرشتے بھی آپؐ پر دورد وسلام بھیجتے ہیں۔حضور ؐ اتنے شان والے ہیں کہ آسمان والے بھی آپ ؐکا تذکرہ کرتے ہیں اور زمین والے بھی آپ ؐ کو یادکرتے ہیں۔صبح سے لیکر شام تک اور شام سے لیکر صبح تک آپؐ کا ذکر ہوتا ہے۔دن ا ور رات، صبح و شام آپؐ کاذکر ہوتا ہے۔ چین سے امریکہ تک مشرق سے مغرب تک اور شمال سے جنوب تک آپؐ کا ذکر بلند ہوتا ہے۔عرش پر آپؐ کا ذکر اور فرش پر آپؐ ذکر،کلمہ طیبہ میں آپؐ کا ذکر، اذان میں آپؐ کا ذکر ہے، نماز میں آپؐ کا ذکر ہے اورقرآن مجید میں آپ ؐ کا ذکر ہے۔ اللہ رب العزت قرآن مجید فرقان حمید میں فرماتے ہیں کہ”ورفعنالک ذکرک“ بیشک ہم نے آپؐ کا ذکر بلند فرمایا۔بلاشبہ ہر لمحہ اور ہر وقت آپؐ کا ذکر بلند ہوتا ہے۔ رہبر انسانیت سیدنا محمد رسول اللہ کی شخصیت قیامت تک آنے والے انسانوں کیلئے بہترین نمونہ ہے۔ سید الانبیاء حضرت محمد مصطفی ؐ سے محبت وعقیدت مسلمان کے ایمان کا بنیادی حزو ہے اور اللہ رب العزت کی نعمتوں میں ایک بہت بڑی نعمت او ر دولت ہے کہ اس نے ہمیں نبیؐ کی امت میں پیدا کیا اور ہمیں ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دی۔ رسول اللہؐ سے محبت دنیا کی تمام محبتوں میں بالکل منفرد اور ان میں سب سے ممتاز ہے اور یہ ایسی محبت ہے کہ جس کا کوئی نعمت البدل ہی نہیں ہے بلکہ رسول اللہؐ سے محبت ہی صرف وہ چیز ہے جو دنیااور آخرت میں کامیابی کی ضمانت اور اللہ رب العزت کی محبت پانے کاذریعہ ہے۔ اور اسی طرح کسی بھی شخص کاایمان اس وقت تک مکمل قرار نہیں دیا جا سکتا جب تک رسول اللہؐ کو تمام رشتوں سے بڑھ کر محبوب ومقرب نہ جانا جائے،یہ بات ہر مسلمان اچھی طرح جانتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی اصلاح کیلئے آسمانی کتب کے ساتھ رسول بھی بھیجے، جنہوں نے اپنی پاک سیرت کے ذریعے انسانوں کو تعلیم و تربیت دی تاکہ وہ انسانیت کی تکمیل کر سکیں، یہاں تک کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلہ رسالت کی تکمیل کر دی اور اب قیامت تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔رشاد باری تعالیٰ ہے: اور نہیں بھیجا ہے ہم نے تم کو اے نبیؐ ؐمگر رحمت بناکر جہاں والوں کے لیے۔ (سورۃ الانبیاء)آیت میں مذکور لفظ”عالمین“، عالَم کی جمع ہے،جس میں ساری مخلوقات بشمول انسان،فرشتے،جنات، حیوانات، نباتات،جمادات سب ہی شامل ہیں۔ رسول اکرؐم ان سب چیزوں کے لیے رحمت اس طور پر ہیں کہ دنیا میں قیامت تک اللہ تعالیٰ کا ذکر وتسبیح اور اس کی عبادت وبندگی آپ ؐکے دم سے قائم اور آپ ؐکی تعلیمات کی برکت سے جاری و ساری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب زمین پر کوئی بھی اللہ اللہ کہنے والا نہیں رہے گا تو قیامت آ جائے گی۔
قرآن پاک کے بغور مطالعہ سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ جس چاہت، الفت، اُنس، پیار و عقیدت سے نبی آخری الزماں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ذکر قرآن پاک میں بار بار کیا گیا ہے اْس کی نظیر اور مثال کہیں اور ممکن نہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے اس آخری نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اپنے محبوب سے اس قدر والہانہ پیار اور وارفتگی و وابستگی ہے کہ بیان سے باہر ہے۔ تقریباً ایک لاکھ 24 ہزار نبیوں اور پیغمبروں میں سے محمّد صلی اللہ علیہ و آل وسلم کی ذاتِ اقدس واحد ہستی ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے دیدارِ الٰہی اور آسمانوں کی سیر کے لیے منتخب کیا اور پھر کس شان سے سورہء بنی اسرائیل کے آغاز میں اس کا ذکر کیا۔ اْس رات کو نہ صرف آقا کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو آسمانوں کی سیرکرائی گئی بلکہ قبلہ اوّل مسجد اقصیٰ میں تمام نبیوں کی امامت کا فریضہ بھی سونپاگیا اور یہ اعزاز ہمارے پیارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حصّہ میں ہی آیا۔اللہ تعالیٰ کو اپنے محبوب کریم صلی اللہ علیہ و آل وسلم کے آرام، عزت و احترام، تقدس و طہارت اور شان و شوکت کا اس قدر خیال ہے کہ قرآن پاک میں جگہ جگہ بڑے خوبصورت پیرائے میں اس کا ذکر فرمایا ہے۔ کہیں لوگوں کو راعنا اور انظرنا کے فرق سے آگاہ کیا تو کہیں نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حجرہ مبارک کے باہر سے آواز دے کر بلانے سے منع فرمایا۔ کہیں اْنہیں آقا کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آرام و سکون کا خیال رکھتے ہوئے محفل جلد برخاست کرنے کا حکم دیا تو کہیں آقا کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے اونچی آواز میں بات کرنے سے منع کیاگیا۔ حتیٰ کہ یہاں تک کہنا پڑا کہ اونچی آواز میں بات کرنے پر محبوب خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بے ادبی کا احتمال ہے اور کہیں تمہارے سارے اعمال غارت ہی نہ ہو جائیں اور تمہیں اس کی خبر تک نہ ہو۔ تو کہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رحمت اللعالمین کے خطاب سے نوازتے ہوئے پوری انسانیت کے ماتھے کا جھومر بنا دیا گیا۔ جو تا ابد درخشاں و تابندہ رہے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ انقلابِ محمدی ایک ایسا انقلاب جس نے کائنات کے ذرّے ذرّے کو روشن کر دیا۔جو اس دنیا میں موجود تمام تر
حکومتوں کے لیے،تما م تر انسانوں کے لیے ایک بہترین نمونہ ہے۔یہ ایک ایسا انقلاب ہے جس میں کسی ایک انسان کا خون بھی نہ بہایا گیا ساتویں صدی قبل مسیح میں یہ انقلاب عرب کی سر زمین سے نمودار ہوا اور اپنے مثبت اثرات پوری دنیا کو دکھاتا ہوا قیامت تک اس دنیا میں موجود سب انسانوں کے لیے مشعل راہ بن گیا۔ساتویں صدی قبل مسیح جب حرص و ہوا کے لالچ اور فانی لذتوں کے انہماک سے دنیا کی اخلاقی حالت بالکل تبا ہ ہو چکی تھی اغراض و اوہام کی تہ بہ تہ مادی کثافتوں کے نیچے دین سماوی کی لطیف روحانیت دب کر رہ گئی تھی۔آسمانی کتابوں کے چہرے مسخ کئے جا چکے تھے۔ہندی یونانی رومی اور ایرانی عقائد و ادیان سسکیاں لیتی ہوئی انسانیت کو امن و رحمت کا پیغام دینے سے قاصر تھے۔ہند میں برہمنیت کے سیلاب نے نقش گوتم کو مٹا ڈالا۔روح القدس کی تعلیمات پاپائیت اور جبرو استبداد کی داروگیر میں گھر کر صرف کتاب مقدس کی زینت بن کر وہ گئیں۔جزیرہ نما عرب کے بسنے والے خلیل اللہ کی روشن تعلیمات فراموش کی جا چکیں وادی سینا یہود کی آماجگاہ بن کر رہ گئی کلیم اللہ کے فرمودات ثواب اور صرف ثواب کی باتیں ہو کر رہ گئے۔ان روح فرسا حالات میں ایسے نبی کی ضرورت تھی جو صاحب ِ شمشیر بھی ہو اور گوشہ نشین بھی مفلس و قانع بھی ہو اور غنی دریا دل بھی صاحب محراب و منبر بھی ہو اور نمونہ صدق و صفا بھی ہو۔ایسے میں دنیا کا سب سے بڑا ہادی،لاز وال انقلاب برپا کرنے والا،سب انسانوں سے بر گزیدہ انسان مبعوث ہوا۔جنﷺ کی جبینِ تابناک سے نور حقیقت کی شعاعیں نکل رہی تھیں۔جس کے جاہ و جلال کو دیکھ کر قیصر و کسریٰ کے تحت لرز گئے،استبداد و استعمار کی زنجیریں کٹ گئیں،رنگ و نسل کی تمیز مٹ گئی،انسانیت کا کھویا ہوا وقار بحال ہوا، دکھی انسانیت نے سکھ کا سانس لیا،انصاف کی باد ِ صبا چلنے لگی، دنیا کے سب سے بڑے مبلغ اور داعی کی تعلیمات نے انسان کو بدل کر رکھ دیا۔ظاہر وباطن نے ایک ہی رنگ اختیار کیا۔آپ کی تعلیمات سے خیالات بدل گئے،عادات و اطوار بدل گئیں، نگاہ کا زاویہ تبدیل ہو گیا،رسوم و رواج بدل گئے،حقوق و فرائض کی تقسیم،خیر و شر کا معیار، حلال و حرام کے پیمانے سب بدل گئے۔دستورو قانون بدل گئے،جنگ و صلح کے اسالیب بدل گئے،معیشت،معاشرت،تمدن غر ض ایک ایک ادارے اور ایک ایک شعبے کی کایا پلٹ گئی۔ دنیا کا یہ پہلا انقلاب جس میں صرف اور صرف خیر و فلاح نظر آئی کسی گوشے میں کوئی شر باقی نہ رہا، کسی کونے میں کوئی فساد، بگاڑ، اُلجھن کچھ باقی نہ رہا۔ہر طرف تعمیر ہی تعمیر، ارتقاء ہی ارتقاء،اور محبت ہی محبت عام ہو گئی۔ تاریخ شاہد ہے کہ اس تیس سالہ انقلاب نے صرف امن ہی امن کا درس دیا۔  آج اس عظیم انقلاب کی ضرورت دوبارہ آن پڑی ہے کہ ہم واعتصموا بحبل اللہ کابھولا ہوا سبق پھر سے یاد کر لیں۔ یاد رکھیں جب تک ہم انقلاب محمدی کو اپنے لیے بہترین نمونہ نہیں بنا لیتے تب تک ہم نا کام ہیں۔آج اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے درمیان باہمی نفرتیں ختم ہو جائیں،نااْمید ی شکست خوردگی کا نام و نشان نہ رہے،احساسِ کمتری جیسی مہلک بیماری سے ہمیں نجات مل جائے، تمام سماجی، معاشی، اقتصادی،معاشرتی برائیوں کا خاتمہ ہو جائے،اور ہم بحیثیت قوم دلوں کو فتح کر لیں تو ہمیں امن کے مسیحا سید المرسلین کی تعلیمات پر عمل کرنا ہوگا۔ وہ ہی وہ ہی اعمال و افعال اپنانے ہوں گے جنہوں نے اس دنیا کا سب سے بڑا، لازوال اور عظیم ترین انقلاب برپا کیا۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپؐ پر نہ صرف ایمان لانا ضروری ہے، بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ آپ ؐ کی بے انتہا عظمت اور تمام چیزوں سے بڑھ کر محبت ہمارے دلوں میں موجزن ہو، یہ محبت ہمارے ایمان کا جزو اور ہمارے دین کی اساس ہے اور یہ حضور ؐکا معجزہ ہے کہ اس امت
کے دل میں آپؐ کی محبت کا جو غیر معمولی جذبہ کارفرما ہے، دوسرے مذاہب کے متبعین میں اپنے پیشواؤں سے متعلق اس کا سوواں حصہ بھی نہیں ملتا، اور کیوں نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کے بعد ہر مسلمان کیلئے آپؐ ہی کی ذات بابرکات سب سے محبوب ترین ہستی ہے، ا سے اپنے وجود سے بھی بڑھ کر آپ ؐ سے محبت ہے اور اگر اس کا سینہ اس جذبے سے خالی ہو تو وہ مسلمان ہی باقی نہیں رہے گا۔ تفسیر ابن کثیر میں نبی اکرم ؐکا یہ فرمان نقل کیا گیا ہے کہ”میں اللہ کی بھیجی ہوئی رحمت ہوں“۔باقی انسانوں کے لیے رحمت ہونا اس طور پر ہے کہ آپؐ نے لوگوں کو سیدھا راستہ دکھلایا، گمراہی سے بچایا،کفر و شرک کے اندھیروں سے،ایمان و توحید کے اجالے کی طرف رہنمائی فرمائی۔ لوگوں کو جہنم کی آگ میں جانے سے ان کی کمروں سے پکڑ پکڑ کر روکا۔صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ؐنے ارشاد فرمایا: ”میری اور میری امت کی مثال ایسی ہے، جیسے کسی شخص نے آگ جلائی، تو پروانے اور پتنگے آ کر اس میں گرنے لگے۔ میں تمہیں کمر سے پکڑ پکڑ کر کھینچتا ہوں اور تم اس میں چھوٹ چھوٹ کر گرتے ہو“۔آپ کی رحمت انسانوں میں مومن و کافر دونوں کے لیے عام ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بگڑی ہوئی قوم میں قلیل عرصے میں وہ انقلاب پیدا کیا کہ عرب کے صحراؤں میں پلنے والی یہ گمراہ قوم دنیا کی امام بن گئی یہ سب قرآن پاک کا اعجاز اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کا کمال تھا کہ دنیا بھر کے انسانوں نے ایک بدو قوم سے جہاں بانی کے اصول سیکھے آپ صلی اللہ وسلم نے کس طرح ایک جہالت میں ڈوبی ہوئی قوم کی تربیت کی اور اس کو عالم فاضل بنا دیا۔ یہ آپ صلی اللہ وسلم کی سیرت پاک ہے جو قیامت تک ہمارے لئے مشعل راہ رہے گی اس کے مطابق عمل کرکے ہم نہ صرف اپنی اولاد بلکہ ارد گرد کے افراد کی بہترین تربیت کر سکتے ہیں بلکہ اپنے معاشرے کو امن کا گہوارہ بنا سکتے ہیں۔
اس بار یہ یوم مبارک ایسے موقع پر آیا ہے جب امت مسلمہ شدیدمصائب سے دو چار ہے،ہمارے فلسطینی بھائی اسرائیل اورامریکہ کی چیرہ دستیوں کا شکار ہیں ہمارے اپنے پیارے وطن پر قیامت کا منظرہے۔ہر شخص پریشان ہے،ہر ایک کو روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں روزگار کے مواقع مسدودہوکر رہ گئے ہیں س صورت حال میں نبی کریمؐ کے پرستاروں پر یہ ذمہ داری خاص طورپر عائد ہوتی ہے کہ وہ نمود ونمائش کی خاطر برپا کی جانے والے کاموں پر ہونے والی فضول خرچی پر کنٹرول کرکے اس طرح سے بچنے والی رقم اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کے مصائب کم کرنے کیلئے عطیہ کریں کیونکہ ہمارے نبیؐ کریم کا پہلا سبق انسانیت کی خدمت اور انسانیت کی خدمت اللہ تعالیٰ اور نبی کریمؐ کے قرب کا سبب بن سکتی ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں