مسئلہ کشمیر کا حل، پرامن مذاکرات
شیئر کریں
ریاض احمدچودھری
ہندوستانی حکومت عالمی رائے عامہ کو یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر سمیت تمام تنازعات پر امن مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہندوستانی حکمران پاکستان پرکشمیر میں دہشت گردی کا بے بنیاد الزام عائد کر رہے ہیں۔ ہندوستانی حکمرانو ں کو معلوم ہونا چاہیے کہ جب کوئی قوم آزادی کے حصول پر تل جائے تو دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت بھی اس کو آزادی کے حصول سے نہیں روک سکتی۔ کشمیری ایک عرصہ سے آزادی کی تلاش میںسرکردہ ہیں اور وہ اس مقصد کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔ اس میں بڑے تو بڑے جوان، عورتیں، بچے سبھی شامل ہیں۔ہندوستان اپنی آٹھ لاکھ فوج کر استعمال کرنے کے باوجود کشمیریوں کی تحریک آزادی کو روک نہیں سکا اور وہ زیادہ دیر تک طاقت کے استعمال سے کشمیریوں کو غلام نہیں رکھ سکتا۔بوچر پیپرز وعدوں پر مشتمل دستاویز پر برطانوی اخبار دی گارجیئن میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعویدار ملک بھارت کا گھنائونا چہرہ بے نقاب کر دیا گیا۔ بوچر پیپرز گارجیئن کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ نہرو میوزیم کے نگران نریندر مشرہ نے مودی سرکار سے بوچر پیپرز کیلئے منظرعام پر لانے کی درخواست اکتوبر 2022ء کو کی تھی۔ بھارتی وزارت خارجہ نے کہا کہ اس دستاویز بوچر پیپرز کے منظرعام پر آنے سے بھارت کو شدید سیاسی اور خارجی مضمرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔لہذامودی سرکار نے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے نہرو حکومت میں کئے گئے سیز فائر اور کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے وعدوں پر مشتمل دستاویز ”بوچر پیپرز” (bucher papers) کو منظرعام پر آنے سے روک دیا۔
مْودی سرکار نے کشمیر پر ایک اور وارکرتے ہوئے بھارتی آئین کے ساتھ بھی کھلواڑ کیا۔مْودی سرکار کشمیریوں کے ساتھ کی گئی وعدہ خلافی کو منظر عام پر آنے سے روکنے کی سر توڑ کوششیں کر رہی ہے۔ یہ دستاویز بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور بھارتی آرمی چیف کے مابین کشمیر اور سیز فائر کے معاملے پر ہونے والی خط و کتابت پر مشتمل ہے، جنرل رائے بچر نے بھارتی فوج کے گرتے مورال اور طویل تعیناتی کے باعث نہرو کو مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ لے جانے کا مشورہ دیا تھا۔ بھارت مسئلہ کشمیر کو پْر امن تصفیے کے لیے خود یو این لے گیا مگر وقت کے ساتھ غاصبانہ انضمام کیا گیا۔اخبار کے مطابق 1952ء میں نہرو نے بھارتی لوک سبھا میں بیان دیا تھا کہ کشمیر کا فیصلہ کشمیری خود کریں گے۔ ان کا وعدہ تھا کہ ہم کشمیریوں پر بندوق کی نوک پر اپنی مرضی مْسلط نہیں کریں گے۔ اکتوبر 2022ء میں نہرو میوزیم کے چیئر پرسن نرپندر مشرہ نے بچر پیپرز کو تحقیقاتی مقاصد کے لئے پبلک کرنے کی درخواست کی تھی لیکن بھارتی وزارت خارجہ نے مخالفت کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ ان دستاویزات کو پبلک کرنے سے بھارت کو شدید سیاسی اور خارجی مضمرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بھارت عمومی طور پر 25 سال بعد سرکاری خط و کتابت اور دستاویزات کو ڈی کلاسیفائی کر دیتا ہے۔ ماضی میں بھی کئی بار صحافتی تنظیموں اور کارکنوں نے بْچر پیپرز کو پبلک کرنے کی کاوشیں کیں۔ دہلی کے نہرو میوزیم میں رکھے بچر پیپرز مسئلہ کشمیر پر پاکستانی موقف کی تائید کرتے ہیں۔ ان دستاویزات کی روشنی میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا مْودی سرکار نے آرٹیکل 370 کی معطلی سے بھارت کے کشمیریوں سے سابقہ وعدوں کی خلاف ورزی کی گئی؟ کیا بھارت طاقت کے زور پر کشمیریوں سے اْن کا حقِ خود ارادیت چھیننا چاہتا ہے؟آخر عالمی میڈیا اور اقوامِ عالم کشمیریوں پر ہونے والے انسانیت سوز مظالم پر کب تک خاموش رہیں گی؟
پاکستان روز اول سے ہی کشمیرکے دیرینہ تنازعہ کا پرامن حل چاہتا ہے کیونکہ کشمیریوں کے دل پاکستان کے ساتھ ہی دھڑکتے ہیں جس کی وجہ سے کشمیر کے اندر ہی سے جدوجہد آزادی کی ایک لہر چل رہی ہے۔ یہ حریت پسند ہی ہیں جو کشمیر کے اندر سے ہی آزادی کیلئے ایک مہم چلا رہے ہیں اور اپنے وطن کو بھارتی غاصبوں سے چنگل سے نجات دلانے کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔ اگر بھارت 1948ء میں سیکورٹی کونسل کی پاس کردہ قرارداد کے تحت کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرنے سے انکار نہ کرتا تو کشمیری عوام اپنے حقوق کیلئے خود بخود نہ اٹھ کھڑے ہوتے۔کشمیریوں کی بھر پور جدو جہد کے نتیجے میں جب کشمیر آذاد ہونے کے قریب تھا تو بھارت نے اقوام متحدہ میں کشمیرکا مسئلہ اٹھایا۔اقوام متحدہ نے تنارعہ کشمیر کے حل کے لئے دو قراردادیں منظور کیں۔ جن میں نہ صرف کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کیا گیا بلکہ یہ طے ہوا کہ کشمیریوں کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کیلئے رائے شماری کا موقع فراہم کیا جائیگا۔ بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے یہ وعدہ کیا کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو استصواب رائے فراہم کریں گے۔ لیکن اس کے بعد بھارتی حکمرانوں نے کشمیریوں کو نہ صرف حق خود ارادیت دینے سے انکار کر دیا بلکہ یہ راگ الاپنا شروع کر دیا کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔حالانکہ مسلم اکثریتی ریاست ہونے کی وجہ سے ساری ریاست کشمیر کو پاکستان میں شامل ہونا چاہیے تھا۔ کشمیری لیڈروں نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیاہے کہ وہ 1947 سے اپنے لیڈروں کی طرف سے کشمیری عوام سے کئے گئے وعدوں کو عملی جامہ پہنائے۔بھارتی حکمرانوں کی ستم ظریفی ملاحظہ کی جائے کہ وہ نہ صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں اور پہلے بھارتی وزیر اعظم کے وعدے پر عمل نہیں کرتے بلکہ وہ بڑی ڈھٹائی کے ساتھ آزادکشمیر اور شمالی علاقوں پر اپنا حق جتاتے رہے ہیں۔ حالانکہ کشمیریوں نے اپنی جدوجہد آزادی کے ذریعے بھارت کی فوجوں کے خلاف جنگ کر کے ان علاقوں کو آزاد کرایا تھا۔ بھارتی حکمران مسئلہ کشمیر کے بارے میں عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے پر کمر بستہ ہے۔ بھارتی پارلیمنٹ نے بڑی ڈھٹائی اور بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آزاد کشمیر،گلگت اور بلتستان کو ہندوستان میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے منافی ہے۔