نائن الیون حملے، مسلم امہ کے خلاف صیہونی سازشیں
شیئر کریں
ریاض احمدچودھری
11ستمبر 2001 ء کو امریکہ میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ساتھ صبح تقریباً ساڑھے آٹھ بجے دو مسافر طیارے ٹکرائے۔ اس وقت شہر میں خاصی رونق اور چہل پہل تھی۔زندگی ہر دم رواں دواں تھی۔ حملہ ہوا تو دھوئیں کے بادلوں نے عمارت کو اپنے حصار میں لے لیا۔دو حملوں کے بعد یہ عمارت پوری طرح زمین بوس ہو گئی۔ اس کے بعدواشنگٹن میں پینٹاگون کی محفوظ ترین عمارت پر ایک چھوٹا طیارہ آ ٹکرایا اور پھر دفتر خارجہ کی عمارت میں بھی کا ر بم کا دھماکہ ہو گیا۔ان طیارہ حملوں کے بعد فوری طورپر یہ کہا گیا کہ یہ سب کچھ القائدہ سربراہ اسامہ بن لادن نے کروایا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اسامہ بن لادن امریکی سی آئی اے کا پرانا بندہ تھا جو بعد میں امریکیوں کو چھوڑ کر افغانستان آگیا تھا۔ امریکہ نے اسامہ کو پکڑنے اور اسے سبق سکھانے کیلئے افغانستان پر حملہ کر دیا۔ افغانستان پر اس وقت طالبان کی حکومت تھی اور پورا ملک امن و سکون کا عملی گہوارہ بنا ہوا تھاجو مغرب خصوصاً یہود و نصاریٰ کو قبول نہ تھا۔
نائن الیون سے چند ماہ پہلے امریکی سی آئی اے کے ہی ایک خفیہ ایجنٹ نے پوری دنیا کو بتایا کہ گیارہ ستمبر کے دن امریکہ خود ورلڈ ٹریڈ ٹاورز پر حملے کروانے والا ہے اور اس کا الزام اسامہ بن لادن پر لگائے گا تاکہ اس کی آڑ میں مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرکے افغانستان پر چڑھائی کر سکے۔ چند ماہ بعد ہی صیہونی خفیہ ایجنسی کے ایجنٹوں سے اسے قتل کردیا۔ اسی سلسلے میں ایک اور انکشاف بھی ہوا کہ گیارہ ستمبر کے دہشت گرد حملوں سے صرف دو دن قبل ہی روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کو فون کرکے ممکنہ حملے کی اطلاع دی تھی۔ یہ انکشاف سی آئی اے کے سابق اینالسٹ جارج بیبی نے اپنی کتاب میں کیا۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ صدر پیوٹن نے صدر بش کو بتایا تھا کہ روسی انٹیلی جنس نے دہشت گردوں کے ایسے منصوبے کا پتہ لگایا ہے اور بات چیت ٹریس کی ہے جس کے مطابق طویل عرصے کی منصوبہ بندی کے بعد بس عمل ہونے ہی والا ہے۔ اس کے علاوہ، امریکا کو برطانوی جاسوسوں نے بھی مسلسل خبردار کیا تھا کہ امریکا پر کوئی بڑا حملہ ہونے والا ہے اور اس کا ذکر خود ایف بی آئی اور سی آئی اے والے بھی کر چکے ہیں۔اس کے بعد بھی یہ بات اب تک ایک راز ہے کہ وائٹ ہائوس نے ان وارننگز پر دھیان کیوں نہیں دیا اور اپنے شہریوں کو بچانے کیلئے اقدامات کیوں نہیں کیے تھے ۔ امریکہ کے ہی سابق سی آئی اے اہلکار ایڈورڈ سنوڈن نے بتایا تھا کہ نائن الیون حملہ امریکہ نے خود کروایا لیکن چونکہ دنیا کے 90 فیصد میڈیا پر یہودیوں کا قبضہ ہے اسی لئے آج تک ہم حقائق سے بہرہ مند نہ ہو سکے۔ یہی وجہ ہے لوگ صیہونی میڈیا کی گھڑی گئی کہانیوں پر یقین کرکے آج بھی اسامہ بن لادن کو ہی نائن الیون کا ذمہ دار سمجھ رہے ہیں۔سوچنے کی بات ہے کہ امریکہ سپر پاور تھا وہاں کوئی پرندہ بھی حساس علاقوں میں آجائے تو اسے بھی خفیہ ایجنسی مانیٹر کرتی ہیں لیکن حیرت انگیز طور پرامریکہ میں 4 طیارے ایک ہی دن ہائے جیک ہوجاتے ہیں اور سی آئی اے کو خبر تک نہیں ہوتی۔دراصل سی آئی اے کو حملے کی پہلے ہی خبر تھی اس لیے انہوں نے اپنی مکاری اور عیاری چھپانے کے لیے پہلے ہی اقدامات کر رکھے تھے۔ کس پر الزام لگانا ہے اورکس طرح لگانا ہے۔ الزام کے ثبوت کے طور پر سی آئی اے نے تمام انتظامات کرلیے تھے۔
امریکی قومی سلامتی کی مشیر اور بعد میں وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس نے اپنی کتاب ”ہائر آنر” میں اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے پیوٹن سے ملنے والی ابتدائی وارننگ کو نظر انداز کیا کہ عرب فنڈنگ سے انتہا پسند کوئی ایسا کام کرنے والے ہیں جو بڑی تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔ ہم نے یہ وارننگ اسلئے نظر انداز کی کیونکہ ہم یہ سمجھے کہ روس اسلئے یہ باتیں کر رہا ہے کیونکہ پاکستان نے سوویت یونین کیخلاف افغان مجاہدین کی حمایت کی تھی۔
نائن الیون کے بعد امریکا نے افغانستان میں القاعدہ اور طالبان کے خلاف بھرپور کارروائی کا آغاز کیا۔اسامہ کی تلاش میں پورے افغانستان کو تہس نہس کر دیا۔ پہاڑ ریزہ ریزہ کر دیے۔ لاکھوں افغانی عوام کو شہید کرنے کے باوجود بھی امریکہ کو چین نہ آیا تو اس نے دہشت گردی کی بین الاقوامی جنگ کے خلاف مہم شروع کر دی جس میں اپنے اتحادی ممالک کی فوجیں اور وسائل استعمال کر کے افغانستان میں قدم جما کر بیٹھ گیا۔ پاکستان کو گھیرنے کے لیے صیہونیوں کی نظر ایک کمزور ملک اور قدرتی دولت سے مالا مال افغانستان پر تھی۔ افغانستان دنیا کی ہر سپر پاور کی نظروں میں ہیروں کی کان مانا جاتاہے کیونکہ یہ ملک قدرتی معدنیات سے مالامال اور مشرق وسطہ کا سینٹر ہے۔ یہاں بیٹھ کر دنیا کی سپر پاور قوتوں دنیاکے سب سے بڑے خطے ایشیا پر قبضہ کرنا چاہتی تھیں۔
بہر حال نائن الیون کی وجہ کوئی بھی ہو ۔ اس واقعہ کا ذمہ دار اسرائیل، امریکہ یا اسامہ بن لادن جو بھی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کیخلاف جاری مہم کی سب سے بھاری قیمت پاکستان نے ادا کی۔ان گزرے برسوں کے دوران پاکستان میں 290 سے زیادہ خودکش حملے ہوئے جن میں چار ہزار سات سو سے زائد پاکستانی جاں بحق جبکہ دس ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ دہشت گردی کا عفریت قبائلی سرحدی علاقوں سے ہوتا ہوا سیاحتی مقام سوات تک بھی آ پہنچا۔ یوں پاکستان کو بہت سے نائن الیونز کا سامنا کرنا پڑا۔ 3800 سو سے زائد فوجی اور نیم فوجی اہل کار شہید جب کہ 8600 زخمی ہوئے۔ 22172سے زائدشہری مختلف کارروائیوں کا لقمہ بنے جبکہ ہزاروں زخمی اور سینکڑوں معذور ہوئے۔ 500 سے زائد پولیس اہلکار بھی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے۔پاکستان نے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں جانی اور مالی قربانیوں کی نئی تاریخ رقم کی۔پارلیمنٹ نے پاک فوج کو دہشت گردوں کی سرکوبی کا اختیار دیا تو فوج نے نہ صرف انہیں سوات اور مالا کنڈ ڈویژن سے مار بھگایا بلکہ جنوبی وزیرستان اور فاٹا کے علاقوں سے بھی ان کا صفایا کرنے کے عمل تیز کر دیا۔ ملک میں دہشتگردوں کا کوئی منظم نیٹ ورک موجود نہیں۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ نائن الیون کے بعد دنیا محفوظ اور پاکستان غیر محفوظ ہوگیا۔ سانحے کے بعد لگنے والی آگ میں پاکستان آج تک جل رہا ہے۔دہشت گردی کی جنگ کے باعث پاکستان کو70 ارب ڈالرز کا نقصان ہو چکا ہے۔ امن و امان کی مخدوش صورت حال کی وجہ سے غیر ملکی سرمایا کاری میں اضافہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ ملکی صنعت و زراعت ، سیاحت ، تجارت نہ صرف بری طرح متاثر ہوئیں بلکہ ملک بد ترین مہنگائی اور توانائی کی قلت کا شکار ہو گیا۔ مالی اور جانی نقصان اپنی جگہ مالاکنڈ سوات اورقبائلی علاقوں میں سکولوں اورسڑکوں سمیت انفراسٹرکچربھی تباہ کردیا گیا۔ حتی کہ جی ایچ کیو کو بھی دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔
بات 9/11 پر ہی ختم نہیں ہوئی بلکہ اس کے بعد اسرائیلی خفیہ ایجنسی "موساد” اور بھارتی خفیہ ایجنسی "را”نے مل کر ایسے منصوبے بنائے کہ خود ہی حملے کرواکے الزام پاکستان پر ڈال دیا جائے اور اسی بہانے بھارت کو پاکستان سے جنگ پراکسایا جائے۔ ممبئی حملے ہوں، پٹھان کوٹ حملہ یا سمجھوتہ ایکسپریس ٹرین کو جلانا ۔اس کی سب سے تازہ مثال پلوامہ ڈرامہ تھا ۔ یہ سب را اور موساد کے کارنامے تھے۔ ہمیں ہوشیار رہنا ہوگا کہ آئندہ بھی ایسے منصوبے بنا کر ان کی آڑ میں پاکستان کو مزید کمزور کیا جائے گایا جنگ کی جائے گی۔یا درکھیں کہ کفار کبھی بھی سازشوں سے باز نہیں آئیں گے۔ ہمیںہمیشہ ان کی سازشوں کا مقابلہ کرنا پڑے گا کیونکہ یہی اللہ کے شیروں کا اس دنیا میں واحد کام ہے۔ کفار کو ڈھیل بھی میرے رب نے ہی دی ہے اور اس لیے دی ہے کہ اللہ مومنین کو آزمائے کہ کیاوہ کفار کے خلاف جہاد کرتے ہیں؟