مودی کا تیسرا دور، آنسو بھری ہیں حکومت کی راہیں
شیئر کریں
ڈاکٹر سلیم خان
وزیر اعظم نریندر مودی نے 3670دن حکومت کرنے کے بعد تیسری بار حلف لے کر 70دن میں سارے کرے کرائے پر پانی پھیر دیا۔ اس دوران سماجی ،اقتصادی ،میڈیا اور خارجہ پالیسی جیسے ہر محاذ پریہ سرکارگھٹنے ٹیکتی چلی گئی۔موجودہ حکومت پر ”اب کی بار گھوم جاؤ سرکار” کا لقب صادق آتا ہے ۔ اس بار جب بی جے پی کو معمولی اکثریت بھی نہیں ملی تو مودی جی کو اندرونی بغاوت کا خطرہ لاحق ہوگیا ۔ اس لیے جلد بازی میں انہوں نے نہ تو اپنی پارٹی کے پارلیمانی بورڈ کی میٹنگ بلائی اور نہ کسی اچھے جیوتش سے مہورت نکلوایا۔ بس پھر کیا تھا پنوتی لگ گئی اور اس کی شروعات رام مندر کی چھت کے پانی ٹپکنے سے ہوئی اس کے بعد ایودھیا کی سڑکوں پر گڈھے پڑ گئے ۔ شاہ جی نے ان میں گرا کر یوگی سے چھٹکارہ پانے کی کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہوسکے ۔ بارش دہلی میں آئی تو نہ صرف طلبہ ڈوب مرے بلکہ ایوان پارلیمان کی نئی نویلی عمارت کے آنسو وں کے ٹپکنے سے سیلاب سا آگیا ۔اس میں مودی کا راج دنڈ(سینگول) نہ جانے کہاں بہہ گیا۔ اس پورے عرصے میں مودی بھگت اچھے دن تو دور کسی اچھی خبر کو ترس گئے ہیں اور وزیر اعظم ان کوحسرت جے پوری کا لکھا یہ نغمہ سنارہے ہیں
آنسو بھری ہیں حکومت کی راہیں
کوئی ان سے کہہ دے ہمیں بھول جائیں
سماجی محاذ پر دیکھا جائے تو اس عرصے میں مودی سرکار نے وقف کے معاملے میں مسلمانوں سے پنگا لے کر ہاتھ جلالیے ۔ اس کو جے پی سی کے ٹھنڈے بستے میں ڈال کر راحت کی سانس لی مگر لیٹرل انٹری کا اشتہار نکال کر پسماندہ طبقات کو ناراض کردیا ۔ اس طرح اپنے پیروں پر کلہاڑی چلانے کے بعد اشتہار واپس لے کر ناک کٹوالی۔ وقف کے معاملے میں ایک بیساکھی (جنتا دل یو) ساتھ تھی تو دوسری (تیلگو دیسم پارٹی ) نے پٹخنی دی اس کے برعکس لیٹرل انٹری کی بابت چندرا بابو نے حمایت کی تو نتیش بابو نے ٹانگ مار دی ۔ اس لیے پہلے دائیں جانب لڑکھڑائے اور پھر دائیں جانب زمین بوس ہوگئے ۔ایک زمانے میں بی جے پی خاصی سخت جان پارٹی ہوا کرتی تھی۔ کسانوں پر قانون واپس لینے میں اسے کئی ماہ لگے تھے اور این آر سی کو بھی بڑی مشکل سے کورونا کے بہانے ٹھنڈے بستے میں ڈالا گیا تھامگر اب تو بجلی کی سرعت سے دھڑام تختہ ہوجاتا ہے ۔
حزب اختلاف ایک جانب سے جارحانہ انداز میں حملہ آور ہوتا ہے تو دوسری طرف بڑے پیار سے نہ صرف چندرا اور نتیش بلکہ چراغ بھی خود اپنے ہی گھر آگ لگا دیتے ہیں۔ اپنے آپ کو مودی کا ہنومان کہنے والے چراغ پاسوان نے وقف سمیت لیٹرل انٹری کے معاملے میں اپنی ہی سرکار کی مخالفت کردی۔ اس سے ظاہرہوتا ہے کہ کل یگ کا ہنومان فی الحال کس کی لنکا لگانے میں مصروفِ عمل ہے ۔ چراغ پاسوان نے جب وقف کے معاملے میں سرکار پر تنقید کی تو اسے بغض ِ نتیش کمار کہہ کر ہلکا کیا گیا مگر لیٹرل انٹری پر تو انہوں نے جے ڈی یو کے ذریعہ حمایت کی بھی پروا نہیں کی۔ اس سے زیادہ شرمناک بات کیا ہوسکتی ہے کہ نام نہاد چانکیہ امیت شاہ کے بیٹے اجئے شاہ سے کم عمر چراغ پاسوان نے بی جے پی کو نصیحت کی کہ وہ حزب اختلاف کو اپنے خلاف استعمال کرنے کے لیے گولہ بارود فراہم نہ کرے ۔ مودی اور شاہ کی جوڑی پر ایسا وقت بھی آئے گا یہ تو کسی کے خواب و خیال میں نہیں تھا۔برے وقت میں نہ صرف اپنے پرائے آنکھ دکھانے لگتے ہیں بلکہ حالات بھی غیر مواقف ہوجاتے ہیں۔ وزیر اعظم بجٹ سیشن کے اختتام پر پچیس سال بعد ہندوستان کے دنیا کی تیسری بڑی معیشت کامژدہ سنانے والے تھے کہ ہنڈن برگ کی رپورٹ کے بادل چھا گئے ۔ اس سے گھبرا کر بی جے پی قبل از وقت ایوان پارلیمان کا اجلاس ختم کرکے بھاگ کھڑی ہوئی اور وزیر اعظم کا کانٹوں بھرا خطاب ‘بن کھلے مرجھا گیا’۔ اس بار اولمپک سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں ۔ کوئی ہندوستانی کھلاڑی اگر سونے کا تمغہ جیت لیتا تو مودی جی اس کا پورا کریڈٹ لینے کے لیے تیار بیٹھے تھے لیکن وہ خواب بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکا اور اس موقع کی خاطر تیار شدہ پیغامات نشر ہونے کی سعادت سے محروم رہ گئے ۔ ونیش پھوگٹ کا سیمی فائنل میں کامیاب ہوجانا چاندی کے تمغے کی گارنٹی اور سونے کی امید تھا لیکن ان کا صرف 100 گرام سے غیر اہل ہوجانا پورے ملک کو اداس کرگیا ۔
ونیش پھوگٹ چونکہ مودی سرکار کے خلاف احتجاج کرچکی تھیں اس لیے بعید نہیں کہ وزیر اعظم کو ان کی محرومیت سے مسرت ہوئی ہو لیکن ایسی بھی کیا خوشی کہ جس اظہار ممکن نہ ہو اور’دل کے ارماں آنسووں میں بہہ جائیں’۔ 15 اگست کو اگر انہیں چاندی کا تمغہ دئیے جانے کی خوشخبری آجاتی تو گودی میڈیا اس کے لیے مودی جی کی لال آنکھوں کو ذمہ دار ٹھہراتا۔ یہ کہا جاتا کہ مودی جی سے خوف کھاکر اولمپک ایسو سی ایشن کو جھکنا پڑا۔ ونیش پھوگٹ دنگل کے اندر جو کام نہیں کرسکیں وہ کام وزیر اعظم نے اپنے رعب داب سے کردیا مگر ایسا نہیں ہوا۔ اس دوران سوشیل میڈیا میں پھوگٹ کے خلاف سازش اور اس میں مودی سرکار کے ملوث ہونے چرچا زورو شور سے جاری رہا ۔ مودی دشمنوں نے کھینچ تان کر ونیش پھوگٹ کے غیر اہل قرار دئیے جانے کو حکومت سازش ثابت کر دیا ۔
مودی سرکار نے اخبار اور ٹیلی ویژن کو خریدنے کے بعد یہ سوچ لیا کہ ا س نے میڈیا کا میدان مارلیا ہے لیکن سوشیل میڈیا نے اس کو ناکوں چنے چبوا دئیے ۔ اس کو قابو میں رکھنے کے لیے پچھلے سال ایوانِ پارلیمان میں براڈ کاسٹنگ سروسیز (ریگولیشن) بل لایا گیا۔ ٦اگست کو پرینکا گاندھی نے اسے ڈجیٹل میڈیا، سوشل میڈیا، او ٹی ٹی پلیٹ فارم اور انفرادی طور پر لکھنے اور بولنے والوں کی زبان پر تالہ لگانے کی کوشش قراردے دیا۔انہوں نے میڈیا کی آزادی کے تعلق سے مہاتما گاندھی اور جواہر لال نہرو کے اقوال کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ آزادی دہائیوں کی لڑائی اور مجاہدین آزادی کی قربانیوں کا نتیجہ ہے ۔ اسے چھیننے کی کوشش ”قطعی ناقابل قبول” ہے ۔ اس کے ساتھ متعدد صحافتی اور شہری وسماجی اداروں کے اعتراضات نے سرکار کو اس متنازع بل کا حالیہ مسودہ واپس لینے پر مجبور کردیا۔ وزارت برائے انفارمیشن اینڈ براڈ کاسٹنگ کے مطابق بل کے مسودے پر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ تفصیلی مشاورت کے بعد نیا مسودہ شائع کیا جائے گا۔یہ بھی مودی سرکار کی ایک شکست ہے ۔
اقتصادی محاذ پر بھی بجٹ کی ایک خطرناک تجویز اس سرکار نے واپس لے لی ۔ مودی کی مکار سرکار نے لانگ ٹرم کیپٹل گین ٹیکس میں کمی
کے نام پر جائیداد کی فروخت پر جو اشاریہ سازی کا فائدہ اب تک دستیاب تھا اسے ختم کر ۔دراصل انڈیکسیشن بینیفٹ کے تحت پراپرٹی کی نئی قیمت مہنگائی کی شرح کے حساب سے نکالی جاتی تھی، اس کے بعد بچ جانے والی رقم پر 20 فیصد ٹیکس لگایا جاتا تھا۔ یعنی اگر کسی نے دس سال پہلے 50 لاکھ روپے میں پراپرٹی خریدی تھی جو آج 2 کروڑ کی ہوگئی ہے اسے افراط زر کا لحاظ کرکے 1.25 کروڑ کا سمجھا جائے گا ۔ اس طرح 75 ہزار منافع پر 20 فیصد کی شرح سے ڈیڑھ لاکھ ٹیکس لگے گا۔ مجوزہ قانون کے تحت ڈیڑھ کروڈ پر 12.5فیصد کی شرح سے 18.75 لاکھ لوٹنے کی سازش رچی گئی۔ عوام اس کو سمجھ گئے اور مخالفت کی تو سرکار کوا سے کالعدم قرار دینا پڑا۔اب نتن گڈکری لائف انشورنس اور ہیلتھ انشورنس پر جی ایس ٹی کی مخالفت کررہے ہیں اور حکومت کو اس کے آگے بھی جھکنا ہی پڑے گا ۔
امورِ خارجہ میں وزیر اعظم ایک خاموش تماشائی کے طور پر جی ٧ ممالک کی کانفرنس میں گئے اس کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ اطالوی وزیر اعظم کے ساتھ ایک ویڈیو بناکر لوٹ آئے ۔ مالدیپ کے زخم بھرے نہیں تھے بنگلا دیش معاملے میں مودی سرکار تذبذب کا شکار ہوگئی ہے ۔ شیخ حسینہ کو عارضی طور پر پناہ دی گئی مگر وہ مستقل بیٹھ گئی ۔ بنگلا دیش نیشنل پارٹی نے انہیں مقدمہ چلانے کی خاطر واپس بھیجنے کا مطالبہ کردیا۔ ہندوستان اور بنگلادیش کے درمیان ملزمین کی واپسی کا معاہدہ ہے اور اس کے تحت آسام کے علٰحیدگی پسند رہنماوں کو واپس لایا جاچکا ہے ۔ اس لیے اگر بنگلادیش حکومت کی جانب سے یہ مطالبہ آجائے تو اسے ٹھکرانا ممکن نہیں ہے اور واپس بھیجنا بھی مشکل ہے ۔ حکومت کے سامنے ایک فرد کی خاطر پڑوسی ملک سے تعلقات بگڑنے کا دھرم سنکٹ ہے ۔ وزیر اعظم کا یوکرین دورہ بھی نئی مشکلات کھڑا کردے گا۔ مودی جی ایک ایسے وقت میں یوکرین جارہے ہیں جبکہ وہ مظلوم نہیں حملہ آور ہے ۔ روس سے ہندوستان سستا تیل خریدتا ہے اور یوکرینی اسے اپنا خونِ ناحق قرار دیتے رہے ہیں۔ ایسے میں یوکرین جاکر روس کو ناراض کردینے کی حکمتِ عملی مودی بھگتوں کے علاوہ کسی کی سمجھ میں نہیں آسکتی۔ اس دورے سے بدنامی کی سونامی کا قوی امکان ہے ۔ مودی اور ان کے بھگتوں کی حالتِ زار پر رند لکھنوی کا یہ شعر(ترمیم کے ساتھ) صادق آتا ہے
آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو یوکرین پکار میں چلاؤں بنگلا دیش