میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اگر پاکستان نہ بنتا؟

اگر پاکستان نہ بنتا؟

ویب ڈیسک
اتوار, ۱۱ اگست ۲۰۲۴

شیئر کریں

سمیع اللہ ملک
اگر پاکستان نہ بنتا تو کیا ہم دینی ،اخلاقی،سیاسی،معاشی طور پر آج سے بہتر ہوتے،ہم دل جلوں کو یہ سوال سن کر شدید دکھ ہوتا ہے۔یہ سوال بر عظیم پاک و ہند اور خصوصا پاکستان کے عام مسلمانوں کے ذہن میں پیدا نہیں ہوتا،وہ بیچارے تو سیدھے سادے مسلمان ہیں اور پاکستان کو اسلام کا گھر بلکہ ملجا وماوی جانتے ہیں۔ان سادہ لوگوں کے نزدیک پاکستان اللہ تعا لی کا بیش بہا عطیہ ہے۔اللہ تعالی جل شانہ وہ رحیم ذات ہیں جس نے ماہِ رمضان میں قرآن الفرقان نازل فرمایا،اسی خدائے ر حیم و رحمان نے ماہِ رمضان مبارک کی 27ویں ستائیسویں رات کو پاکستان جیسی عظیم الشان نعمت سے نوازا۔
اگر پاکستان نہ بنتا؟یہ الفاظ ہمارکلیجہ جلا دیتے ہیں۔یہ سوال کوئی بھی صاحبِ ایمان بآسانی نہیں سن سکتا اور وہ بھی اس عالم میں کہ پاکستان وجود میں آچکا،دنیا کے چھوٹے بڑے ممالک کے مقابل خم ٹھونک کر کھڑا ہو چکا۔ 78سال ہونے کو ہیں،پھر ایسا سوال کیوں؟کیا پاکستان کے وجودِ مسعود کو مشکوک کرنے کیلئے؟جب تحریکِ پاکستان جاری تھی تو خدا پر ایمان رکھنے والا عام فرد مسلمان جس کے پاس سارا علم کلمہ طیبہ تک محدود تھا ،وہ پورے یقین کے ساتھ اس تحریک کو دینی تحریک سمجھتا تھا اور نعرہ زن تھا،،لے کے رہیں گے پاکستان، اور پاکستان کا مطلب کیا ”لا الہ الا اللہ”۔ہاں ان سادہ دل مگر قوی الایمان عام مسلمانوں کے مقابل لغت ہائے حجازی کے ہزاروں قارون اپنے علم کلام اور اپنی منطق کے پیچ و خم میں الجھے ہوئے ، تماشائے لبِ بام کے اسیر اور رہین تھے،ان کے دماغ روشن تھے،انہیں قرآن حفظ تھے،ان میں سینکڑوں حفاظ بخاری و مسلم بھی تھے مگر ان کے قلب مقفل تھے ورنہ حقیقت کو کیوں نہ پا جاتے؟ان علمائے عظام میں مٹھی بھر وہ بھی تھے جن کا دین ان کے قلوب میں جا گزیں تھا، جن کے دلوں کے پٹ کھلے تھے،یہ تھے وہ خوش قسمت علما امت جو بر اعظم پاک و ہند کے عظیم ترین جہاد میں کود گئے اور سپاہیانہ لڑے مگر علما کی اکثریت محروم رہی۔یہ سوال کہ پاکستان کا بننا بہتر ہے یا مضر،یہ انہی علمائے کرام کا سوال تھا جن کا دین ان کے دماغ کی متاع تھا، جن کا دین ان کے قلب کا سرمایہ نہ تھا۔قلب تو مقفل تھے، قرآن الفرقان کا ارشاد گرامی ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہو جاتی،وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں کے اندر ہیں۔دوسرا گروہ روشن خیال متعلقین کا وہ طبقہ تھا جو خود کو اعلیٰ رتبہ ادب و شعر پر فائز سمجھتا تھا،تیسرا گروہ وہ کیمونسٹ حضرات کا تھا اور ان کا ایک معتدبہ حصہ ادبا و شعرا میں شامل تھامگر علما کے سوا ان دونوں گروہوں کی مسلمانوں کے یہاں کوئی عوامی حیثیت نہیں تھی۔
اگر ماضی اور حال کے روابط عقیدت کے بندھن سے آزاد ہو کر سوچیں کہ آخر یہ کیا ہوا کہ ہمارے علما مکرمین امت سے کٹ کر اور ہٹ کر کھڑے ہوگئے اور کھڑے کھڑے شور مچاتے رہے کہ مسلمانوں کا فائدہ متحدہ برعظیم میں ہندو غلبے کے تحت ہے نہ کہ ایک آزاد مسلم مملکت میں، جس کے باعث برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کی دو تہائی آبادی ہندو کی محکومیت کے عذابِ الیم سے بچ سکتی تھی اور کچھ بھی نہ ہوا سہی، کیا اللہ کا یہ احسان کم ہے کہ کروڑوں کی مسلم آبادی کو ان کا آزاد وطن میسر آ گیا؟وہ علما اس زمانے میں یہ سمجھتے تھے کہ پاکستان میں مسلمانوں کی حکومت کے زیرِ سایہ اسلام کا نفاذ زیادہ مشکل ہو گا ،اس کے بر عکس متحدہ ہندوستان میں اسلام کا نفاذ آسان تر ہوگایعنی حکومت الہٰیہ اور نظامِ مصطفی کا قیام حضرت امیر المومنین و المومنات،امیر الاحیا و الاموات گاندھی خوش صفات کے زیرِ اقتدار اور ان کے بت پرست دیگر ورثا کے زیرِ حکومت بہتر طریق پر عمل میں آسکتا ہے۔گاندھی جی کے ذریعے نظامِ اسلام کا نفاذ سہل تر جاننے والے کون لوگ تھے؟ وہ علما اکابر تھے جن کے نزدیک ہندو لیڈر وں کی ہر بات حق تھی،مسلمان قائدین کی ہر بات باطل ۔اگر ذرا غور کر لیں تو ایمان کی خاطر جنگ اور جہاد کرنے والے عام مسلمان تھے جن کا علم دین محدود تھا،ان کے مدمقابل سیکولر روش کے طالب،لغت ہائے حجازی کے قارون تھے ، شیوخ القرآن ،شیوخ الحدیث،خطبائے اسلام،ائمہ دین متین،حد ہو گئی علما سیکولر،غیر علما مسلمان بنیاد پرست،اسلام کے غلبے پر بھرپور ایمان کے مالک!
آج اسلامی بنیاد پرستی کے معنی تو یہی ہے نا ں کہ مسلمان کو اسلام کی حقیقت پر یقین ہو۔اس کا مطلب اسلام کا فراواں علم حتما ًنہیں،اگر کوئی عالم بھی صاحبِ تصدیق ہو تو الحمد للہ،مگر عموما جو دیکھا جارہا ہے وہ متوسط طبقہ ہی مراد ہے۔اہلِ دین اور اہلِ ایمان کا متوسط طبقہ وہ امت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں اس لئے کہ وہ غیرت والے ہیں۔اس متوسط طبقے کو قوم کی اکثریت کثیرہ کا بھرپور تعاون حاصل ہے،خدا کے فضل سے پاکستانی عوام کا ایمان نہیں ڈولتا،وہ پاکستان کو اللہ کی عظیم نعمت جانتے ہیں اور پاکستان کے پروانے ہیں۔مجھے اچانک ایک کتاب یاد آ گئی ہے،اس کانام ہے(Indian Destiny)”تقدیرہند”۔مصنف کا نام تھا سرل مودک،مصنف عقیدے کی رو سے ہندو تھا۔اس نے اپنی کتاب میں متحدہ قومیت کے مخالفوں کی خوب کھال کھینچی ہے اور اس نظریے کے حامیوں کو خوب خوب اچھالا ہے۔ماضی کے بہت سے اکابر میں شہزادہ دارا شکوہ کی بے حد تعریف کی ہے۔وہی داراشکوہ جس کے بارے میں حضرت علامہ اقبال نے فرمایا تھا۔
تخم الحادے کہ اکبر پرورید
بار دیگر در دل دارا ومید
(الحاد کا بیج جو اکبر نے بویا تھا وہ دوبارہ شہزادہ داراشکوہ کے دل میں پھوٹ پڑا( اور آپ کو سن کر حیرت ہوگی کہ مسٹر سرل مودک نے اس کتاب میں یہ بھی تحریر کر دیا کہ داراشکوہ کے مقابل ایک تنگ دل اور متعصب شخص اورنگ زیب تھا اور ہمارے دور میں داراشکوہ کا جانشین ابوالکلام ہے اور اورنگ زیب کا جانشین مسٹرجناح۔یعنی اس کتاب میں سیکولر ذہن کا جانشین جس شخص کو بتایا گیا تھا وہ امام الہند،خطیب الہند اور متعصب تنگ دل مسلمان بتایا گیا مسٹر جناح کو۔ اور اورنگ زیب اور قائد اعظم کے تعصب اور تشدد کو جن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے اس کا مطلب مہذب محاورے کے مطابق بنیاد پرست ہے۔ آپ سوچ لیں کہ یہ بیان ایک ہندو اسکالر کا ہے اور ساتھ ہی یہ یاد رکھیں کہ حضرت علامہ شبیر عثمانی نے قائد اعظم کے جنازے کے موقع پر جو کلمات ارشاد فرمائے ان میں یہ الفاظ بھی تھے کہ قائد اعظم محمد علی جناح حضرت اورنگزیب عالمگیر کے بعد برعظیم کے سب سے بڑے مسلمان تھے۔ ایمان وایقان کا تعلق دل سے ہے ۔کلمہ طیبہ کے عربی حروف وہ مشرکین مکہ نہ سمجھ سکے جو ابو جہلی گروپ سے تعلق رکھتے تھے ، کیا ان کو عربی نہیں آتی تھی؟ان کو عربی آتی تھی اس کے باوجودکلمہ طیبہ کے الفاظ ان کیلئے غیر زبان کے اجنبی الفاظ تھے،بقول حکیم الامت حضرت علامہ اقبال:
تُو عَرب ہو یا عجَم ہو، ترا ‘ لَا اِلٰہ اِلاَّ’
لُغَتِ غریب، جب تک ترا دل نہ دے گواہی
ایمان کا مسئلہ قلب سے تعلق رکھتا ہے اور کفر کا بھی قلب سے ۔باقی رہا تعقل تو وہ میان غیاب وحضور سراب یا اعراف، وہ تیسری دنیا ہے مذکر اور مونث کے مابین ایک تیسری دنیا،کبھی امریکااور روس کے مابین ایک تیسری دنیا تھی۔وہ افراد جو لغت ہائے حجازی کے قارون تھے وہ ایمان کی منطق کی میزان پر تولتے رہے،حضرت علامہ اقبال نے فرمایا:
عشق فرمودئہ قاصد سے سبک گامِ عمل
عقل سمجھی ہی نہیں معنیِ پیغام ابھی
یہ منطق باز اور تعقل طراز طبقہ اس وقت بھی لبِ بام تھا،آج بھی لبِ بام ہے،لہندا یہ حضرات اس وقت بھی پورے بر عظیم میں مسلمانوں کی محکومی کو مسلمانوں کے حق میں اللہ کی نعمت جانتے تھے اور مسلمانوں کی ممکنہ آزادی کو،ان کے آزاد وطن کو،ان کے اپنے آزاد جھنڈے کو،ان کے اپنے ٹینکوں ،اپنی توپوں اور اپنے سکوں کو اور ان کے اپنے اقتدار و اختیار کو پرخطر جانتے تھے،حیف جب وقتِ جہاد آیا تو وہ جن کو ائمہ مجاہدین بننا تھا ان کیلئے گویا آیاتِ جہاد منسوخ ہو گئی تھیں۔حضرت علامہ اقبال نے بجا ہی تو کہا تھا:
یہ مصرع لِکھ دیا کس شوخ نے محرابِ مسجد پر
یہ ناداں گر گئے سجدوں میں جب وقتِ قیام آیا
دسمبر١٩٤٦ء میں انگلستان سے لوٹتے وقت حضرت قائد اعظم مصر میں چند روز کیلئے رک گئے تھے،لیاقت علی خان بھی ہمراہ تھے۔مصر میں وہ موتمر عالم اسلامی کے اجلاس میں شرکت کرنے اور مصر کے اہلِ سیاست و اہلِ صحافت کو تحریکِ پاکستان کے مطالب،مقاصداور مفادات سے آگاہ کرنے کیلئے گئے تھے۔جناب زیڈ اے شیخ اور محمد رف کی انگریزی تصنیف ”قائد اعظم اور اسلامی دنیا”میں کچھ کلمات درج ہیں جو قائد اعظم نے مصر کے اکابرکی خدمت میں ارشاد فرمائے تھے۔قائد اعظم نے وزیراعظم مصر نقراشی پاشا اور سابق وزیراعظم اور وفد پارٹی کے قائد نحاش پاشا کی ضیافتوںمیں شرکت کی اور اہلِ صحافت کی دعوتوں میں بھی۔اے کاش قائد اعظم کے وہ سارے بیانات کوئی اکٹھے کر سکتا جو عربی اور انگریزی اخبارات میں ان دنوں شائع ہوئے۔دسمبر کے نصف آخر کے مصری انگلستانی اخبارات اور ہندوستان کے خصوصاً ڈان اخبار کے تراشے ملاحظہ فرمائیں جو آج بھی برٹش لائبریری میں محفوظ ہیں۔
والپرٹ اور زیڈ اے شیخ وغیرہ نے جو لکھا اس میں قائد اعظم کا اس امر پر زور تھا کہ”تم مصر والے بلکہ سارے مشرقِ وسطی والے اس بات سے واقف نہیں ہو کہ کہ انگریز کے جانے کے بعد جو مملکت انگریزی استعمار کی وارث بنے گی وہ کتنی بڑی اور طاقتور ہو گی،تم لوگ ایک نئی مصیبت میں مبتلا ہو جاؤ گے،تمہاری نہر سوئز آج انگریز کے اشارہ ابرو پر کھلتی اور بند ہوتی ہے تو کل ہندو مملکت کا حکم نافذ ہو گا،ہاں!اگر ہم وہاں پاکستان حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو پھر ہندو مملکت کی توجہ کا مرکز ہم ہوں گے ،تم عیش کرنا ۔اس لئے یہ امر ذہن نشین رہے کہ ہم ہندوستان میں فقط وہیں کے مسلمانوں کی جنگِ آزادی نہیں لڑ رہے ہیں۔ہم ہندو کی اجتماعی نفسیات کو سمجھتے اور جانتے ہیں،وہ غیر ہندو عناصر کو اپنے معاشرے میں زندہ نہیں رہنے دیتے ، ہمیں معلوم ہے کہ اگر ہم وہاں ہار گئے تو ہم نہ صرف ازروئے تمدن مٹا دیئے جائیں گے بلکہ ازروئے دین بھی نابود ہو جائیں گے، اور اگر ہم وہاں مٹ گئے تو ہمارے ارد گرد کے مسلمان ممالک بھی مشرقِ وسطی سمیت برباد ہو جائیں گے۔آپ صفحہ ہستی سے محو ہو جائیں گے،لہندا یاد رکھیں کہ اگر ہم ڈوبیں گے تو اکٹھے،تیریں گے تو اکٹھے”۔
قائد اعظم جو ہماری جغادری علما ء اور دین کے قیادت کاروں کے نزدیک روحِ دین سے بے بہرہ تھے،محض صاحب بہادر تھے بلکہ فاسق و فاجر تھے،وہ تو سارے عالمِ اسلام کے باب میں پاکستان کی اہمیت سمجھتے تھے اور اس اہمیت کو اہلِ مصر کے ذریعے سارے عالمِ عرب کے ذہن نشین کروارہے تھے مگر خود ہندوستان میں بیٹھے علمائے اکابر اس بیچارے کی بات پر کان دھرنے کو تیار نہیں تھے۔ اس لئے کہ وہ ظاہری شکل و صورت کے اعتبار سے زمرہ شیوخ،ائمہ اور خطبا و صلحاء میں شامل نظر نہیں آتے تھے اور نہ گاندھی کی طرح لنگوٹی باندھتے تھے۔ظاہر بین حضرات کے نشہ خود بینی اور مرض خود فروشی نے قائد اعظم کے قلب کا عالمِ اخلاص و نور نہ دیکھا۔مرزا غالب نے کیا خوب کہا:
قمری کف خاکستر و بلبل قفس رنگ
اے نالہ نشان جگر سوختہ کیا ہے
بلبل برعظیم کے باشندوں نے دیکھا ہی نہیں،وہ سرسبز اور سرد منطقوں میں پایا جانے والا خوبصورت پرندہ ہے)قمری بھی عاشق زار اور بلبل بھی جگر فگار،پھر کون سا لباس عشق کی نشانی ہے؟غالب یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ عشق کا تعلق جان و دل سے ہے لباس سے نہیں،عاشق کا لباس عاشقی ہے۔
بڑے دکھ کی بات ہے کہ اعلی پائے کے ادبا و شعرا کی اکثریت تحریکِ پاکستان سے الگ رہی۔یہ بڑے شعرا اور ادبا عموما متعقل تھے اور فیشن کے طور پر قومی معاملات سے نفور،ہندو گانٹھ کا پکا تھا کہ وہ اپنی ہر پارٹی،ہر گروہ اور ہر پلیٹ فارم پر ہندو تھا۔ہندووں میں کمیونسٹ بھی تھے مگر ہندو مفادات کے باب میں وہ بھی فقط ہندو تھے،ہندووں میں رائے بہادر اور سر بھی تھے مگر وہ بھی اپنی قومی امنگوں سے ہم آہنگ تھے،خود ان کی اپنی قوم نے ان کو ہندو جاتی کے مفادات کا دشمن کبھی نہ جانا،وہاں کانگریس اور مہا سبھائی معناً ایک تھے۔وہ سارے لیڈر قوم کے مشترک لیڈر تھے،وہ مشرک تھے مگر عملًا وحدت پسند ،ادھر مسلمان موحد تھے مگر تفرقہ ہی تفرقہ،لہٰذا عملاً مشرک (قرآن نے امت میں تفرقہ پیدا کرنے والوں کو مشرک قرار دیا ہے)تحریکِ پاکستان پھیل کر فقط مسلم لیگ ہی کا مسئلہ نہیں رہ گئی تھی تاہم ہمارے علما کبار کی بھاری اکثریت کو اس میں مسلمانوں کا مفاد نہیں بلکہ فساد نظر آتا تھا،ایسا کیوں تھا؟
سب سے بڑا باعث تو یہ تھا کہ ان کے بلند بام علمی مناصب کے نصاب کا تاریخ سے کوئی تعلق نہیں، نہ تاریخ اسلام سے نہ تاریخ ہند سے۔اپنی معاصرارد گرد کی تاریخ سے بھی ناآگاہ، تاریخ سے بھی ناواقفیت ،جغرافئے سے بھی لاعلم،اپنے محل و قوع کا سرے سے ہی علم نہیں۔ 1965 کا ذکر ہے کہ میں میٹرک کا طالبِ علم تھا۔میرے شہر فیصل آباد( لائل پور)کی سب سے بڑی جامع مسجد کے خطیب اعلیٰ اور مدرسہ کے سربراہ (مسجد اورمدرسے کا نام بطور احترام مخفی رکھنے پرمعذرت)نے پوچھا کہ یہ ہٹلر کا وطن جرمل (جرمنی)کہاں ہے؟میں کیسے بتاتا ، لہٰذاا میں نے شہر کے ایک کتب خانے سے دنیا کا نقشہ خریدلیا اور مسجد سے ملحق مدرسے کی لائبریری کی دیوار کے ساتھ لٹکا دیا۔مدرسے کے سربراہ نے تمام معلمین اور سینئر طلبا کو بلا لیا۔وہ سب لوگ مجھ سے بے حد محبت اور پیار کرتے تھے،مسجد و مدرسہ کے تمام بزرگ مجھے اپنا بیٹا سمجھتے تھے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ میں آج بھی ان کو اپنا مربی سمجھ کر ان کو ہمیشہ اپنی دعاؤں میں یاد رکھتا ہوں۔
مدرسہ کی تمام اہم شخصیات، اساتذہ اور طلبا نقشے کے سامنے دائرہ کی شکل میں بیٹھ گئے ۔میری حیرت کی انتہا نہیں رہی جب مجھے معلوم ہوا کہ وہ علما اجل نقشے پر شمال اور جنوب نہیں بتا سکتے تھے۔جغرافیے کا یہ عالم ،تاریخ ہند سے بالکل ناواقف،معاصر غیر اقوام کے دھندوں سے قطعا ًبے نیاز یہ حضرات دینی علوم خصوصا حدیث شریف اور فقہ میں طاق تھے،منطق میں طرار اور صرف و نحو میں طیار………..اس مدرسے کا علمی درجہ ملک بھر میں ایک نمایاں حیثیت رکھتا تھا،اور اب بھی ہے۔ یہاں کے فارغ التحصیل آج بھی پاکستان کے ہر علاقے میں معزز علما و فضلا اور اہل افتا میں شامل ہیں اور کچھ تو آج پاکستان کی صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے اراکین اور وزارت کے مزے بھی لوٹ رہے ہیں ۔ اس عظیم درسگاہ کا نصاب اگر دیوبند ہی کے مطابق تھا تو عیاں ہے کہ دیوبندکے فارغ التحصیل حضرات شاید چند ایک کو چھوڑ کرحالات گردوپیش سے خواہ وہ معاشی تھے خواہ انتظامی تھے یا سیاسی ،کس قدر آگاہ تھے؟اس کے باوصف اصرار تھا کہ مسلمان اپنے سارے فیصلے سیاسی امور سمیت،فقط علما حضرات کے حسبِ فرمان کریں۔
میں اس وقت بھی سوچتا تھا اور آج بھی سوچتا ہوں،اس وقت بھی اظہارِ خیال کرتا تھا اور آج بھی اظہارِ خیال کرتا ہوںکہ ہمارے علما حضرات میں سے کتنے تھے جن کو مسجد اور مدرسے کی زندگی سے باہر کے امور کا تجربہ تھا،ان میں سے کتنے تھے جن کو کسی معمولی ٹاؤن کمیٹی کے کاروبار کا بھی علم تھا؟کیا انہوں نے ہندو کے ساتھ مل کر کبھی کسی دفتر،تجارتی حتیٰ کہ علمی ادارے میں بھی کام کیا تھا،پھر لازم تھا کہ وہ اپنا کام کرتے جس میں وہ ماہر تھے۔قائد اعظم یا دیگر مسلم لیگی زعما نے کب کہا کہ علما حضرات کو عربی نہیں آتی،یا وہ قرآن و حدیث کی عبارات کے معنی نہیں بیان کر سکتے،ہاں!وہ یہ ضرور کہتے تھے کہ حضرات!جس کام کا آپ کو تجربہ نہیں،اس میں آپ ماہرانہ رائے نہ دیں،ہم آپ کے حلقہ علم مداخلت نہیں کرتے ،ہم فتوے نہیں دیتے،ہم درسِ حدیث کا دورہ نہیں کراتے،اس کے اسلوب نہیں بتاتے،یہ اس لئے کہ کسی کو بھی سارے کام نہیں کرنا ہوتے۔جس کا کام اسی کو ساجھے لیکن علما نے پھر بھی ہندوستان کے ہندومسلم مسئلے کا حق ان افراد کے سپرد نہیں کیا جو تجارت کے میدان میں،بلدیات کے میدان میں،قانون سازی کے میدان میں،کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نصابی اور علمی و تحقیقی میدان میں اور سیاست کے ہر میدان میں ہندو کے ساتھ کام کررہے تھے اور بخوبی جان رہے تھے کہ ہندو جہاں انگریزی استعمار سے نجات کا خواہاں ہے وہیں ساتھ ہی ساتھ کوشاں ہے کہ مسلمانوں کا بہرطریق اس طرح کچومر نکال دے کہ جب انگریز سے آزادی حاصل ہو تو مسلمان من حیث الامت ان کیلئے دردِ سر نہ بن سکیں۔یہ امر بالکل واضح تھا لیکن مسجد اور مدرسے کے باہر جھانک کر جنہوں نے دیکھا ہی نہ تھا اور جن کا نصاب انہیں برادرانِ وطن کی تاریخ و تہذیب سے آگاہ ہونے ہی نہ دیتا تھا ،وہ ہندو قوم کی اجتماعی نفسیات اور مسلمانوں کے بارے میں ان کی نیتوں کو کیا جانتے؟
وہ مسلمان جو ہندو کو ہر میدان میں کار فرما دیکھ رہے تھے ،وہ بخوبی جان گئے کہ ہندو اپنے معاشرے میں کسی غیر ہندو معاشرے یا سوسائٹی کو ایک متحرک عنصر کی طرح موجود نہیں دیکھ سکتے۔ انہوں نے ہندوستان میں آکر یہاں کے اصلی باشندوں کو تہس نہس کردیا ،قطعاً اچھوت بلکہ چنڈال بنا کر رکھ دیا،بدھ مت اور جین مت کے پیروں کو نابود کر دیا،بدھ مت والوں نے تقریباآٹھ سو سال بھارت کے کبھی بیشتر اور کبھی کمتر حصے پر حکومت کی مگر جب برہمنی نظام دوبارہ مسلط ہوا تو بدھ مت والوں کو ختم کر دیا گیا،وہ کروڑوں تھے مگر محو محض ہو کر رہ گئے۔ وہ آج بھی چین میں ہیں،جاپان میں ہیں،ویت نام،کمبوڈیا،سری لنکا اور برما میں ہیں مگر وہاں نہیں ہیں جو ان کا اصلی وطن تھا،جہاں انہوں نے صدیوں حکومت کی تھی، جہاں کا عوامی مذہب بدھ دھرم بن گیا تھا،لیکن ہمارے علما کی اکثریت کو اس بات کا علم نہ تھا اور نہ ہی اس سے غرض۔وہ کہتے تھے پہلے انگریز کو نکالو،بعد میں ہندو سے نمٹ لیں گے لیکن ہندو شناس اہلِ نظر اور امت کے مستقبل کو ہندو ذہن کے آئینے میں دیکھ لینے والے اہلِ اخلاص نے رفتہ رفتہ یہ طے کر لیا کہ ہندو اگر دو محاذوں پر لڑ رہا ہے ،یعنی انگریزوں کے خلاف اور مسلمانوں کے خلاف تو ہمیں بھی دونوں محاذوں پر یعنی انگریزوں اور ہندوں کے خلاف لڑنا ہو گا۔ہندو بھی اتنا دشمن ہے جتنا انگریز،لہٰذاا یہ اہتمام ابھی سے شروع ہو جانا چاہئے کہ جب انگریز جائے تو ہندو قوم مسلمانوں کو من حیث الامت مغلوب نہ کر لے۔چنانچہ علامہ اقبال اور مولانا حسرت موہانی نے بہت پہلے یہ امر واضح کر دیا ،پھر مولانا محمد علی جوہر کانگریس سے جدا ہوگئے۔شوکت علی بھی مولانا ظفر علی بھی،مولوی تمیز الدین بھی،سردار عبدالرب نشتر بھی،خان عبدالقیوم بھی،اور مولانا محمد اکرم بھی، وعلی ہذاالقیاس،قائد اعظم تو پہلے ہی کانگریس کو پہچان کر الگ ہوگئے تھے۔
علمائے دین کی بھاری اکثریت اتنی سی بات کو نہ سمجھ سکی ،چلیں یونہی سہی،البتہ آج کے پاکستانی عوام یہ پوچھنے کا حق ضرور رکھتے ہیں کہ ہندو کی ہاں میں ہاں ملانے والے ،انگریزی جمہوریت کے متوالے علمائے دین نے جب یہ دیکھا کہ امت کی بھاری اکثریت نے تحریکِ پاکستان کو اپنا لیا ہے تو کیا اپنی جمہوریت پسندی کے اصول کی روشنی میں ان کو مسلمانانِ بر عظیم کی مرضی قبول کر لینی چاہئے تھی یا نہیں؟۔۔اگر علما کی سیاست ہارتی ہے تو پھر ان کو ہرانے والی جمہوریت مردود…….امریکاکو ہر جمہوریت پسند ہے ماسوا ئے اس جمہوریت کے جس کے ذریعے راسخ العقیدہ مسلمانوں کے برسرِ اقتدار آنے کا خدشہ ہو یعنی اپنی اپنی اصول پسندی اور اس کے معیار ………الجزائر اورمصرمیں ہم یہ سب کچھ دیکھ چکے ہیں۔
مسلمانانِ بر صغیر نے بہ خلوص خاطر دینی جہاد کیا تھا۔مسلمانوں کیلئے ایک وطن حاصل کرنے کی خاطر اور الحمد للہ کہ مسلمان عوام کی اکثریت کثیرہ کا پاکستان پر ایمان قائم ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ سیکولر علما یعنی گاندھی اور نہرہ کے پیروکارہندو ناشناس حضرات اور ان جیسے دیگر متکبر علما نے اس تحریک کو فراڈ قرار دیا تھا اور قائد اعظم کو فراڈِاعظم کا خطاب دیا تھا اور ان بزرگوں کی عالی قدر اولادبھی یہ کہتے ہوئے نہیں شرماتی کہ ہم پاکستان کے بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے،مصداق من صادر کوالدہ فما ظلم(جو اپنے باپ پر گیا اس نے کوئی زیادتی نہیں کی)۔مگر کیا وہ مسلمانانِ بر عظیم کی جدوجہد کوجمہوری نقطہ نظر سے بھی سر آنکھوں پر نہیں رکھتے؟یہ کیا ستم ظریفی ہے کہ ہندو کا جمہوری فیصلہ قبول مگر مسلمانوں کا جمہوری فیصلہ مردود!
خود کو دین کا پاسبان اور اسلام کے محافظ اور داعی جاننے والوں نے 1945اور1946 کے انتخابات میں کیا رویہ اختیار کیا تھا؟یہی ناں کہ ہمیں اس سے غرض نہیں کہ مسلم لیگ جیتے یا کوئی اور پارٹی،پاکستان معرض، وجود میں آتا ہے یا کہ نہیں،ہم کو تو خدمتِ اسلام سے غرض ہے۔ہم خدمتِ اسلام کے مؤقف پر قائم ہیں،وہ لوگ بری طرح ناکام رہے۔ آج بھی ان عالی شان حضرات اہلِ ایمان کا مؤقف یہی ہے کہ مسلم لیگ جیتے یا ہارے،ہمیں غرض نہیں کسی وطن دشمن سیاسی پارٹی کو فتح حاصل ہو،ہماری بلا سے،یہودی اور برہمن اور امریکن مقاصد کو تقویت نصیب ہو،بیشک ہوتی رہے،ہم خدمت ِاسلام کے مؤقف پر قائم ہیں۔ہمارا مؤقف درست ہے اور وہ لوگ دیکھ رہے ہیں کہ ان کے اس رویے نے پاکستان پر یہودی،قادیانی اور برہمنی گرفت مضبوط تر کر دی ہے۔
صاحبِ گنبدِ خضریٰ میں فریادی بن کر آیا ہوں
تاج وتخت ختمِ نبوت بیچ دیا دینداروں نے
یہ ہیں وہ لوگ جو یہ منحوس استفسار کرتے ہیں کہ پاکستان نہ بنتا تو کس طرح کا واضح فائدہ میسر آسکتا تھا۔دینی،اخلاقی،سیاسی اور معاشی وغیرہ وغیرہ اعتبارات سے۔ایسے لوگوں کو اب اہلِ قادیان کی جماعت بھی بطور معاون مل گئی ہے،کراچی کی ایک لسانی جماعت بھی جس کا خود ساختہ قائد بھارتی اور اسرائیلی ایجنٹ جو بھارت جا کر قائد اعظم اور علامہ اقبال کو پاکستان کی دھرتی کو مطعون کرتا ہے اور ہر صاحبِ اقتدار پارٹی کے ساتھ حکومت کے مزے بھی لیتا رہاہے۔اس طرح کے دیگرافراد تاویل کا بادشاہ ہیں اور آج ایسے سب ہی افراد چھوٹے بڑے، مذکر و مونث،پاکستان کے خلاف عقلی دلیلوں کے انبار لگا رہے ہیں۔وہ بڑی جلدی میں ہیں اوراپنے بیرونی آقاؤں کومددکیلئے بلارہے ہیں کہ شاید ایسا موافق وقت پھر میسر نہ آئے یا شاید ایسے مہربان اور ہمنوا حکومت تا دیر نہ رہے۔
من حیث القوم ہندو نے پاکستان کو تسلیم نہیں کیا،ہندو سربراہوں کے چیلوں نے بھی اس مملکتِ خداداد کو تسلیم نہیں کیا۔یورپی اور مسیحی قومیں خصوصا انگریز اس بر عظیم میں اسلام کے نام پر کسی مملکت کا ظہور قبول کرنے کو تیار نہیں تھے۔ان کے پروردہ قادیانی حضرات اور روحانی صاحب بہادر ان کا تا حال یہی حال ہے ۔کیا جس طرح تحریک پاکستان کے دوران میں علمائے کبار ہندو اور انگریز کا خصوصاً ماونٹ بیٹن اور ایٹلی کی حکومت کا رویہ نہ سمجھ سکے،آج بھی اسی طرح غافل ہیں یا دانستہ سیکولر ازم کے پرستا ر ہیں،یہ منحوس سوال کہ”اگر پاکستان نہ بنتا تو آیا ہم اس اعتبار سے اچھے رہتے ”اٹھا ہی کیوں؟پاکستانی عوام اس سوال کو ان کے ایمان کے خلاف آوازۂ مبارزت سمجھتے ہیں،ایسے سوال کو وہ اپنی توہین گردانتے ہیں، لہٰذا انہوں نے ایسے سیکولر عناصر کو جو محراب و منبر اور کرسی و دفاتر کی زینت ہیں،پائے استحقار سے ٹھکرا دیا ہے۔اہلِ پاکستان کی اکثریت کثیرہ کا پاکستان پر بھرپور ایمان تھا اور وہ ایمان قائم ہے اور قیامت تک یہ ایمان قائم رہے گا۔ ان شاء اللہ۔علمائے سو نے اور دین کے ان علمبرداروں نے تحریک ِپاکستان کے دوران بھی مسلمانوں کا دل دکھایا تھا اور آج بھی انہوں نے وہی اذیت کاری دہرائی ہے۔ خدا توفیق کیش کفر بخشد دیں پناہاں را !
ہاں اس وقت اور اس وقت میں فرق ہے،تحریک ِپاکستان کے دوران میں امت کو ایک قد آور قائد میسر تھا،جس کی بصیرت ، اخلاص،ذہانت اور سب سے بڑھ کر امانت داری پر مسلمانانِ ہند کو بھرپور اعتماد تھا اور آج ایسا کوئی مرکزی فرد جو نظر گاہِ اعتماد بن سکے موجود نہیں۔
پروفیسر بینی پرشاد نے لکھا تھا کہ مسلمان ابھی تک اپنی انفرادی ہستی قائم رکھے ہوئے ہیں،ان سے پہلے یہاں آنے والے گروہ اور قومیں ہندو معاشرے میں مدغم ہو گئے۔ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ مسلمانوں پر عیاں ہے کہ وہ بھارت کو ترکی،ایران اور مصر کی طرح اسلامی رنگ نہیں دے سکے جس کی سب سے بڑی وجہ مغل بادشاہ جلال الدین اکبر تھا جس نے ہندو مت کو ہندوستان سے مٹنے سے بچایا وگرنہ اس وقت اورنگزیب کی حکومت ہوتی تو آج ہندوستان کا نقشہ بالکل مختلف ہوتا ۔ سرل مودک نے کہا کہ مسلمان بھی دیگر غیر ہندو اقوام کی طرح ہندوں کی محبت کے باعث ہندوؤں میں ضم ہو جائیں گے،یعنی نابود ہو جائیں گے۔ڈاکٹر رادھا کشنن نے کہا(وہ ڈاکٹر رادھا کشنن جو بھارت کے فیلسوف صدر تھے)کہ ہندودھرم نے بدھ مت کو بھائیوں کی طرح بغل گیر ہو کر ختم کر دیا،سوامی دھرم تیرتھ جی مہاراج نے بھی یہ تسلیم کیا: ڈاکٹر رادھا کشنن کچھ بھی ارشاد فرمائیں،حقیقت یہ ہے کہ برہمنی ہندوؤں نے بدھوں کو قتل کیا،ان کے گھر گرائے،ان کے جانور ہلاک کئے،ان کی فصلوں کو آگ لگا دی،ان کی اکثریت کو علاقہ بدر کر دیا۔شیام پرشاد مکر جی نے قراردادِ پاکستان کے پیش اور پاس ہونے سے تقریبا ایک برس بعد دیاکھیان دیا کہ،،تقسیم کے آوازے ادھر ادھر سے سن رہا ہوں،اگر پاکستان بن گیا تو ہم اسے باقی نہیں رہنے دیں گے”۔
سوامی دیانند جی نے فرمایا کہ بھارت وید دھرم کا وطن ہے اور بھارت کو واپس ویدوں کی طرف جانا ہے اور یہاں بسنے والوں کو ویدی دھرم کے رنگ میں خود کو رنگنا ہو گا۔آر ایس ایس کے بل راج مدھوک نے اظہارِ افسوس کیا کہ ہندو قوم نے ایک ہزار سال پہلے محمدۖکا بت بنا کر مسجد مندر منڈی بازار وغیرہ میں کیوں نہ سجا دیا۔مسلمان اپنے پیغمبر کو پوجنے آتے تو ان کے دلوں سے ہمارے بتوں کی نفرت بھی نکل جاتی اور رفتہ رفتہ وہ ہمیں میں گم ہو جاتے جس طرح بدھ مت والے ہو گئے۔ہم نے بدھ مت جی کو اوتار مان لیا اور ان کا بت اپنے بتوں میں شامل کر لیا ۔ہمارے سینکڑوں ہزاروں بتوں میں ایک بت کا اضافہ ہو گیا مگر بدھ کہیں کے نہ رہے(حالانکہ بدھوں کو جبرا ًقہراً ختم کیا گیا تھا جیسا سابقہ سطور میں سوامی دھرم تیرتھ جی کی زبانی بیان ہوا)۔ گاندھی جی فرمایا کہ مجھے اردو زبان کے حروف قرآن کے حروف سے مشترک نظر آتے ہیں،لہٰذا ہندوستانی زبان اختیار کی جائے اور وہ بھی دیوناگری اکھروں میں۔ پنڈت جواہر لال نہرو بڑے روشن خیال انٹیلکچو ئل ہونے کے مدعی تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ ”ہندوستان میں ایک ہی قوم ہے اور وہ ہے ہندوستانی ،دو قومی نظریہ مٹھی بھر افراد کا پیدا کردہ شاخسانہ ہے ، میں نے غور سے دیکھا ہے ،میں نے خوردبین لگا کر غور سے دیکھا ہے مگر دوسری قوم مجھے تو نظر نہیں آئی”۔
دو قومی مسئلہ کہاں ہے یعنی مسلمانوں کے جداگانہ و جود سے یکسر انکار!1937 میں جب کانگریسی وزارتوں کا قیام عمل میں آیا تو چھ صوبوں میں ودیا مندر اسکیم نافذ کر دی گئی۔وہ تعلیمی منصوبہ تھا کہ غیر بھارتی عناصر کو بھارتی زندگی میں سے نکال باہر کیا جائے،بھارتی ہیرو اور وہ بھی ہندو سامنے لائے جائیں۔ہندی زبان نافذ کی جائے،گیت بندے ماترم مدرسوں میں گایا جائے،اس بندے ماترم کو قائد اعظم نے مشرکانہ گیت قرار دیا تھا۔بندے ماترم جس ناول آنند مٹھ سے لیا گیا تھا اس کی ساری کہانی مسلم دشمنی کے زہر سے لبریز ہے۔مسلمان عوام اور مسلم لیگی قائدین ہندوں کے اس صریح مسلم کش روئیے پر چیخ اٹھے،ہاں گاندھی جی کی مورتی بھی مدرسوں میں سجا دی گئی تھی جس کے روبروہاتھ جوڑ کر کھڑے ہونااور پرنام عرض کرنا شامل درس و تربیت قرار دیا گیا،مسلمان بچیوں اور بچوں کو بھی اس کارِ شرک پر مجبور کیا جانے لگا،چنانچہ مسلمانوں کو باقاعدہ کمیشن بٹھانے پڑے اور ان کمیشنوں نے تحقیقی رپورٹس شائع کیں،شریف رپورٹ اور اے کے فضل الحق رپورٹ کا تعلق اسی روداد ِ ستم و جور سے تھا،لیکن مسلمانوں کے صاحب بہادر،کیمونسٹ وغیرہ طبقے تو ایک رہے،عملدارانِ دین متین نے مسلمان عوام اور ان کے ہر دلعزیز قائدین کی ایک نہ سنی ۔ علما کے نمائندے مسلسل کہتے رہے کہ بندے ماترم قومی گیت ہے ہم گاتے رہیں گے،حضرت ابوالکلام آزاد جیسے بزرگوں نے اوپر بیان کردہ تحقیقاتی رپورٹ کی تردید کی اور جب مسلمانوں نے کانگرسی وزارتوں کے خاتمے پر دسمبر1939 میں یومِ نجات منایا تو ہندو جاتی کو دکھ ہونا ہی تھا۔علما حضرات نے بھی مسلم عوام اور مسلم لیگ کے اس عمل کو متحدہ قومیت کی روح پر فتوح کے خلاف عناد و فساد قرار دیا۔یاد رہے کہ یومِ نجات میں اچھوتوں نے بھی مسلمانوں کا ساتھ دیا تھا جیسا کہ ڈاکٹر لنکا سندرام نے اپنی کتاب”اے سیکولر سٹیٹ آف انڈیا”(A Secular State of India)میں ذکر کیا ہے۔اپنی اس کتاب میں دوقومی نظریہ کے پس منظرمیں کیالکھتے ہیں،وہ بھی ملاحظہ فرمالیں:
ایک دور ایسا آیا کہ ہزاروں میل دور سے آئے انگریز برصغیر جنوبی ایشیا کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے۔ان کے دور میں ہندوں نے بارہا مسلمانوں سے اپنے ایک ہزار غلامی کا بھرپور انتقام لیا اور دوسری طرف مسلمانوں کا یورپ کے قلب ہسپانیہ پر مسلمانوں کا ساڑھے آٹھ سو سالہ دورِ حکومت کا غصہ ،کینہ اور بغض ابھی تک ان انگریزوں کے دلوں میں موجود تھا۔ لیکن ایک موڑ پر ہندوں نے جنوبی ایشیا کو انگریزوں کے تسلط سے آزاد کرانے کیلئے مسلمانوں سے جب امداداور تعاون طلب کیا تو مسلمانوں نے دستِ تعاون کو بڑے اخلاص سے تھام کر ہندوں کی مکمل مدد کی اور قربانیوں سے بھی دریغ نہیں کیا ۔ تاہم جب ہندوں کے اصل عزائم کھل کر سامنے آگئے تو دونوں کے راستے الگ ہو گئے۔بعض مسلمان رہنماں اور مصلحین کی دوربیں نگاہوں نے ابتدا سے ہی یہ بات سمجھ لی تھی کہ ہندوں کا مسلمانوں سے اتحادمقصد براری کیلئے ہے،اسی لئے جب انڈین نیشنل کانگریس قائم ہوئی تو سرسید نے مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ اس میں شامل نہ ہوں۔
مسلم لیگ کے قیام کے بعد کچھ عرصے میں اس جماعت نے حکومتی خود اختیاری کے مطالبہ کے بعدبرصغیرجنوبی ایشیا کے مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ الگ وطن حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کی۔علامہ اقبال نے 1930 میں پاکستان کا تصوراتی نقشہ مسلم قوم کے سامنے پیش کر دیا جبکہ1932میں چوہدری رحمت علی نے لفظ”پاکستان”کی تشہیر کی۔اب تو ہندو قوم اور ہندو پریس بری طرح مسلمانوں کے پیچھے پڑ گئے ۔ پاکستان کے تصور کو دیوانے کی بڑ اور شاعر کا خواب کہا گیا۔لیکن چشمِ عالم نے یہ منظر دیکھ لیا کہ14 /اگست1947 رمضان المبارک کی ستائیسویں شب کو یہی خواب حقیقت بن گیا اور پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھر کر آزاد خود مختار قوموں کی صف میں کھڑاہوگیااورآج ایک ایٹمی
قوت بھی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ علیحدہ وطن پاکستان کا مطالبہ کیوں کیا گیا؟ کیا برصغیر جنوبی ایشیاکے مسلمان ایک آزاد اور خود مختار بھارت میں سکون کا سانس نہیں لے سکتے تھے ؟تو اس کا جواب ہی دوقومی نظریے میں مضمر تھا۔یہی نظریہ تھا جو قیامِ پاکستان کا محرک بنا!دو قومی نظریے سے مراد یہ ہے کہ بھارت میں دو قومیں ہندو اور مسلمان رہتی ہیں جن میں صرف اولادِ آدم ہونے کے علاوہ اور کوئی قدر مشترک نہیں۔ان کا کھانا پینا،نشست و برخاست ،تہذیب و ثقافت،رسم و رواج،لباس اور خوراک تک ایک دوسرے سے مختلف اور بالکل علیحدہ ہیں۔اب یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ،اس میں دین و دنیااور مذہب و سیاست کی علیحدگی کو کوئی تصور نہیں۔مسلمانوں کا مرنا جینا،اٹھنا بیٹھنا،کھنا پینا،حکومت کرنا،جہاد میں جنگ آزما ہونااور دوستی دشمنی نبھانا،سب رضائے الہٰی کیلئے ہے،جبکہ ہندوں نے اپنی زندگی کو مختلف خانوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ان کا مذہب ان کی سیاست سے بالکل الگ،اور ان کا کاروبارسچائی اور دیانت داری کے بالکل منافی ہے۔
ہندووں کا مذہب سختی سے ذات پات میں تقسیم ہے،اولادِ آدم کو غیر حقیقی انداز میں چار قوموں یا ذاتوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ دنیا کے تمام مذاہب محبت،آشتی اور امن کا پیام دیتے ہیں لیکن ہندو مذہب میں سب سے نچلی ذات جسے شودر کا نام دیا گیا ہے اس کا کھانا پینا،رہن سہن ،رسوم و رواج اب بھی کسی تہذیب یافتہ قوم کے برابر نہیں حتی کہ اگر ان نچلی ذات کے شودر کے کانوں میں غلطی سے ہندوں کی مقدس کتاب گیتا کے اشلوک پڑ جائیں تو اس شودر کے کانوں میں سیسہ پگھلا کر ڈال دینا اس برہمن کے مذہب کا ایک حصہ ہے لیکن مسلمانوں کو تو ان شودروں سے بھی نچلی قوم سمجھا جاتا تھا ،اب بھلا آگ اور پانی اکٹھے کہاں رہ سکتے تھے۔مسلمانوں نے صدیوں تک ہندوستان پر حکومت کی اس لئے ہندو اور مسلمان اکٹھے رہے اور مسلمانوں کے دورِ حکومت میں خصوصا مغلوں کے دورِ حکومت میں تو ان کو اعلی عہدوں پر فائز رکھا گیا لیکن تاریخ اس بات کی گواہ ہے اور کئی ہندو مؤرخین نے اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے کہ اگر تیسرے مغل بادشاہ جلال الدین اکبرکے حرم میں ہندو راجپوت عورتیں داخل نہ ہوتیں تو سارے ہندوستان سے ہندو برہمن کا خاتمہ ہو جاتا لیکن ہندو محکوم ہونے کے باوجود بھی سازشوں سے باز نہیں رہے۔ہندوں کے بہت ہی مشہور مذہبی سیاسی رہنما چانکیہ کے حکومت کرنے کے اصول اگر آپ پڑھیں تو اس برصغیر خطے کیلئے دو قومی نظریہ ایک نعمت سے بالکل کم نہیں ۔
اب اگر متحدہ بھارت آزاد ہوتا تو جمہوریت کے مروجہ اصولوں کے مطابق اس کا کاروبارِ حکومت اور سیاست اکثریت کی رائے کے مطابق چلایا جاتا۔اس طرزِ حکومت میں شائد مسلمانوں کو سجدے کی تو اجازت ہوتی لیکن قانون رامائن اور گیتا کا چلتا۔متعدد معاملات میں مسلمان اپنے دینی شعائر پر عمل پیرا ہونے سے قاصر رہتے،کیونکہ یہ امر اکثریت کے مذہبی اقدار کے برعکس سمجھا جاتا،مثلا گاؤ کشی کو ہی لے لیں،مسلمان گائے کا گوشت خدا کی نعمت اور حلال و طیب غذا سمجھ کر کھاتے ہیں جبکہ ہندوگائے کو اپنی ماتا(یعنی ماں)سمجھ کر اسے ذبح کرنے والوں کے گلوں پر چھری پھیر دیتے ہیں۔آئے دن اس معاملے پرخونی مسلم کش فسادات ہوتے رہتے ہیں۔گویا مسلمانوں نے دو قومی نظریہ کی بنیادپر پاکستان کا مطالبہ اس لئے کیا کہ وہ اس ملک میں اسلامی اصولوں کے مطابق حکومت قائم کرنا چاہتے تھے جہاں ذات پات
کی بھی کوئی قید نہیں اور اپنے اسلامی قوانین کے تحت وہ برابری کے اصول پر زندگی گزارنا چاہتے تھے۔
تاریخی تناظر میں اگر دو قومی نظریہ کو دیکھا جائے تو یہ کوئی نئی ذہنی اختراع نہیں،بلکہ یہ اصول تو اسلام کے ساتھ ہی وجود میں آگیا تھا۔ حضورِ اکرم ۖکی بعثت کے بعد دنیا میں دو خاص طبقے تھے۔ایک وہ جو توحید کے پرستار تھے اور دوسرے وہ جو توحید کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ برصغیر جنوبی ایشیا کے حوالے سے قائد اعظم محمد علی جناح نے قیامِ پا کستان میں دوقومی نظریہ کے کردار کوان الفاظ میں واضح کیا ”پاکستان تو اسی دن وجو میں آگیا تھا جب برصغیر میں پہلا مقامی باشند ہ بر رضا و رغبت مسلمان ہوا”۔آج سے تقریبا ایک ہزار سال پہلے مشہور عالم دین اور سیاح ابو ریحان البیرونی نے جو1001 ء میں بھارت آئے تھے،جنوبی ایشیا کے دو قومی نظریہ کو ان الفاظ میں واضح کیا”برصغیر جنوبی ایشیا میں دو قومیں ہندو اور مسلمان رہتی ہیں، یہ دونوں قومیں نہ ایک ساتھ کھانا کھا سکتی ہیں اور نہ ہی ازدواجی تعلقات قائم کر سکتی ہیں”۔
اکبر اور جہانگیر کے دور میں جب حکمرانوں نے دربارمیں غیر اسلامی رسم و رواج کو جگہ دی اور ملک میں بعض غیر اسلامی احکام نافذ کئے تو شیخ احمد سرہندی المعروف بہ مجدد الف ثانی کے سامنے سینہ سپر ہو گئے اور انہوں نے دو قومی نظریہ کے تحفظ کی خاطرقید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔دو قومی نظریہ کو عام کرنے میں حضرت شاہ ولی اللہ کا اہم کردار ہے جنہوں نے احمد شاہ ابدالی کو بھارت کے مسلمانوں کے تحفظ اور مرہٹوں کا سر کچلنے کیلئے بھارت پر حملے کی دعوت دیتے ہوئے تحریر فرمایا ”اگر کفر کو غلبہ حاصل ہو گیا تو مسلمان اسلام کو فراموش کر دیں گے اور پھر جلد ہی ایسا وقت آئے گا کہ مسلم اور غیر مسلم میں کوئی امتیاز نہ کر سکے گا”۔
78سالوں کے بعدآج پھرتحریک پاکستان سے بالکل نابلداوراپنے غیرملکی آقاؤں کی آشیربادسے قائداعظم محمدعلی جناح پرایک بے سروپاالزام لگاتے ہیں کہ وہ پاکستان کوایک سیکولر ریاست بناناچاہتے تھے جبکہ تاریخ گواہ ہے کہ قائد اعظم نے ١٤٩١ میں حیدر آباد (دکن) میں عثمانیہ یونیورسٹی کے طلبا کو ایک انٹرویو میں واضع الفاظ فرمایا کہ”اسلامی حکومت کے تصورکا یہ امتیاز ہمیشہ پیش نظر رہنا چاہئے کہ اس میں اطاعت اور وفا کیشی کا مرجع خدا کی ذات ہے۔ جس کی تعمیل کا واحد ذریعہ قرآنِ مجید کے احکام و اصول ہیں۔ اسلام میں اصلا نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے نہ کسی پارلیمان کی،نہ کسی اور شخص یا ادارہ کی۔ قرآنِ کریم کے احکام ہی سیاست یا معاشرت کی ہماری آزادی اور پابندی کے حدود متعین کرتے ہیں۔ اسلامی حکومت دوسرے الفاظ میں قرآنی اصول اور احکام کی حکمرانی ہے اور حکمرانی کے لیے آپ کو علاقہ اور مملکت کی ضرورت ہے”۔بحوالہ:اورینٹ پریس روزنامہ انقلاب لاہور ،8 جنوری 1942بانی پاکستان قائد اعظم نے اپریل 1934میں صوبہ سرحد کی مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کو ایک پیغام میں الفاظ فرمایا کہ”تم نے مجھ سے کہا ہے میں تمہیں کوئی پیغام دوں۔ میں تمہیں کیا پیغام دوں کہ جب کہ ہمارے پاس پہلے ہی سے ایک عظیم پیغام موجود ہے جو ہماری راہنمائی اور بصیرت افروزی کے لیے کافی ہے۔ وہ پیغام ہے خدا کی عظیم کتاب قرآنِ کریم ”بحوالہ: تقاریر جناح ، جلد اول، صفحہ615 بانی پاکستان قائد اعظم نے دسمبر1943 میں کراچی میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کے اختتامی خطاب میں خود اپنے ہی سوال کے جواب میں فرمایا کہ”وہ کون سا رشتہ ہے۔ جس سے منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں؟ وہ کون سی چٹان ہے۔ جس پر ان کی ملت کی عمارت استوار ہے؟ وہ کون سا لنگر ہے۔ جس سے اس امت کی کشتی مخفوظ کر دی گئی ہے؟وہ بندھن، وہ رشتہ ، وہ چٹان، وہ لنگر، خدا کی عظیم کتاب، قرآنِ مجید ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے ہم میں زیادہ سے زیادہ وحدت پیدا ہوتی جائے گی…….یک خدا، ایک کتاب،ایک رسول فلہذا ایک قوم”۔بحوالہ: تقاریر جناح۔ جلد دوم، صفحہ50
برصغیر جنوبی ایشیا میں دو قومی نظریہ ہی پاکستان کا اہم محرک ہے۔جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ وطن حاصل کرنے کا مقصد ہی یہ تھا کہ ایک ایسا خطہ حاصل کیا جائے جہاں اسلام کے زریں اصولوں کے مطابق نظامِ حکومت قائم کی جا سکے۔اس سلسلے میں قائد اعظم محمد علی جناح کا یہ قول سنہری الفاظ میں لکھنے کے قابل ہے:ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کیلئے نہیں کیا تھا بلکہ ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو اپنا سکیں۔جنوبی ایشیا میں سندھ اسمبلی وہ نمائندہ ایوان تھا جس نے 1938 میں مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ وطن کی قرارداد پیش کی اور1940 میں مسلم لیگ نے قراردادِلاہور کے ذریعے قیامِ پاکستان کو اپنی منزل ٹھہرایا اور آج پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک آزاد اور خود مختارملک کی شکل میں جگمگا رہا ہے ۔
قارئین!بھارتی ہندوجاتی اور اس کی قیادت پاکستان اور اہلِ اسلام کا وجود اس برعظیم سے مٹانے کے درپے تھی اور 78 سال گزرنے کے بعد اب بھی درپے ہے۔ کیا اس حالت میں وہاں مسلمانوں کیلئے کوئی بہتری عمل میں آسکتی تھی؟کیا وہ مسلمان جو وہاں ہیں ان کی صورتِ حال خود ٹھوس شہادت نہیں اس امر کی ،کہ ان کو مٹانے کی اب بھی کوششیں جاری و ساری ہیں ۔ ہمارے قوم پرست ملا یہ کہتے ہوئے سنے گئے ہیں کہ ہندو قوم مسلمانوں کو نہیں مٹا سکتی ،14سو سال ہو گئے ہیں اکٹھے رہتے ہوئے۔خدا جانے ہمارے قوم پرست ملا کی دانش کیوں غائب رہتی ہے؟ہم ہندو کے ساتھ اکٹھے کب رہے ہیں؟ہم حاکم تھے اور ہندو محکوم تھے۔صدیوں یہ حال رہا،ایسی صورت میں وہ مسلمانوں کو کس طرح نقب لگاتے ،الٹا ان کو نقب لگتی رہی، مسلمان اور ہندودونوں انگریزکے غلام ہو گئے،ایسے عالم میں ہندو بھی بے بس اور مسلمان بھی محکوم۔
ویسے ہندو مسلمان ایک ہی بر عظیم میں آباد ہونے کے باوجود اکٹھے کبھی نہیں رہے۔حق یہ کہ امتحان اور آزمائش کا وقت اب آیا ہے، جب بھارت میں ہندو حاکم کی طرح مسلط ہو گیا ہے۔ بھارتی مسلمانوں کو نقب لگ رہی ہے،کشمیریوں پر بے پناہ مظالم توڑے جار ہے ہیں، ایک لاکھ سے زیادہ ان کے معصوم بچے،بے گناہ عورتیں ،جوان اوربوڑھے شہید کئے جاچکے ہیں۔ ان کاقصور صرف یہی ہے کہ ساری دنیا کے سامنے اقوام متحدہ کے روبرو بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت نہرو نے ان کشمیریوں کے ساتھ جو حق خود د ارادیت کا وعدہ کیا تھا ،وہ اس کا مطالبہ کر رہے ہیں۔بھارت میں اسکولوں اور مدرسوں میں وہ نصاب پڑھایا جا رہا ہے کہ مسلمان بچہ اپنی قوم کے ماضی سے یا بے خبر رہے یا ان سے نفرت کرے اور ہندو اکابر کا معتقد ہو تا چلا جائے ۔چند روز ہوئے ٹی وی لگایا تو ہندوستان کے ایک چینل پر ایک لڑکا بات کر رہا تھا ، میرے پتاکا نام گپتا جی ہے اور میری ماتا کا نام نسیمہ بیگم ہے،میں ہندو ہوں اور میری بہن مسلمان ہے ،ہم چاروں بڑے امن اور چین سے اپنے گھر میں رہ رہے ہیں۔
قرآنِ کریم میں قومِ یہود سے اللہ نے ایک سے زیادہ بار کہا ہے کہ وہ دن یاد کرو جب تم فرعون کی رسواکن غلامی میں مبتلا تھے۔فرعون تمہارے مردوں کو قتل کرا دیتا تھا اور تمہاری عورتوں کو زندہ رکھتا تھا ۔ ظاہر ہے کہ اگر مرد واقعی قتل ہو جاتے تو اولاد کیسے پیدا ہوتی،عورتیں کیسے وجود میں آتیں۔یہاں مار دینا مجازا ًکہا ہے ،مراد ہے کہ یہودی مردوں کو پامال اور مسکین و عاجز بناکر رکھا جاتا تھا اور یہودی عورتوں کو اچھی تعلیم و تربیت دی جاتی تھی تاکہ وہ قومِ فرعون کی عیاشی کا سامان بنیں۔یہی حال اب ہندوستان میں ہو رہا ہے۔مسلمان بچیوں کو تعلیمی وظائف سے،مسلم نوازی کے طور پر تعلیم و تربیت دی جاتی ہے،جب وہ گریجو ایٹ یا پوسٹ گریجوایٹ ہو جاتی ہیں،طبی تعلیم یا کوئی اور ایسی فنی تعلیم مکمل کر لیتی ہیں تو شادی کا مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے۔جس ماحول میں تعلیم عمل میں آتی ہے وہ سیکولر ہے اور گھر اور رشتہ داروں میں موافق بر نہیں ملتا۔چچیرا بھائی رکشہ چلا رہا ہے،ماموں کا بیٹا سائیکل کو پنکچر لگا رہا ہے،خالہ زاد مستری ہے،اور دور کابھی کوئی پڑھا لکھا رشتہ میسر نہیں، لہٰذا بڑے آرام سے مسلمان بچی غیر مسلموں میں بیاہ دی جاتی ہے اور مشہور کر دیا جاتا ہے کہ داماد نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ ہمارے ناشکرگزار مسلمان ،وہ جن کی اکثریت علما اور صاحب بہادر وں پر مشتمل ہے اب اس گروہ میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کو خدا نے قائد اعظم کی جوتیوں کے طفیل کروڑ پتی بنا دیا ہے اور منصب عزت سے نوازا ہے۔کیا یہ لوگ اللہ تعالی کے یہودیوں سے اس خطاب کا معنی بالکل نہیں سمجھتے؟
کچھ عرصہ ہوا رام پور یوپی (بھارت)سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب نے جو پاکستان کے ایک اہم ادارے میں انگریزی ادبیات کے استاد تھے اور آجکل انگریزی اخبارات میں لکھتے لکھاتے ہیں،مجھ سے رازدارانہ سوز و ساز کے ساتھ کہا”ملک صاحب!ذرا ہم ٹھنڈے دل سے سوچیں تو سہی 1935 کے ایکٹ نے صوبائی اختیارات کتنے وسیع کر دیئے تھے کہ گویا پورا پنجاب اور بنگال باقی دو تین چھوٹے یونٹوں سمیت اپنا تھا۔آزادی کے بعد صوبائی حقوق میں اور بھی اضافہ ہو جاتا تو پھر ہم نے علیحدگی کا دردِ سر کیوں مول لیا؟ایسی ہی فلاسفی کو اب عام کیاجارہاہے۔انگریزی کے پروفیسروں میں اور بھی کئی ایسے متعقل اور صاحب بہادر ہیں۔میں نے عرض کیا ”حضور!قوت مرکز کے پاس ہوتی ہے،قومی پالیسی مرکز نافذ کرتا ہے، مرکز جب چاہے ،جس صوبے کا چاہے گلا دبوچ لے،اس کے علاوہ آپ یہ دیکھیں کہ اصل متحدہ پنجاب کے نصف سے کچھ کم پنجاب بھارت کو ملاتھا۔ سکھوں کے باعث بھارت نے اس پنجاب کے تین ٹکڑے کر دیئے۔آپ کیا سمجھتے ہیں کہ لالہ آپ کے پاس پنجاب اور بنگال اس صورت میں رہنے دیتا کہ وہاں مسلمانوں کی اکثریت رہتی؟ وہ بنگال کا بھی تیا پانچا کر دیتا اور پنجاب کا بھی۔بنگال کے کچھ حصے اور بہار کے کچھ حصے ملا کر نیا نقشہ بنا دیتا اسی طرح پنجاب کے ساتھ یوپی کا کچھ حصہ ملا کر اور کچھ حصہ انبالہ ڈویژن کے ساتھ ملحق کرکے تین صوبے بنا دیتا اور جب مسلمانوں کی اکثریت کے صوبوں کا تیاپانچا کیا جاتا تو اسے انتظامی ضرورت قرار دیا جاتا۔کیا وہ لوگ جو امت کے مفاد کو سمجھتے نہیں یا مکر کا شکار ہو جاتے ہیں یا پیٹ کی لپیٹ میں آجاتے ہیں ، ہندو حکومت کی اس مسلم کش حکمت ِعملی کی تائید نہ کرتے؟بے شک مسلمان عوام چیختے رہتے۔ پروفیسر صاحب کے پاس اس دلیل کاکوئی جواب نہیں تھااوریہ سن کر خاموش ہو گئے۔
میں نے عرض کیا،آخر پاکستان میں رہتے ہوئے آپ پاکستان کی بہتری کے بارے میں کوئی تجویز پیش کرنے یا سوچنے کی بجائے الٹا پاکستان کو ختم کر دینے کے ضمن میں کیوں ذہن کو تیار کرتے رہتے ہیں؟ اور قراردادِ لاہور کو منسوخ کرنے کے درپے کیوں رہتے ہیں؟ میں نے وضاحتاً کہا کہ مسلم لیگ نے 1921میں اور پھر چودہ نکات میں شامل چھٹے نکتے کی رو سے انگریز حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ مسلم اکثریتی صوبوں کی حد بندی کو ہرگز یوں نہ چھیڑا جائے کہ وہاں کے مسلمانوں کی اکثریتی حیثیت متاثر ہو،لیکن متحدہ ہندوستان میں چھٹا نکتہ کیوں ملحوظ رہتا!میں نے مزید عرض کیا کہ اگر آپ جیسا متعقل مجھ جیسے متعصب پاکستانی مسلمان سے بھی یہ رازونیاز کرنے کی جرآت کر سکتا ہے تو نجانے دیگر کس کس سے آپ نے یہ قول لقمانی عرض نہیں فرمایا ہو گا ۔”فِی قلوبِہِم مرض فزادہم اللہ مرضا۔قائدِ اعظم کو فاجر قائد کہنے والے سوچیں تو ذرا کہ امتِ مسلمہ کے باب میں اتنا بیدار ذہن خدائے رحمان و رحیم فاجروں کا عطا کرتا ہے؟ اب یہ ہمارا دینی اور اخلاقی فریضہ ہے کہ بیرونی یلغار اور اندرونی خلفشار کو ختم کرکے اس ریاست کو ایک عظیم مملکت بنائیں، ہمیں اس کی آبیاری کیلئے عزمِ نو کرنا ہو گااور اس کی حقیقی خود مختاری کیلئے نئے سرے سے اپنی صفوں کو استوار کرتے ہوئے دشمن کے ایجنٹوں کو پہچان کران سے گلو خلاصی کرانا ہوگی۔اب بھی وقت ہے،دوست دشمن کی تمیز میں فرق کرنا ہو گا۔کچھ نہیں بچے گا،صرف میرے رب کا نام جو حیی القیوم ہے اور جس نے اس دنیا کے نقشے پر پاکستان جیسی مملکت کو معجزاتی طور پر ظہور پزیر کیا ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں