خطرناک بحرانوں میں خطرناک اضافہ
شیئر کریں
میری بات/روہیل اکبر
اس وقت ملک میں بجلی کے بڑھتے ہوئے بلوں نے تباہی مچا رکھی ہے، ویسے تو بارشوں نے بھی ہر طرف سیلاب کی سی صورتحال بنا رکھی ہے لیکن یہ تو ایک قدرتی پریشانی ہے اس پر آخر میں لکھوں گا۔ اس وقت اصل پریشانی بجلی کے بلوں میں اس اضافے کی ہے جس نے ایک بار پھر غریب لوگوں کو خود کشیوں پر مجبور کر دیا ہے۔ مختصر کاغذ پر اتنے بھاری بھرکم بل ہوتے ہیں کہ جسے دیکھتے ہی عام انسان کی کمر ٹوٹ جاتی ہے حکومتیں ہوتی ہیں اپنے لوگوں کو خوشیاں دینے کے لیے لیکن یہ کیسی حکومت ہے جو خود کو عوامی بھی کہتی ہے اور عوام سے دور بھی بھاگتی ہے۔ الیکشن سے پہلے اتنے بلند بانگ دعوے اور الیکشن کے بعد میں کون اور تو کون والی بات بن چکی ہے۔ اتنی شدید حبس اور گرمی میں بھی لوگ اپنے ائر کنڈیشنڈ بند کرکے بیٹھے ہوئے ہیں اور جو سرکاری خرچ پر انہیں استعمال کرتے ہیں وہ بے شمار کرتے ہیں۔ بجلی کے بلوں نے واقعی عوام کا برا حشر کررکھا ہے۔ لوگ اپنے گھروں کی چیزیں بیچ کر بل جمع کروا رہے ہیں ۔یہ کیسی حکومت ہے جس کے وزیر اعظم بھرے مجمع میں اپنے کپڑے بیچنے کی بات کرتے تھے اور اب عوام اپنے کپڑوں سمیت برتن تک بیچ رہے ہیں۔ رہی بات کھانے پینے کی اشیاء کی وہ بھی عوام کی پہنچ سے دور ہوتی جارہی ہیں۔ بچوں، بڑوں اور بزرگوں میں لحمیات کا واحد ذریعہ برائلر مرغی ہے اور یہ صنعت اب خود مسائل کا شکار ہوتی جارہی ہے ۔
ہمارا پولٹری سیکٹر، جو خاندانوں اور بچوں کے لیے پروٹین کا ایک اہم ذریعہ ہے مالی بحران کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ آسمان سے چھوتی لاگت اور تعزیری ٹیکس اس اہم شعبے کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ یہ شعبہ سالانہ 1.44 بلین کلوگرام مرغی کا گوشت اور 17.5 بلین انڈے پیدا کرتا ہے۔ یہ شعبہ ان دنوں غربت کی وجہ سے عوام میں کم ہوتی ہوئی قوت خرید، نقصانات اور حقیقی سرمائے کی کمی کی وجہ سے شدید مشکلات کا شکار ہے جبکہ حکومت نے پولٹری فارمرز کے لیے کسی قسم کی مراعات کا اعلان کرنے کے بجائے اس جدوجہد کرنے والی صنعت پر سیلز ٹیکس لگا دیا ہے جو بچوں کے لیے پروٹین کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ سیلز ٹیکس کا نفاذ اس شعبے کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گا جو کہ لاتعداد خاندانوں کی آمدنی کا ذریعہ ہے۔ زراعت اور پولٹری ایک دوسرے کے لیے ناگزیر ہیں۔ پولٹری فارمرز بھی زراعت کی طرح سیلز ٹیکس سے مستثنیٰ ہونی چاہیے لیکن پالیسی سازوں نے کوئی رحم نہیں کھایا اور ان پر بھاری ٹیکسوں کا بوجھ ڈال دیا۔یہ شعبہ پہلے ہی متعدد مسائل سے دوچار ہے اور اوپر سے فیڈ کی قلت، مہنگا خام مال اور بجلی اس شعبے کو مزیدپریشان کر رہی ہے۔ یہ صورتحال پولٹری فارمز کی بندش کا باعث بنے گی، جس کے اور انڈے اور مرغی کے گوشت کی برآمد پر اثر پڑے گا۔ مقامی صارفین کو بھی اس وقت بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا، جب پروٹین کا سستا ذریعہ سستی قیمتوں پر آسانی سے دستیاب نہیں ہوگا۔اس وقت پاکستان میں چکن کے گوشت کی سالانہ کھپت کا تناسب صرف 7.20 کلو گرام ہے جبکہ انڈوں کی کھپت بھی بہت کم ہے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ انسان کو ایک انڈہ ہر روز کھانا چاہیے جبکہ بچوں کی نشونما کے لیے انڈہ بہت ضردری ہے لیکن ہمارے ہاں اوسط ایک پاکستانی سالانہ صرف 88انڈے کھاتا ہے جو کہ بین الاقوامی معیار کے مطابق ہے اور نہ ہی صحت کے اصولوں پر ہے۔
تشویش کی بات یہ بھی ہے کہ 40 فیصد پاکستانی پہلے ہی غذائی قلت کا شکار ہیں اس لیے حکومت بھرتے ہوئے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے اور صحت مند نسل کی پرورش کے لیے پولٹری فارمرز کے لیے سبسڈی یا قرض کے پروگرام کی پیشکش کر کے ریلیف کا اعلان کرے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر یہ صورتحال انڈے اور چکن کے گوشت کی پیداوارمیں کمی کا سبب بن سکتا ہے ۔اب بارشوں کا موسم ہے اور لاہور میں ہونے والی صرف دو دن کی بارش نے لاہور کے نشیبی علاقوں سمیت آدھے لاہور کو پانی پانی کردیا ہے۔ خاص کر ایسے علاقے جہاں پورے لاہور کی خوراک ہوتی ہے۔ میری مراد سبزی منڈی سے ہے جہاں پانی کا ٹھاٹھیں مارتا سیلاب آیا ہوا ہے ۔یہ جگہ ویسے بھی کبھی اتنی صا ف ستھری نہیں رہی لیکن ان دو دنوں میں وہاں کے پانی نے دریا کے پانی کو مات دیدی۔ 31جولائی تک بارشوں اور ان کے سبب ہونے والے حادثات میں 99افراد ہلاک ہوئے جن میں سب سے زیادہ پنجاب میں خیبرپختونخوا میں اور سندھ میں ہلاکتیں ہوئی۔ اگرچہ محکمہ موسمیات نے دو ماہ قبل ہی یہ وارننگ جاری کر دی تھی کہ اس سال معمول سے 35فیصد زیادہ بارشیں ہونگیں مگر اس کے باوجود صوبوں کی سطح پر ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے انتظامات دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ حکام نے اس الرٹ کو بھی معمول کی کارروائی سمجھا تھا۔ لاہور سمیت پنجاب کے بعض شہروں میں ریکارڈ ساز بارش کی وجہ سے بھی مشکلات میں اضافہ ہوا مگر غیر معمولی بارشوں کے ان سلسلوں کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے حالیہ مون سون میں چار دہائیوں قبل کا بارشوں کا ریکارڈ ٹوٹنا موسمی تغیرات اور ہمارے ملک پہ انکے منفی اثرات کی واضح نشاندہی ہے۔ چنانچہ اس تناظر میں بلیم گیم اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ سے اوپر اٹھ کر ایک جامع پالیسی وضع کرنے کی ضرورت ہے ۔صرف دو ماہ قبل پورے ملک کو شدید گرمی اور ہیٹ ویو کا سامنا تھا اور اب شدید بارشوں کے ساتھ ساتھ شدید حبس کا بھی سامنا ہے۔ اسی سال اپریل میں دبئی میں تاریخ کی بدترین بارشیں ہوئیں تو حکام فوری طور پر دیر پا حل پر متوجہ ہوئے اور 30ارب درہم کی لاگت سے تصریف نامی ایک منصوبے کا آغاز کردیا جو پانی کی نکاسی کے نظام کی صلاحیت میں 700گنا تک اضافہ کرے گا ۔ہمارے ہاں پرانے نالے بند کردیے گئے۔ وہاں پر لوگوں نے قبضے کرکے مکان اور دُکانیں بنا لیں ۔مغل پورہ شالا مار ہسپتال کے ساتھ بھی ایک تاریخی نالہ ہوتا تھا جو نکاسی آب کے لیے بہت مفید تھا لیکن اسے بھی بند کرکے مٹی ڈال دی گئی اسی طرح ملک بھر کے نالوں کی صورتحال ہے اور جو خوش قسمتی سے چل رہے ہیں ،وہاں پر ہم نے گندگی اتنی زیادہ ڈال رکھی ہے کہ بوتلوں،شاپربیگوں اور بوریوں سے اسے بند کررکھا ہے۔ حکومت کی بھی اس طرف کوئی توجہ نہیں ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتائج سے نمٹنے کیلئے ہمیں ہمہ وقت تیار رہنے کی ضرورت اب پہلے کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ ہمیں اب ہر سال اور ہر مہینے بارشوں کے دہائیوں پرانے ریکارڈ ٹوٹنے کیلئے تیار رہنا ہو گا۔ بڑے ڈیموں کے ساتھ درمیانے اور چھوٹے ڈیموں،مصنوعی جھیلوں اور آبی ذخائر کی تعمیر پر متوجہ ہوناپڑے گا۔اگر اب بھی ہم نے اس پر توجہ نہ دی تو پھر آنے والے وقت میں مزید تباہی اور بربادی سے دوچار رہنے کے لیے ہمیں تیار رہنا ہوگا اور یہ ان خطرناک بحرانوں میں ایک خطرناک اضافہ ہوگا جن خطرناک بحرانوں سے ہم اس وقت گزر رہے ہیں۔