میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
جل تھل گجرات اور تصاویرکا بازار

جل تھل گجرات اور تصاویرکا بازار

ویب ڈیسک
هفته, ۲۷ جولائی ۲۰۲۴

شیئر کریں

حمیداللہ بھٹی

ویسے تو ہر برسات میں گجرات کے شہریوں کومشکلات کاسامناہوتاہے مگر اِن مشکلات میں اب مزید اضافہ ہو گیا ہے، وجہ یہ ہے کہ برسات سے قبل نکاسی آب کے نالوں کی جوصفائی کی جاتی تھی وہ اب نہیں ہوتی۔ علاوہ ازیں شاہراہوں ،گلی اور محلوں میں صفائی پر مامور عملہ جھاڑو لگاتے ہوئے کوڑانالوں میں پھینک جاتاہے جس نے نکاسی آب کی صورتحال کو مزید ابتر کردیا ہے ۔قبل ازیں برسات کے موسم میں گلیوں اور سڑکوں پر پانی دیکھنے کوتو ملتاتھا مگرجلدہی صورتحال بہترہوجاتی لیکن اب نالوں کی صفائی نہ ہونے سے شہرگجرات کے کئی ایسے علاقے ہیں جو ساراسال ہی پانی میں ڈوبے رہتے ہیں کالوپورہ ،فیض آباد،لالہ زار کالونی ،شادمان کالونی ،اسلام نگر،مرغزار کالونی،اسٹیٹ ایریااور کالرہ جیسے گنجان آباد علاقوں میں آمدورفت کی بجائے گلیاں ہی نکاسی آب کے لیے وقف ہیں اندرونِ شہرکی اہم اور مصروف ترین رحمٰن شہید روڈکا پانی میں ڈوبے رہنا معمول ہے گجرات کا پوش ایریا شادمان کالونی تو برسات میں جوہڑ کا منظر پیش کرتی ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ذمہ داران کو احساس تک نہیں انھوں نے کام کی بجائے گجرات میں تصاویر کاایسا بازار سجا رکھاہے جہاں چھوٹے بڑے آفیسرہمہ وقت نمایاں رہنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
گجرات شہر کا محل وقوع ایسا ہے کہ نکاسی آب کا مسلہ باآسانی حل ہو سکتا ہے شہر کے مشرق اور مغرب میں برساتی نالے ہیں جبکہ جنوب میں دریائے چناب ہے شہر کے مشرق ،مغرب اور جنوب میں اِس حوالے سے بندوبست بھی ہے مشرقی سمت میں رتی اور بولے، مغرب میں نارووالی ، جبکہ جنوب کی طرف رامتلائی چوک اور کالرہ میں ڈسپوزل اسٹیشن موجود ہیں جہاں بڑی بڑی موٹریں شہر کاپانی نکاسی اب کے بڑے نالوں میں گراتی ہیں لیکن اب اِس انتظام کا شہریوں کو کوئی فائدہ نہیںہو رہا کیونکہ شہرکی نالیاں اور نالے کوڑے کرکٹ سے بھرے ہیں نالیوں اور نالوں کی صفائی نہ ہونے سے نکاسی کا مسلہ اب شدت اختیار کرگیاہے۔ مزید ستم ظریفی یہ کہ کنکریٹ سے بنی شہر گجرات کی اچھی بھلی سرکلر روڈ پر تارکول ڈال کر سطح بلند کردی گئی ہے۔ شہر گجرات کی سڑکیں بناتے وقت اناڑی پن کا ایسا مظاہرہ کیا گیا ہے کہ رہائشی مکانوں سے سڑکیں اور گلیاں بلندہو گئی ہیں ۔اِس وجہ سے کچھ سڑکوں پر پانی کھڑا نہیں ہوتا لیکن برساتی اورگندا پانی گلیوں اورگھروں میں داخل ہو جاتا ہے۔ میونسپل کارپوریشن کے چیف آفیسر ملک ابرار سے اِس حماقت کے متعلق دریافت کیا جائے تو وہ بڑی بے نیازی سے کہہ دیتے ہیںکہ ہم نے سڑکوں پر تو پانی کھڑا نہیں ہو نے دیا یعنی اُنھیں احساس تک نہیں کہ ایک حماقت سے شہریوں کی اربوں کی املاک تباہ ہونے کاخدشہ بڑھ گیاہے۔ جل تھل گجرات کے باوجود وہ تصاویر کا بازارسجائے بیٹھے ہیں۔ تصاویر بنوانے کے مقابلے میں چھوٹے اہلکاروں سمیت بڑے آفیسران بھی شامل ہیں جس میں چند دنوں سے کچھ سیاسی کارکنان بھی شامل ہو چکے ہیں مگر وہی گجرات جہاں برساتوں اور طوفانوں کا پانی بھی چوبیس گھنٹے تک شہر سے نکل جاتا تھا اب وہی گجرات ہفتوں پانی میں ڈوبارہتاہے ۔مضافات تالاب کے مناظرپیش کررہے ہوتے ہیں لیکن ذمہ داران کام کرنے کی بجائے خشک جگہ دیکھ تصاویر بنواکر اعلیٰ حکام کومطمئن کر لیتے ہیں ۔چیف آفیسرتو ڈرامہ میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے جانگیہ پہن کر تصویر بنواتے ہیں تاکہ اعلیٰ حکام کو باور کراسکیںکہ شب وروزکام کرایاجارہا ہے کاش کوئی اِس نوسربازی وچالاکی کانوٹس لے اور نااہل و کرپٹ لوگوں کا محاسبہ کرے۔
شہرڈوبنے کی وجوہات نہ صرف ایک سے زائد بار لکھ چکا ہوں بلکہ انھی سطورمیں کرپٹ اور چور قسم کے آفیسرز کی نشاندہی بھی کی تھی مگر افسوس کہ کسی نے گجرات کی تباہی ، ضلع کونسل اور میونسپل کارپوریشن میں مچی لوٹ مار روکنے کی کوشش نہیں کی، میں تواِس لیے لکھنے پر مجبورہوں کہ شہر گجرات کا باسی ہوں۔ یہاں کے دکھ اور سُکھ کو محسوس کرتا ہوں۔ یہی صدائے حق بلند کرنے کی وجہ ہے۔ چیف آفیسر ملک ابرار واضح الفاظ میں کہتے ہیںکہ میں کام کروں یا نہ کروں مجھے تبدیل کرانے کی کسی میں ہمت نہیں ۔البتہ بڑھتی تنقید اور لعنتوں کا انھوں نے حل یہ نکالاہے کہ چند افرادپر مشتمل ایک ایسی انجمن ستائشِ باہمی بنالی ہے جو تنقیدولعنتوں کے جواب میں شہریوں کو کوستی اور انھیں صبر وشکر سے زندگی گزارنے کے مشورے دیتی ہے۔ ایسا طرزِ عمل کسی نوعیت کے نفع کی بدولت ہی ممکن ہے وگرنہ بغیر فائدے کے کوئی پورے شہر سے گالیاں کھانے کی ہمت نہیں کر سکتا۔
میونسپل کارپوریشن گجرات اور ضلع کونسل گجرات میں چیف آفیسر کا عہدہ ایک ہی شخص کے پاس ہے ۔اِس دوران دونوں اِداروں سے چند ماہ میں کروڑوں روپیہ خردبرد کیا جاچکا ۔اب توایسی خبریں گردش کرنے لگی ہیں کہ دونوں اِدارے دیوالیہ ہو چکے ہیں جس کی تائید چند ایک واقعات سے بھی ہوتی ہے ۔مثال کے طورپر ضلع کونسل گجرات کے پاس اتنی رقم بھی نہیں کہ ٹھیکداروں کو جمع سیکورٹی واپس کی جا سکے۔ اِس حوالے سے درجنوں ٹھیکیدار احتجاجی مظاہر ے بھی کرچکے جن کی تصاویر اخبارات اور سوشل میڈیاکی زینت بنتی رہتی ہیں ۔اسی طرح میونسپل کارپوریشن گجرات کی طرف سے پنشن کی رقوم تک جاری نہیں کی جارہیں ۔تیل کے اخراجات کی ادائیگی بھی مشکل ہوگئی ہے۔ تنخواہیں بھی تاخیر سے دی جانے کی افواہیں ہیں۔ پانی کی کئی موٹریں خراب ہیں لیکن اخراجات نہ ہونے کی وجہ سے مرمت کاکام نہیں ہورہا اِس کے باوجود دونوں اِداروں سے کروڑوں روپیہ نکال لیا گیا ہے۔ جب صفائی کی مشنری بند اور مرمت وغیرہ کے اخراجات بھی نہیں ہو رہے تو سوال تو بنتا ہے کہ کروڑوں روپے کِدھر چلے گئے ؟
رواں ہفتے ہونے والی بارش نے شہر کو کئی کئی فٹ ڈبو دیا ہے۔ برساتی پانی اب بھی شہرکے کئی علاقوں میں موجودہے جس کی وجہ سے گلیوں اور سڑکوںسے گزرنا محال ہے ۔لیکن تصاویر کے لگے بازار کی رونقوں میں کوئی کمی نہیں آئی ۔بے شرمی وڈھٹائی کاشب وروز مظاہرہ جاری ہے ۔ڈوبے شہرکے متعلق راقم نے ایک تجربہ کارسے بات کی تو اُس نے یہ ہوش ربا انکشاف کیا کہ شہر کا سیوریج کئی جگہوں سے خراب ہو چکا جس سے گلیوں اور سڑکوں پر بڑے بڑے گڑھے بن گئے۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ خراب سیوریج کوپہلے درست کیا جاتا لیکن ایسا کیے بغیر ہی بجری میںتارکول ملا کر گڑھے بھر دیے گئے ہیں جس سے نکاسی آب کے عمل میں رخنہ آیا اور قیمتی عمارات کے زمین بوس ہونے کا خطرہ جنم لے چکا ہے لیکن اِس حماقت پر بھی ملک ابرار خوش ہیں اور انھوں نے ویڈیوپیغام میں شہریوں سے کہہ دیا ہے کہ عمارات کے گرنے اور دیگر نقصانات کے ہم ذمہ دار نہیں ہوں گے۔ انھوں نے تو شہریوں کو کمال ذہانت کا مشورہ دیا ہے کہ ایسی عمارات خود ہی گرادیں ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں