اسلام آباد ہائیکورٹ، پی ٹی آئی سیکریٹریٹ سے لوگوں کوگرفتار کرنے پر برہم
شیئر کریں
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی سیکرٹریٹ سے گرفتاری کے بغیر لوگوں کو اٹھانے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ گرفتاری کی کوئی وجہ ہونی چاہئے، کیا دفتر میں بیٹھنا کوئی جرم ہے؟۔ کل میں سڑک پر جا رہا ہوں تو پولیس مجھے بھی اٹھا کر لے جائے گی؟۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے پی ٹی آئی کی میمونہ کمال کی درخواست پر سماعت کی۔ عدالت میں ڈی آئی جی آپریشنز اور ایف آئی اے کے ڈائریکٹر سائبر کرائمز اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل پیش ہوئے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا ایف آئی اے نے مقدمہ درج کیا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا درخواست یہ تھی کہ پولیس اور ایف آئی اے نے کارکنوں کو اغوا کیا ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا اِس مقدمہ میں 10 مرد اور دو خواتین شامل ہیں، نامزد لوگ گرفتار ہیں باقی سب کو ذاتی مچلکوں پر چھوڑ دیا گیا۔ چھ خواتین میں سے کوئی بھی گرفتار نہیں ہے، سب کو ذاتی مچلکوں پر چھوڑ دیا گیا۔اس پر چیف جسٹس نے کہا 32 لوگوں کو اٹھایا گیا، 11 کے خلاف مقدمہ درج کیا، جن 21 لوگوں کو دس گھنٹے غیرقانونی حراست میں رکھا گیا اور 32 لوگوں کو وہاں سے اٹھا لیا گیا، کیا آپکو وہ سب مطلوب تھے؟ آپ نے کسی کو گرفتار کرنا ہے تو شک کی بنیاد پر گرفتار کرنا ہے۔ آپ نے صرف وہاں موجودگی کی بنیاد پر گرفتار کر لیا؟ یہ تو بدقسمتی ہے، سیکرٹریٹ کے باہر کوئی شخص کسی کا انتظار کر رہا ہوتا تو اسے بھی گرفتار کر لیتے؟چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا تمام 32 لوگوں کی گرفتاری ڈالی گئی تھی؟ اگر گرفتاری نہیں ڈالی تو 32 لوگوں کو دس گھنٹے کیسے وہاں رکھا؟ آپ نے دس گھنٹے کیلئے اْنہیں وہاں کیسے رکھا یہ اغواء نہیں ہے؟ میں اپنی عدالت کے دروازے بند کر دوں اور کسی آرڈر کے بغیر آپکو باہر نہ جانے دوں یہ اغواء نہیں ہے؟چیف جسٹس نے کہا کہ اٹھائے گئے تمام لوگوں کو غیرقانونی حراست میں رکھا گیا نا؟ اگر غیرقانونی حراست میں رکھا گیا تو پھر اسکے کیا نتائج ہونگے؟ کل میں سڑک پر جا رہا ہوں تو پولیس مجھے بھی اٹھا کر لے جائے گی؟