بھارتی مساجد مندروں میں تبدیل
شیئر کریں
ریاض احمدچودھری
بھارت کی انتہا پسند حکمراں جماعت کے ایک سرکردہ لیڈر نے متنازع زمینوں پر بنی ہوئی مساجد خالی نہ کرنے پر مسلمانوں کو سنگین نتائج کی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایسی تمام مساجد خالی کردیں جو مبینہ طور پر مندر توڑ کر بنائی گئی تھیں۔ایشورپا پہلے بھی متعدد مواقع پر مسلمانوں کو مساجد خالی کرنے کا ”حکم” دے چکے ہیں۔ اتوار کو بیلاگاوی میں ہندو ورکرز کے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ایک بار پھر مسلمانوں کو سنگین نتائج کی دھمکی دی۔
بھارت کی ریاست جھارکھنڈ میں ہندو انتہاپسندوں نے ایک مسجد کے قریب میدان میں قرآن پاک کے اوراق کی بے حرمتی کرکے ان کو نذر آتش کردیا۔مقامی صحافیوں نے بتایاکہ یہ آئندہ ریاستی انتخابات سے قبل مذہبی کشیدگی کو ہوا دینے کی کوشش ہے۔ بھارت جیسے ثقافتی اور لسانی طور پر متنوع ملک میں مذہب کی چنگاری بہت تیزی سے فرقہ ورانہ فسادات پھیلانے کا سبب بنتی ہے۔ اس ملک میں کئی طرح کی مذہبی اور ثقافتی کشیدگیاں اور تناؤ پائے جاتے ہیں۔ فسادات کو ہوا دینے اور کشیدہ صورتحال کو قابو سے باہر ہونے میں عموماً سیاست کا مرکزی کردار ہوتا ہے۔
بھارت کی تمام سیاسی جماعتیں مذہبی اختلافات کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ ہندو اکثریت اور مسلم اقلیت کے ساتھ ساتھ دیگر عقیدوں سے تعلق رکھنے والے بھارتی باشندوں کو بھی اپنی سیاسی چال بازیوں کا حصہ بنانے کے لیے سیاسی پارٹیاں اس تصور کا ناجائز فائدہ اْٹھانے کی کوشش کرتی ہیں کہ مختلف گروپوں میں بٹے ہوئے ووٹرز ہی دراصل ملک میں ایک لچکدار سیاسی نظام کی وجہ بنتے ہیں۔مودی سرکاری کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ بھارت دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے جہاں الگ الگ مذاہب کے پیروکار رہتے ہیں لیکن یہاں عرصے سے خصوصاً اقلیتوں کی مذہبی آزادی سلب کی جارہی ہے۔ لوگوں اور مذہبی عبادت گاہوں پر انتہا پسندوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض سرکاری اہلکار ان واقعات کو یا تو نظر انداز کردیتے ہیں یا ان کی حمایت کرتے ہیں۔
مودی سرکار کی چھتری تلے اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں اور مسیحیوں کے گھروں، دکانوں، دفاتر، بستیوں اور عبادت گاہوں پر کئی حملے کیے گئے۔ ان میں سے بہت سے حملے بلا اشتعال اور پرتشدد تھے اور وہ سرکاری اہلکاروں کی حمایت یا ایما پر کیے گئے تھے۔ سرکاری اہلکار اور غیر سرکاری عناصر دونوں نے ہی مذہبی اقلتیوں کے خلاف نفرت اور جھوٹی خبریں پھیلانے اور دھمکانے کے لیے سوشل میڈیا اور دوسرے ذرائع کا استعمال کیا ہے۔ گائے کے تحفظ کے نام پر پورے ملک میں پر تشدد حملے کیے گئے ہیں۔ کئی مقامات پر گائے کی سمگلنگ کے شبہ میں مسلمانوں کو ہجوم کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔بھارتی ریاست مہاراشٹر کی ہندوتوا حکومت نے اپنی ایک اور متعصبانہ اور اسلام دشمن کارروائی میں مسجد طاہرہ اور گلشن احمد رضا مدرسے کو شہید کردیا۔ ممبئی کی گھاٹ کوپر اندھیری گلی میں پولیس اور بلدیاتی حکام نے سخت سکیورٹی حصار میں ایک مسجد اور ایک مدرسے کو ترقیاتی کاموں کی آڑ میں مسمار کیا۔ مسجدِ طاہرہ اور گلشنِ احمد رضا مدرسہ 30 سال سے اس علاقے میں قائم ہیں تاہم اچانک ممبئی انتظامیہ نے نوٹس بھیجا کہ یہ دونوں مقامات سڑک کے توسیع کے منصوبے کے درمیان آرہے ہیں۔ دوسری جانب مسجد اور مدرسہ کے ٹرسٹی منصور شیخ نے بتایا کہ مسجد کمیٹی نے لنک روڈ کو چوڑا کرنے کے منصوبے کے دوران ممبئی میٹروپولیٹن ریجن ڈیویلپمنٹ اتھارٹی سے قانونی تحفظ حاصل کر رکھا تھا۔ تاہم ممبئی میٹروپولیٹن ریجن ڈیویلپمنٹ اتھارٹی نے مسجد کمیٹی کے قانونی موقف اور علاقہ مکینوں کی گزارشات کو کسی خاطر میں نہ لاتے ہوئے مسجد اور مدرسے کو شہید کردیا۔اس کے علاوہ بھارتی ریاست پنجاب کے ضلع کپورتھلہ میں ہندوتوا کارکن کی طرف سے سکھوں کے مشہورگوردوارے کی بے حرمتی کے بعد کشیدگی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ یہ واقعہ ضلع کے علاقے پھگواڑہ میں چھوی پات شاہی گوردوارہ میں پیش آیا۔ ہندوتوا کارکن کو سکھ عقیدت مندوں نے گردوارے کی بے حرمتی کرنے پرقتل کر دیا ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائیکورٹ کے اس فیصلے پر عمل روک دیا ہے جس کے مطابق اتر پردیش کے متھرا شہر میں صدیوں پرانی مسجد کا سروے کیا جانا تھا کہ آیا اس قدیمی مسجد کے ساتھ کسی ہندو مندر کے آثار موجود ہیں یا نہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی حامی آر ایس ایس کے ملک میں سیاسی اثرات کے بعد بھارت میں سب سے بڑی اقلیتی آبادی مسلمانوں کی مساجد کے بارے میں شہر شہر یہ سوال اٹھنے لگے ہیں کہ ان کا وجود باقی رہنا چاہیے یا نہیں اور کون سی ایسی مساجد ہیں جو مندر کی جگہ بنائی گئی ہیں تاکہ از سر نو مندروں کی تعمیر کی جاسکے۔
بی جے پی کی پچھلی دہائی سے یہ کوشش نظر آرہی ہے کہ اپنی انتخابی مہم سے پہلے بھارت کی ہندو اکثریت کو رام کرنے اور ان کے ووٹوں کو اپنے نام کرنے کے لیے انتخابی برسوں اور انتخابی مہمات میں ایسے بڑے بڑے اقدامات کئے جیسا کہ 1992 میں شہید کی گئی بابری مسجد کی جگہ بنائے گئے رام مندر کا افتتاح ہے۔امریکہ نے اقلیتوں کے ساتھ سلوک کے حوالے سے بھارت کا نام ابھی چند دن پہلے اپنی اس فہرست سے نکالا ہے جس میں اقلیتوں کے ساتھ برا سلوک کرنے اور ان کے حقوق کا تحفظ نہ کرنے والے ملکوں کا ذکر ہے۔ یہ اس کے باوجود سہولت بھارت کو ملی ہے کہ اس کے ہاں اقلیتیں جن میں مسلمان، مسیحی برادری اور سکھ بطور خاص ہندو اکثریت کے ہاتھوں پریشان رہتے ہیں اور آئے روز ایسے واقعات بھی رپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔