فیس بک کی اچھوتی ٹیکنالوجی سے کھال سنے گی اور دماغ لکھے گا
شیئر کریں
سلیکان ویلی(ویب ڈیسک) مشہور سوشل میڈیا ویب سائٹ فیس بُک نے اعلان کیا ہے کہ وہ ایسے منصوبوں پر کام کررہی ہے جن کی بدولت انسان جلد ہی اپنے دماغ کے ذریعے براہِ راست لکھ سکیں گے اور اپنی کھال کے ذریعے سن سکیں گے۔ ایسے کئی منصوبوں پر فیس بک کی تجربہ گاہ ’’بلڈنگ 8‘‘ میں کام ہورہا ہے جن کی تفصیلات گزشتہ روز اس تجربہ گاہ کی نگراں ریگینا ڈوگان نے ساں ہوزے میں منعقدہ ایک ٹیکنالوجی کانفرنس میں پیش کیں۔ تجربہ گاہ کی نگراں کا کہنا ہے کہ دماغ کے ذریعے براہِ راست لکھنے والی ٹیکنالوجی کا مقصد ایسے کم خرچ اور حساس آلات تیار کرنا ہے جنہیں ہیلمٹ، ہیئر بینڈ یا چشمے کی طرح سر پر پہنا جاسکے گا اور وہ دماغ میں گفتگو سے متعلق حصوں میں سرگرمی بڑی تیزی سے نوٹ کرتے رہیں گے۔ انہیں پہننے والا شخص جیسے ہی کچھ لکھنے کے بارے میں سوچے گا یہ آلات بڑی تیزی سے اس سوچ کو پڑھیں گے اور الفاظ میں تبدیل کرکے اس کے سامنے موجود اسکرین پر ظاہر کردیں گے۔ ڈوگان کا کہنا تھا کہ یہ ٹیکنالوجی آئندہ 5 سال میں اتنی بہتر ہوجائے گی کہ ایک منٹ میں 100 الفاظ براہِ راست دماغ سے اسکرین پر منتقل کرنے کے قابل ہوگی اور تب اسے صارفین کے لیے پیش کیا جائے گا۔ فی الحال اس ٹیکنالوجی کو حقیقت کا روپ دینے کےلیے فیس بُک نے کئی امریکی جامعات سے اس شعبے میں تحقیق کرنے والے ماہرین کی بڑی تعداد کو اپنے ساتھ شامل کیا ہوا ہے جو اسے پختہ کرنے میں پوری تن دہی سے مصروف ہیں۔ کھال سے سننے کی ٹیکنالوجی کے بارے میں ریگینا ڈوگان کا کہنا تھا کہ نابینا افراد پہلے ہی بریل سسٹم کے تحت کسی سطح پر موجود ابھاروں کی مدد سے کوئی عبارت پڑھ سکتے ہیں جب کہ پورے جسم میں اعصابی خلیات (nerve cells) کا بھرپور نیٹ ورک موجود ہوتا ہے جس کے ذریعے مختلف طرح کے محسوسات دماغ تک پہنچتے ہیں۔ آواز دراصل تھرتھراہٹ (وائبریشن) ہی کا دوسرا نام ہے اور نئی ٹیکنالوجی کے تحت اعصابی نیٹ ورک استعمال کرتے ہوئے آواز کے سگنل براہِ راست دماغ تک بھیجے جاسکیں گے۔ یعنی آواز سننے کے لیے ہمیں کانوں کی ضرورت نہیں رہے گی بلکہ یہ کام ہماری کھال بھی کر سکے گی؛ بالکل اسی طرح جیسے بعض اقسام کے مینڈک کرتے ہیں۔ فیس بُک کی جانب سے ان دونوں ٹیکنالوجیز کو مارکیٹ میں پیش کرنے کے لیے 10 سال کا وقت دیا ہے۔ تب تک ہم صرف انتظار ہی کرسکتے ہیں کیونکہ ہم ٹھہرے صارفین اور ’’اصراف‘‘ ہی ہمارا شیوہ ہے۔