مشیر نجمی عالم کی جعلسازی میئر کراچی کے سامنے بے نقاب
شیئر کریں
( رپورٹ: جوہر مجید شاہ) بلدیہ عظمی کراچی کا پے رول ڈیپارٹمنٹ گورکھ دھندوں کا مرکز بن گیا۔ خلاف ضابطہ من مانیوں کا عروج، کرپشن، جعلسازی، جعلی اندراج جعلی تعیناتیوں و ترقیوں کا سفر جاری ،تبادلے ہوجانے والے افسران کے سیریل نمبروں پر جعلی انٹریز کی جا رہی ہیں۔ حکومتی جماعت سمیت دیگر جماعتوں کے منظور نظر اراکین و افسران بھی بطور سہولت کار بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں، شروع میں آل احمد نقوی نے ہاتھ کی صفائی و ردو بدل کرتے ہوئے بساط بچھائی ، موصوف نے مسرت علی خان، جمیل فاروقی اور منہاج الحق کو گریڈ 19میں 2016سے جعلی ترقی دیکر کمال فنکاری سے بل بھی پرنٹ کروائے تھے اور جمیل فاروقی کا بل تو محکمہ چیک تک پرواز بھی کرگیا تھا۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ جمیل فاروقی کا بل مبینہ طور پر کچھ بڑے نام جن میں نجمی عالم، اسلم سموں، کرم اللہ وقاصی خود لے کر گئے اور آل احمد نقوی سے انٹریز کرائیں اور محکمہ فنانس تا آڈٹ تک بل کی منظوری بھی کروائی جبکہ دوسری طرف مسرت علی خان اور منہاج الحق کا بل بھی پرنٹ کے بعد منظوری کے مراحل ہی میں تھا کہ گھر کے بھیدی نے لنکا ڈھا دی۔ نجمی عالم کے ساتھ موجود ایک پی پی پی رہنما نے میئر کراچی کے سامنے بھانڈہ پھوڑ دیا اور باریک کام کی مکمل آگاہی دے دی جس پر میئر کراچی نے فوری ایکشن لیتے ہوئے تینوں بل رکوانے کے ساتھ شفاف انکوائری کا بھی حکم دیا جس پر نجمی عالم اور میئر کراچی کے درمیان خلیج پیدا ہوگئی۔ ادھر خطروں کے کھلاڑی نجمی عالم نے اس بات کو لیکر میئر کے کئی منظور نظر افسران کو ٹارگٹ کیا ۔جس کی تفصیل اگلے شمارے میں ادھر لیبر ڈویژن میں پارٹی کی مضبوط شخصیت و نمائندگی کرنے والے اسلم سموں بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے بھی جعلی انٹریز کرائیں اور اپنے ڈرائیور کو گریڈ 5سے 16کرادیا۔ ایک افسر کی اہلیہ کی جعلی پے سلپ محکمہ تعلیم سے لاکر زبردستی کے ایم سی میں گریڈ 18میں ایڈجسٹ کرادیا۔ جبکہ ذرائع انھیں ہیلی کاپٹر بتاتے ہیں۔ اسی طرح ایک اور ہیلی کاپٹر اویس کو حال ہی میں مسرت علی خان نے بھاری رقم لے کر جعلسازی سے ایڈجسٹ کردیا جسکی تفصیل اخبارات میں شائع ہوچکی ہیں۔ مسرت علی خان جو HRMمیں ڈائریکٹر رہے ہیں ،انہوں نے 2010 سے انکا اپنے دور سے ریکارڈ بنا دیا۔ لینڈ ڈیپارٹمنٹ میں اویس نامی شخص اور نوید کو غیر قانونی ترقی دکھا کر پے رول میں انٹریز کرا دی گئیں۔ اس حوالے سے میئر کراچی کے کردار پر بھی سوالات اٹھنا شروع ہوگئے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے کرپشن اور خود 19گریڈ کا جعلی پروموشن لینے والے افسر مسرت علی خان کو انکوائریز کے باوجود ڈائریکٹر پے رول لگا دیا۔ جبکہ یہی نہیں انتہائی حساس و اہم نوعیت کی انکوائریز بھی ان سے کروا کر معاملات مشکوک بنا دئے۔ یاد رہے کہ تجربہ نہ رکھنے اور کرپٹ افسر کی شہرت رکھنے کے باوجود انھیں نوازنے کا عمل عقل و فہم سے بالا تر ہے اس پر میئر کراچی کے کردار پر سوالات اٹھائے دئے گئے ہیں، کہا جارہا ہے کہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر لینڈ لیزنصیر نے بھاری رقم کے عوض یہ کام کرایا۔ جبکہ یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ جعلی انٹریز کرکے ایک ماہ کی تنخواہ دکھا کر باہر ہی باہر لوگوں کو نمٹایا جا رہا ہے۔ پے رول سے تعلق رکھنے والے ایک افسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ کرم اللہ وقاصی، نجمی عالم، اسلم سموں اور میئر آفس کی مرضی سے ہی سب کچھ ہورہا ہے۔ مسرت علی خان اسی شرط پر تعینات ہوئے کہ وہ 2010سے HRMکا ریکارڈ بدل کر نئی بھرتیوں کو جائز و قانونی کرینگے۔ میئر نے اپنے ہاتھ صاف رکھے ہوئے ہیں۔ پہلے سو سے زیادہ انٹریز آل احمد نقوی سے کرائیں اب مسرت نے تو سارے سابقہ ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ ایم کیو ایم کی آفیسرز ایسوسی ایشن کے اہم عہدیدار ہونے کے ناطے پی پی پی پر کوئی شک نہ کرے، اس لیے سارے کام موصوف سے کروائے جارہیں ہیں ۔مسرت وکٹ کے چاروں جانب کھیل رہیں ہیں۔ قانونی ضابطوں پر پورا اترنے والے افسران کی انٹریز اڑا دی گئی ہیں۔ جو جبری تبادلہ کردیے گئے یا لوکل گورنمنٹ بھیج دیئے گئے۔ نئے نمبر اشو کرنے کے بجائے انکے نمبروں پر کام اتارے جا رہے ہیں۔ کلک نے جو افسران پکڑے تھے جودو سرکاری نوکریاں کر رہے تھے یا کم گریڈ سے جعلسازی سے 18,19گریڈ تک پہنچ گئے تھے ،انکا بھی ریکارڈ بدل دیا گیا ہے جس میں سینئر ڈائریکٹر کچی آبادی گریڈ نو کے ٹیچر، محکمہ ڈاک، فشریز، واٹر کارپوریشن کے ملازم بھی شامل ہیں۔ جبکہ وسیم اختر کے دور میں اور انکے ہٹنے کے بعد فریئر ہال میں بھی 450جعلی تقرریاں کی گئی تھیں۔ جسکی وجہ سے تنخواہوں کے بجٹ میں شارٹ فال آگیا تھا۔ جمیل فاروقی نے سب سے زیادہ بھرتیاں کیں۔ جبکہ اسوقت HRMمیں تعینات افسران لوکل گورنمنٹ میں یہی کام اتار کے کے ایم سی میں تعینات ہیں۔ میگا کرپشن نیب انکوائری سے بچنے کے لئے ضمیر عباسی کی ٹیم کو ادھر ادھر کردیا گیا۔ جبکہ SCUGکے 18گریڈ 17تا19کے افسران بھی مشکوک تقرریوں کے حامل ہیں لیکن میئر کراچی کے دست راست مسرت علی خان نے ان سب کو ایمپلائی نمبر اور سب کچھ جاری کردیا ہے جبکہ ایک سینئر ڈائریکٹر نے کہا کہ ہم ایک این جی او کے ذریعے کیس کرا رہے ہیں اور ملوث و مرتکب عناصر کے ساتھ ٹیمپر کئے گئے افسران کی سروس پروفائل ، ان کا بنک اکاؤنٹ سمیت سارا ریکارڈ عدالت کے ذریعے منگوا لیں گے ۔سارا گیم پلان و شو فلاپ ہو جائے گا۔ مسرت نے جس کی تنخواہ بند کی ہے سب کچھ سامنے آجائے گا۔ مختلف سیاسی سماجی مذہبی جماعتوں اور شخصیات نے سپریم کورٹ وزیر اعلیٰ سندھ گورنر سندھ وزیر بلدیات سندھ مئیر و ڈپٹی مئیر کراچی سمیت تمام وفاقی و صوبائی تحقیقاتی اداروں سے اپنے فرائض منصبی اور اٹھائے گئے حلف کے عین مطابق سخت ترین قانونی و محکمہ جاتی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔