رات کاآخری پہر
شیئر کریں
سمیع اللہ ملک
رات کے آخری پہرگھنٹی کی آوازنے دل کی دھڑکن کوبے ترتیب کردیا۔میں نے ریسیوراٹھایاتوچندلمحے جان ہی نہ پایاکہ میں جاگ رہا ہوں یاخواب کی کوئی کیفیت ہے۔ اس کی آوازمیری اکلوتی پوتی سے بہت ملتی جلتی تھی۔اس کاہرلفظ گہرے کرب میں ڈوباہوا تھاوہ ہچکیوں کے ساتھ رو رہی تھی،مجھے اورکچھ سنائی نہیں دے رہاتھا۔کیا رات کاآخری پہرتھا کہ نیندمیری آنکھوں سے یکایک ایسے روٹھ گئی جیسے اس سے میری کوئی آشنائی نہیں۔میں اٹھ کربیٹھ گیااوروہ جانے مجھے کیا جان کرروتی رہی،اپنی کہانی سناتی رہی اورمیں اسے جھوٹی تسلیاں دیتا رہا۔ میں یہ پوچھنا بھی بھول گیا کہ اس نے میراٹیلیفون کہاں سے حاصل کیاہے؟اس کانام زینب ہے اور مقبوضہ کشمیر۔۔۔سے اس کاتعلق ہے۔کئی ماہ پہلے اس کی شادی ہوئی،کچھ ہی دنوں بعدجلادصفت وردی میں ملبوس کچھ لوگ آئے، تلاشی کے نام پرسارے گھرکو اکھاڑ پچھاڑ دیا۔جاتے ہوئے اس کے خاوندکواپنے ساتھ لے گئے۔ گھر والوں نے جب احتجاج کیاتوگولیوں کی تڑتڑسے اس کا گھرانہ اس طرح کانپ رہاتھاجس طرح خوفِ خداسے کسی گناہ گارکادل تنہائی میں کانپتاہے۔
تین دنوں کے بعدوہ گھرواپس آگیالیکن اسے پہنچاننامشکل ہورہاتھا۔اس سے تفتیش کی جاتی رہی کہ وہ کبھی سرحدپارگیاتھایانہیں؟ مزید چند دنوں بعدآدھی رات کو وہی وردی میں ملبوس افراد نے اچانک چھاپہ مارا،دیوارپھلانگ کراندرآنے والے،زینب کے شوہراور جیٹھ کو، کچھ کمپیوٹراوردوسری اشیا سمیت اٹھا لے گئے۔ دونوں برسوں دہلی میں رہے اوروہاں تعلیمی اداروں میں پڑھاتے رہے۔ان کاقصوریہ تھا کہ وہ کشمیرمیں ہونے والے مظالم کومکمل ثبوتوں کے ساتھ عالمی انسانی حقوق کے اداروں کومہیاکرتے تھے۔ابھی زینب کے ہاتھوں کی مہندی بھی پھیکی نہیں پڑی تھی کہ وہ اس افتادکاشکارہوگئی۔اس نے عالمی انسانی ہمدردی کے تمام اداروں سے رابطہ کرکے اس ناگہانی مصیبت کے بارے میں مطلع کیاتو سب نے اپنی اپنی مجبوریوں کااظہارکرتے ہوئے جان چھڑالی ۔ اس نے عدالت سے رجوع کیا تو حسب ِمعمول بھارت کی تمام ایجنسیوں نے تحریری طورپران دونوں کے بارے میں اپنی لاعلمی کاجھوٹابیان دے دیا۔
22سالہ دلہن اب بستی بستی بھٹک رہی ہے،دکھائی دینے والاہردروازہ کھٹکھٹارہی ہے۔گلیوں گلیوں دہائی دے رہی ہے لیکن ظلم کے لق ودق صحرامیں اس کی آوازچیخ بن کرخوداسی کے کانوں میں پلٹ آتی ہے۔لگ بھگ بھارت کی ایک ارب انسانوں کی بھری پڑی آبادی میں کوئی دروازہ وانہیں ہوتا،کوئی دریچہ اپنی آغوش نہیں کھولتااورکوئی کھڑکی اسے آوازنہیں دیتی۔میں ابھی تک نرم وگداز بسترمیں نیم دراز بیٹھا تھااورلندن کی خنک رات ہولے ہولے سرک رہی تھی اور کشمیرکی ایک عفت مآب بیٹی کی آوازقطرہ قطرہ میرے دل پرٹپک رہی تھی۔ وہ آبدیدہ آوازمیں فریادکناں تھی:
”مجھے بتائیں میں کہاں جاں؟سرینگرسے ٹھوکریں کھاتی کھاتی نئی دہلی اس لئے آگئی ہوں کہ دنیامیں سب سے بڑی جمہوریت کا نعرہ لگانے والے کشمیرمیں کسی انسانی حقوق کے ادارے کوجانے کی اجازت نہیں دیتے،کوئی غیرملکی صحافی یاکیمرہ اس جنت میں داخل نہیں ہوسکتا جس کوان درندوں نے جہنم میں تبدیل کردیاہے۔میراکوئی ٹھکانہ ہے نہ جائے پناہ ، میں کیاکروں؟کدھرجاں؟میں اپنے کھوجانے والے شوہراوراس کے بھائی کی تلاش کروں یااپناآپ بچاؤں؟میں اپنی فریاداخباروں کوسناچکی،مسلمان ہونے کے ناطے مجھے بہت سے اخبارکے مالکان کی کڑوی اورکسیلی باتیں بھی سننے کوملیں،کسی کادل نہیں پسیجا،کسی نے میراحال نہیں پوچھا۔آپ کے ایک واقف کارنے اپنے ٹیلیفون سے نمبرملاکرمیرے ہاتھ میں یہ کہہ کرتھمادیاکہ ان کوبھی تواطلاع ہونی چاہئے جن کوہرکشمیری بہن بیٹی اپنابھائی اورباپ سمجھ کرہرلمحہ ان کی سلامتی اورعافیت کی دعاں میں مگن رہتی ہیں۔اتنی رات گئے آپ سے بات کرنے پربہت شرمندہ ہوں لیکن میں کیاکروں؟میں کدھرجاں؟بہنیں اوربیٹیاں آخراپنے دکھ اورغم اپنوں سے ہی کرسکتی ہیں؟ اب میں کس کو……!
فون بندہوجانے کے بعدبھی میراکمرہ دیرتک سسکیوں سے بھرارہا۔دیرتک میرے کانوں میں صحرائی ریت کے بگولے سائیں سائیں کرتے رہے اوردیر تک میری آنکھیں دہکتے کوئلوں پرکسمساتی راکھ سے بھری رہیں اوردیر تک ایک آوازجومیری پوتی کی آواز سے بہت ملتی جلتی تھی،میری بندکھڑکی کے شیشوں پردستک دیتی رہیں۔زینب اپنے شوہراوراس کے بڑے بھائی کی تلاش میں ہے۔ہزاروں دیگر افراد اپنے پیاروں کے انتظارمیں کسی اچھی خبرکے منتظرہیں۔کئی بوڑھے والدین کی آنکھیں پتھراچکی ہیں کہ ان کے بڑھاپے کے سہارے ان سے چھین لئے گئے ہیں اوراس وقت بے سہارامارے مارے پھر رہے ہیں۔امریکاکی ایک ہندو پروفیسر نے اپنے ساتھی پروفیسر کی مدد سے کشمیر میں اجتماعی قبروں کی نشاندہی میں مدد دی جہاں چار ہزارسے زائد افراد کو گڑھے کھودکر دفن کردیا گیا۔اس جنتِ ارضی میں جنگل کا قانون جاری وساری ہے۔
اس جنت ِ ارضی میں جنگل کاقانون جاری وساری ہے اورہم جوسینہ ٹھونک کران کے وکیل بننے کا دعوی کررہے تھے،ہم سے ہفتہ وارایک گھنٹے کااحتجاج بھی تونہیں ہوسکا۔ضعیف مردِ مجاہدعلی گیلانی اورآسیہ اندرابی کے سچے اورمضبوط عزم کے سامنے ایک مرتبہ پھرہم سب کے سر شرم سے جھک گئے تھے جب اسمبلی سے سینکڑوں پاکستانیوں کے قاتل کلبھوشن کو اپیل کاحق دینے کی قراردادکوتوپاس کروالیاگیاتھالیکن ہم نے ایک لمحہ کیلئے بھی نہ سوچاکہ اس مردمجاہد گیلانی کے دل پرکیاگزری ہوگی جس نے ہندوبنئے فوج کے حصارمیں لاکھوں کشمیری نوجوانوں کے دلوں میں یہ سرفروشانہ نعرہ کندہ کردیاکہ”ہم ہیں پاکستانی ،پاکستان ہمارا ہے”اورآسیہ اندرابی جس کے شوہرڈاکٹرقاسم کوناکردہ جرم میں پچھلی دودہائیوں سے بھی زائدجیل میں بندکررکھا ہے اورآسیہ اندرابی کوتہاڑجیل میں انسانیت سوزمظالم کے حوالے کردیاگیااوراب بھی نجانے کس حال میں ہے،جہاں شبیراحمد شاہ کی چھوٹی بیٹی سحرشبیر شاہ کاکہناہے کہ ”میں روزسپنے میں باباکودیکھتی ہوں، جیسے وہ مجھے بلارہے ہوں اورکہہ رہے ہوں کہ میں جیل سے چھوٹ گیا،پھر ماں جگاتی ہے لیکن مجھے کچھ وقت کے بعدہوش آتا ہے”۔ وہ اپنے والدکی گرفتاری کے باعث افسردہ اورذہنی تناؤکاشکاررہتی ہے۔
فریادکناں زینب کے یہ جملے میرے کانوں میں پگھلے ہوئے سیسے کی مانندکیوں دوڑرہے ہیں کہ”بالآخر بیٹیاں اپنے دکھوں کا تذکرہ اپنے باپ سے نہ کریں تو کہاں جائیں”میں اسے کیسے بتاؤں کہ ابھی تک عصمت صدیقی کی روح ابھی تک اپنی عفت مآب بیٹی عافیہ صدیقی کی تلا ش میں بھٹک رہی ہے،آمنہ مسعود جنجوعہ جوپچھلے کئی برسوں سے حکومتی اداروں کے مردہ ضمیروں کو جگانے کی کوششوں میں آخر کام ناکام اورتھک ہارکربیٹھ گئی،کیونکہ کوئی ان کی انگلی تھامنے والا،کوئی انہیں راستہ سجھانے والانہیں ملا،اس مجبورومقہورنے بھی اپنا مقدمہ اللہ کی عدالت پرچھوڑدیاہے۔ یہ کیساسحرہے کہ انسان بیٹھے بٹھائے تحلیل ہو جاتے ہیں اورکسی کوکچھ پتہ بھی نہیں چلتا۔
کسی پرشک ہوتوقانون موجودہے،اسے حرکت میں لایاجاسکتاہے،اس کے خلاف شواہد جمع کرکے اسے عدالتی عمل سے گزارا جا سکتا ہے، اسے صفائی کاموقع دینے کے بعدجرم ثابت ہونے پرکڑی سزادی جاسکتی ہے لیکن یہ عجیب دستورچل نکلاہے کہ کسی کوغائب کردیاجائے اور پھر مہینوں بلکہ سالوں تک اس کے عزیزوں کوانتظارکی سولی پرلٹکادیاجائے کہ ان کے پیارے عزیز کہاں اورکس حال میں ہیں اوران پر کیا گزررہی ہے؟ایساکرنے سے ایک مہذب ملک کی ساکھ پرانتہائی منفی اثرپڑتاہے جودنیابھرکی سب سے بڑی جمہوریت کاجعلی ڈھنڈورا بھی پیٹ رہاہو۔ کیاوہ نہیں سمجھتے کہ اس طرح ان کی”روشن خیال جمہوریت ”محض ایک سراب دکھائی دینے لگی ہے؟ہم نے تویہ جرم عظیم سب کچھ امریکی کروسیڈسے عہدِوفانبھانے کیلئے کیا لیکن بھارت تو امریکا اور مغرب کی دوستی کادم بھررہاہے۔وہ اپنے انہی دوستوں کے کندھے استعمال کرکے ایک مرتبہ پھراقوام متحدہ کی مستقل نشست(ویٹوپاور)کے خواب دیکھ رہاہے تاکہ اس طاقت کے نشے میں وہ مہابھارت کی تکمیل کرسکے۔پھرکیاوجہ ہے کہ انسانی حقوق کی ایسی پامالی پرایک امریکی ہندوپروفیسرکوبھی اجتماعی قبروں جیسے ہولناک مظالم پر احتجاج کی آوازاٹھاناناگزیرہوگیااورانسانی حقوق کے چیمپئن ممالک کوکشمیرمیں اس ہولناک مظالم سے آگاہ کرناپڑا۔
ہم نصیبوں جلے توایسے ہیں کہ آج تک کشمیرمیں ان اجتماعی قبروں کے انکشاف کے بعدقصرِسفیدکے فرعون سے کوئی اعلامیہ جاری نہ کروا سکے بلکہ مغربی ممالک توبھارت کی بلائیں لے رہے ہیں اورایٹمی توانائی کی مددکیلئے دل وجاں فرشِ راہ کردیئے لیکن ماورائے عدالت ہلاکتوںسے لیکراغوا تشدد،ریاستی جبر اورقانون وعدل کی رسوائی تک ہروہ الزام ہمارے دامن کاداغ بنا دیا گیاجس کا تصور کیا جا سکتا ہے، اس کے باوجودامریکا کی دلداری ہماری سب سے بڑی ترجیح ہے جس کیلئے ہم نے اچھے بھلے ملک کوجنگل بنادیااورڈھٹائی کی حدتو یہ ہے کہ اب بھی اسی عطارکے لونڈے سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں اورسیکورٹی مشیر امریکاسے گلہ کررہے ہیں کہ پاکستان کوکیوں فراموش کر دیا گیا۔
زینب کے شوہرکاجرم صرف یہی ہے کہ وہ دنیاکے انسانی حقوق کے اداروں کوکشمیر میں ہونے والے مظالم کی اصلی تصویرسے آگاہ کرتا تھا۔کشمیرمیں”ماورائے قانون ”کی آڑمیں ہونے والے مظالم کی نشاندہی کرتاتھا۔”غیراعلانیہ کرفیوجیساماورائے قانون”جیسی منحوس اصطلاح کااستعمال سب سے پہلے2008میں امرناتھ اراضی ایجی ٹیشن کے دوران گورنراین این وہرانے شروع کیاتھالیکن اس سے بھی پہلے شیخ محمدعبداللہ نے1975میں پبلک سیفٹی ایکٹ یہ کہہ کرمتعارف کروایاتھاکہ یہ صرف اسمگلروں کے خلاف استعمال کیاجائے گا۔ اس ایکٹ کے تحت بغیرکسی عدالتی کاروائی کے کسی بھی شخص کودوسال کیلئے زنداں کی تاریکی میں پھینکاجاسکتاہے لیکن آج تک اسی غیرانسانی اور ظالمانہ قانون کوبے دریغ بے گناہ کشمیریوں کے خلاف استعمال کیاجارہاہے اور بیشترکشمیری اسی تعذیبی قانون کے تحت چودہ چودہ سال سے بھی زیادہ بھارت کی جیلوں میں گل سڑرہے ہیں۔
اگرآپ کویادہوتو29اور30مئی 2009 کی درمیانی رات کوکشمیر کی دومجبور بیٹیوں نیلوفراورآسیہ کواجتماعی عصمت دری کے بعد قتل کر دیا
گیا تھاجس سے اہل شوپیاں کے علاوہ سارے کشمیریوں کے دل دہل گئے تھے۔پوری وادی میں اس پربھرپوراحتجاج ہوالیکن شوپیاں کے غیور عوام نے47دن کی مسلسل ہڑتال سے اس سانحے کوامرکردیاکہ وہ اپنی ان بیٹیوں کے صدمے کوکبھی نہیں بھول سکتے۔مجھے یادہے کہ تین سالہ سوزین جوایک سال بعداپنی ماں اور پھوپھی کی اجتماعی عصمت دری کے خلاف احتجاج کررہاتھا اس کوغمزدہ لواحقین کے ساتھ انصاف مانگنے کی پاداش میں مجرم ٹھہراکرگرفتارکرلیا گیاتھا۔ کیایہ ممکن تھا کہ تین سالہ بچہ جواپنے پاؤں پراچھی طرح چل بھی نہیں سکتا وہ بھارت کے وزیراعظم کیلئے کوئی خطرہ بن سکتاتھا؟دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے محافظ اس بلکتے تڑپتے شیرخوارسوزین جس کے آنسو کئی دلوں کوگھائل کررہے تھے،مردہ خورگدھوں کی طرح ٹوٹ پڑے تھے ۔مجبورومقہورکشمیریوں کے سرقلم کرنے کیلئے”غیراعلانیہ کرفیو”کے دوران”پبلک سیفٹی ایکٹ”کی بے لگام تلوارہی کافی تھی کہ اب کشمیرمیں تعینات 8 لاکھ افواج کو”آرمڈفورسزسپیشل پاور ایکٹ” اور ”ڈسٹرب ایریاایکٹ” جیسے ظالمانہ قوانین کے تحت بے پناہ اختیارات حاصل کرنے کے بعدکسی کوجوابدہ نہیں،جس کی وجہ سے اب یہ قانون عوام کے محافظین کہلانے والوں کیلئے ایک نفع بخش تجارت کی شکل اختیارکرگیاہے جس میں لین دین انسانی سروں اورسستے انسانی خون سے ہوتاہے۔میں توابھی تک زاہد، وامق، عنائت اللہ اورطفیل متو کی ہلاکتوں سے لیکر مژھل فرضی جھڑپوں میں کشمیریوں کے سرِعام قتل کونہیں بھول سکا،اے میری مظلوم ومجبوربیٹی زینب!کیا تجھے معلوم نہیں کہ اسلام کاایک درخشندہ ستارے کانام بھی زینب تھاجن کی کنیت ”ام المصائب ” تھی جن کے خطبات آج بھی مسلم امہ کیلئے مشعلِ راہ ہیں۔
میراوجدان اس بات کی گواہی دیتاہے کہ ظلم وستم کایہ دورایسے عوامی انقلابی ریلے کودعوت دے رہاہے جس کے سامنے توپ وتفنگ ناکارہ اوربے بہرہ ہو جاتی ہیں۔انقلابِ فرانس بھی ایک پتھرمارنے سے شروع ہواتھاپھراس کے بعدبادشاہ کے محافظین اپنے تمام اسلحے کے ساتھ نہ توبادشاہ کی حفاظت کرسکے اور نہ خودکوبچاسکے۔اس طوفانی ریلے کے سامنے تمام ظالمانہ قوتیں اپنے اتحاد کے باوجودتنکوں کی طرح خس وخاشاک کی طرح بہہ گئیں۔جونرم ہاتھ یا سفید کالر والی گردن نظرآئی اس کاشانوں سے تعلق ختم کردیاگیا۔کشمیرکے موجودہ حالات میں امرناتھ جیسی ایجی ٹیشن سے بھی کہیں شدیدمزاحمتی تحریک کیلئے میدان گرم ہے،جہاں سات دہائیوں سے کشمیریوں کابہنے والامقدس خون اب ضروررنگ لائے گااوراب کوئی نیامیرجعفریامیرصادق ظالموں کومیسرنہ آ سکے گاانشا اللہ۔
لیکن ٹھہریئے مجھے کچھ ان افرادکے ضمیر کوبھی جگاناہے جن کی یہ مجبورومقہوربیٹیاں ان کے نام کی دہائی ان شہدا کے قبرستانوں میں دیتی نظر آرہی ہیں جو ہمارے ہاں کے مفادپرستوں کی چیرہ دستوں کاشکارہوگئے جن کوہرقیمت پراپنااقتدارعزیزہے اوراپنے دورِ حکومت میں سفاک مودی سے ملاقات کیلئے بے چین تھے اورسلامتی کونسل میں اپناووٹ دیکراس کو ممبر بنانے میں بھی کوئی شرم محسوس نہیں کی تھی۔اب مودی کی کامیابی پرانہیں مبارکبادکاجوپیغام بھیجا،اس کاتکبرآمیزجواب پڑھ کرہمیں کس سطح پرلاکھڑاکیاہے؟دنیاکی بڑی جمہوریت کادعویٰ کرنے والے کومبارکباددینے کی بجائے اسے اپنے گریبان کی طرف نگاہ دوڑانے کاپیغام دیاجاتااوراس طرف اقوام عالم کی توجہ مبذول کروائی جاتی کہ آخریہ روتی بلکتی مائیں،دربدربھٹکتے بوڑھے باپ ،بال بکھرائے دہائی دیتی بیویاں کہاں جائیں؟کون سی زنجیرعدل ہلائیں،کس دیوارسے سر پھوڑیں؟میں سوچتے سوچتے تھک گیا ہوں لیکن کوئی جواب سجھائی نہیں دیتا۔آج بھی تین سالہ سوزین کے آنسو
اور بائیس سالہ نوبیاہتازینب کی آوازیں مسلسل میرا تعاقب کررہیں ہیں اور میرے لئے کرب کاایک اضافی پہلویہ ہے کہ دل چیر دینے والی آواز میری پوتی کی آوازسے ہوبہوملتی ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔