براہ راست نشریات، عدالت کو شک تھا عمران خان سیاسی گفتگو کر سکتے ہیں،حکم نامہ جاری
شیئر کریں
سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف کیس کی کارروائی براہ راست نشر کرنے کی درخواست کا تحریری حکم نامہ جاری کر دیا۔ حکم نامے کے مطابق ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا نے کیس کی کارروائی براہ راست نشر کرنے کی درخواست کی، عوامی مفاد کا مقدمہ نہ ہونے کے باعث لائیو نشریات کی درخواست مسترد کی جاتی ہے ۔حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ حکومت خیبر پختونخوا کی مرکزی کیس میں ایک دن بھی عدالت میں نمائندگی نہیں تھی، اچانک انٹراکورٹ اپیلوں میں صوبائی حکومت کی لائیو دکھانے کی درخواست سمجھ سے بالاتر ہے ۔پانچ رکنی لارجر بینچ میں جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلے سے اختلاف کیا ہے ۔حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ ہر مقدمے کو براہ راست نشر نہیں کر سکتی، خصوصاً ایسے مقدمات لائیو نہیں دکھائے جاسکتے جن میں سیاسی یا ذاتی مقاصد وابستہ ہوں۔عدالت عظمیٰ نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان نیب ترامیم کے مرکزی کیس میں ایک دن بھی پیش نہیں ہوئے ، عدالت کو شک تھا کہ براہ راست نشریات میں سیاسی گفتگو ہو سکتی ہے ، عدالت کا شک اس وقت درست ثابت ہوا جب بانی پی ٹی آئی نے سیاسی گفتگو شروع کر دی۔تحریری حکم میں کہا گیا ہے کہ عمران خان نے موجودہ کیس سے ہٹ کر 8 فروری کے انتخابات اور جوڈیشل کمیشن کی بات کی، سپریم کورٹ کو ذاتی یا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتاہے ۔مزید کہا گیا ہے کہ پہلی بار گزشتہ برس 18 ستمبر کو عدالتی کارروائی براہ راست نشر ہوئی اور اب تک 40 کے قریب عوامی مفاد کے مقدمات لائیو دکھائے جاچکے ہیں۔یاد رہے کہ 30 مئی کو سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس کی سماعت براہ راست نہ دکھانے کا فیصلہ سنایا تھا، سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس براہ راست نشر کرنے کی درخواست مسترد کی اور یہ فیصلہ 1-4 سے کیا گیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ ہم کوئی بھی فیصلہ جلد بازی میں نہیں کرنا چاہتے تھے ، جسٹس اطہر من اللہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا، ہم نے مشاورت کے بعد فیصلہ کیا کہ سماعت براہ راست نہیں دکھائی جائے گی۔