میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
تحریک آزادی کے عظیم ہیرو پیر آف مانکی امین الحسنات

تحریک آزادی کے عظیم ہیرو پیر آف مانکی امین الحسنات

ویب ڈیسک
منگل, ۱۴ مئی ۲۰۲۴

شیئر کریں

میر افسر امان

پیر امین الحسنات 1923ء میں صوبہ سرحد ،موجودہ صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر نوشہرہ کے قریب مانکی شریف میں پیدا ہوئے۔ والد کی وفات کے بعد گیارہ سال کی عمر میں گدی نشین ہوئے۔آپ بے باک روشن دماخ رہنما تھے۔دین اسلام کی سربلنددی کے لیے ہروقت تیار رہتے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ دنیا میں اسلام کا بول بالا ہو۔ اسلام برسرِ اقتدار ہو اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پر عمل کیا جائے۔ تحریک پاکستان میںآل انڈیا مسلم لیگ کا نعرہ تھاپاکستان کا مطلب کیا”لا الہ الا اللہ” اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے آپ 1945ء میں آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہوئے۔ تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔پیر مانکی شریف امین الحسنات کے ہاں بانیِ پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح چوبیس نومبر1945ء میں آئے اور قیام کیا۔ تحریک پاکستان کے متعلق آپ سے مشورے کیے۔
امین الحسنات قائد اعظم کے دست راست تھے۔ اس زمانے میں صوبہ سرحد،خیبر پختونخواہ میں کانگریس کی حکومت تھی۔ قوم پرست لیڈر عبدالغفار خان کے بھائی ڈاکٹر خان کانگریسی لیڈرکی حکومت تھی۔ عبدالغفار خان چاہتے تھے کہ خیبر پختونخواہ جس کا اُس وقت نام صوبہ سرحد تھا بھارت میں شامل ہو یا پھر آزاد ہو کر پختونستان بنے۔ مگر جب تحریک پاکستان کے دوران یہ اعلان ہوا کہ صوبہ سرحد میں اس بات پر ریفرنڈم ہو گا کہ صوبہ سرحد پاکستان میں شامل ہونا چاہتا ہے یا بھارت میں۔ اس پربھارت نے گانگریسی لیڈروں جن میں ڈاکٹر خان اور اس کا قوم پرست بھائی عبدالغفارخان تھا، ان کی ڈٹ کر مخالفت کی۔ صوبہ سرحد اور اس سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں امین الحسنات کے مرید بڑی تعداد میں تھے۔ جنہوں پیر امین الحسنات کے کہنے پر قائد اعظم کے دو قومی نظریہ پر عمل کرتے ہوئے ریفرنڈم میں پاکستان کے ساتھ شمولیت کے حق میں ووٹ دیا۔ پیر امین الحسنات نے صوبہ سرحد کے کونے کونے میں جا کر قائد اعظم کے دو قومی نظریہ اور قیام پاکستان کے لیے جد وجہد کی۔ کانگریس اور قوم پرستوں ،جو قائد اعظم کے مخالف اور ہندو لیڈر شپ کے بیانیہ کہ ، قومیں اُوطان سے بنتی ہیں کے حمایتی تھے، کا ڈٹ کر مقابلہ کر کے انہیں ریفرنڈم میں شکست فاش دلائی۔اس سلسلہ میں بانی پاکستان قائد اعظم کو 1945ء میں صوبہ سرحد کے دورے کی دعوت دی۔ اسے قائد اعظم نے قبول کیا اور صوبہ سرحد کا دورہ کیا۔ دورے کے دوران قائد اعظم نے صوبہ سرحد کے غیور عوام کو پاکستان بننے کے فوائد سے آگاہ کیا۔ دورے کے دوران اسلام سے محبت کرنے والے صوبہ سرحد کے عوام کو بتایا کہ پاکستان بننے کے بعد پاکستان میں اسلامی نظام حکومت قائم کیا جائے گا۔ جس سے عوام میں خوشحالی آئے گی۔ مسلمانوں کا ایک علیحدہ وطن ہو گا، جہاں مسلمان اپنے عقیدے کے مطابق زندگی بسر کر سکیں گے۔ صوبہ سرحد کے مسلمان قائداعظم کے اس وعدے پر لبیک کہہ کر1947ء کے ریفرنڈم میں کانگریس اور قوم پرستوں کو شکت دے کر ریفرنڈ م میں ٩٩ فی صد ووٹ دے کر پاکستان کی تاریخ میں اپنا نا درج کرایا۔ قائد اعظم نے تو پورے برصغیر کے مسلمانوں سے وعدہ کیا تھا کہ پاکستان بننے کے بعد اس میں مدینے کی طرز کا اسلامی نظام حکومت قائم کیا جائے گا۔ جس کہ وجہ سے اسلام سے محبت کرنے والے ہندوستان کے ان صوبوں کے مسلمانوں نے بھی پاکستان کے حق میں ووٹ دیا تھا جہاں پاکستان نہیں بننا تھا۔
اسی طرح قائد اعظم نے ایک تحریری یقین دہانی پیر امین الحسنات کو بھی کرائی تھی۔ یہ تحریر اب بھی پیر مانکی شریف کی خانقاہ کی دیوار پر ثبت ہے جسے اسلام سے محبت کرنے والا ہر مسلمان اب بھی دیکھ سکتا ہے۔ پیر امین الحسنات کی درخواست پر قائد اعظم نے تحریک آزادی رہنما عبدالحامد بدایونی کو صوبہ سرحد کے عوام کے دل گرمانے کے لیے دورے پر بھیجا ۔ عبدالحامد بدایونی نے صوبہ سرحد کے کونے کونے میں جا کر عوام کو مسلمانوں کی علیحدہ مملکت پاکستان بننے کے فوائد سے آگاہ کیا۔ صوبے کے عوام نے انہیں خوش آمدید کہا۔ عوام میں قائد اعظم کے دو قومی نظریہ کو آسان طریقے سے عوام کو سمجھایا۔ قائد اعظم نے جب دیکھا کہ ہندو اپنی اکثریت کے بل بوتے پر انگریز کے ہندوستان سے جانے کے بعد مسلمانوں کو اپنا غلام بنا لیں گے۔ تو انگریزوں کو باور کرایا، کہ ایک تو اخلاقی طور پر ہندوستان سے جانے کے بعد حکومت مسلمانوں کے حوالے کر کے جائو ،جو ہندوستان کے اصل حکمران تھے۔ جن کو ہندوستان پر ایک ہزار سال سے حکومت کرنے کی وجہ سے حکومت کرنے کا تجربہ حاصل ہے۔ ہندوئوں کی توایک ہزار سال سے کوئی مرکزی حکومت نہ تھی۔ ویسے بھی ہندوستان میں دو بڑی قومیں ہندو اور مسلمان رہتے ہیں۔ ان کا مذہب الگ ہے۔ مسلمان ایک اللہ کو مانتے ہیں، ہندو بتوں کی پوجا کرتے ہیں۔ ان کے رہن سہن کے طریقے الگ ہیں۔ان کے کھانے پینے کے طریقے الگ ہے۔ ان کے ہیرو ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ قائد اعظم کی یہ باتیں جو دو قومی نظریہ ہے ، سرحد کے عوام کو تفصیل سے عبدالحامد بدایونی نے اپنے دورے کے درمیان پیر امین الحسنات کے ساتھ مل کر بتائیں۔پیر امین الحسنات نے علماء کا ایک وفد مولانا محمد گل کی قیادت میں”جمہوریت اسلامیہ آل انڈیا سنی کانفرنس” کے قائد اعلیٰ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی کی خدمت میں اندرون ہندوستان بھیجا۔ اس علماء کے وفد نے قائد اعظم کا دو قومی نظریہ ان کے سامنے پیش کیا۔ اس کے بعد جمہورتَ اسلامیہ آل انڈیا سنی کانفرنس نے بنارس میں ایک اجتماع رکھا۔اس میں علماء اور عوام کے سامنے پیر امین الحسنات نے ڈھائی گھنٹے پر جوش تقریر کی۔ علماء اور عوام بہت خوش ہوئے۔ آپ نے اس جلسے میں کہا کہ ہم نے قائداعظم کو باور کرا دیا ہے کہ جس طرح و ہ اس وقت آپ کا ساتھ دے رہے ہیں اگر پاکستان بننے کے بعد آپ نے پاکستان میں برصغیر کے عوام کی تمنائوں کے مطابق اسلامی نظام حکومت قائم نہیں کیا تو ہم آپ کی شدت سے مخالفت میں اُٹھ کھڑے ہوں گے۔ اس پر اس اجلاس میں متفقہ طور پر پاکستان کے حق میں قرارداد منظور ہوئی۔1948ء میں جمہورتَ اسلامیہ آل انڈیا سنی کانفرنس کے قائد اعلیٰ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی لاہور تشریف لائے۔ پیر امن الحسنات ان سے ملاقات کے لیے لاہور تشریف لائے اور درخواست کی پاکستان میں اسلامی نظام حکومت کا خاکہ تیار کیا جائے، تاکہ قائد اعظم سے اسے منظور کروائیں۔ اللہ کا کرنا کے قائڈ کو اللہ نے تین ماہ بعد اپنے پاس بلا لیا۔ یہ حقیقت ہے کہ پیر امین الحسنات اور دیگر علماء اس وقت صوبہ سرحد میں قائد اعظم کے دو قومی نظریہ کو روشناس نہ کراتے تو سرحد صوبہ پاکستان میں شامل نہ ہوتا۔تحریک پاکستان میں پیر امین الحسنات نے قید و بند کی تکلیفیں برداشت کیں۔پاکستان بننے کے بعد مسلم لیگ سے اختلاف پیدا ہوا۔خان عبدالقیوم خان سے نظریاتی اختلافات کی وجہ سے مسلم لیگ سے علیحدہ ہوگئے۔ اپنی عوامی مسلم لیگ بنائی۔ صوبہ سرحد کی پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کا کردار ادا کیا۔کہا کہ مسلم لیگ نے جوتحریک پاکستان کے دوران عوام سے اسلامی نظام حکومت کے جو وعدے کیے تھے وہ پورے کرے۔ مگر مسلم لیگ کے اپنے وعدے پورے نہ کرنے پر وہ سیاست سے دلبرداشتہ مایوس ہوگئے اور1955ء میں سیاست چھوڑ دی۔ عوام کی روحانی پیشوائی کا مشن جاری رکھا۔
تحریک پاکستان کے دوران پاکستان کا مطلب کیا” لاالہ الا اللہ” کا نعرہ لگا کر پاکستان حاصل کرنے والی مسلم لیگ برصغیر کے کے عوام سے اپنے وعدے سے پھر گئی تو اللہ نے اسے سزا کے طورپر”الف سے یے” تک کئی ٹکڑوں میں بانٹ دیا۔ابھی بھی قوم کو پیر امین الحسنات جیسے اسلام سے حقیقی پیار کرنے والے علماء کی ضرورت ہے کہ وہ سیاست میں آ کر عوام کی اسلامی تربیت کریں۔ مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان جسے اللہ نے ایٹمی اور میزائل طاقت بنا دیا ہے، کی رہنمائی کریں۔ اور ملک میں اسلامی نظام حکومت قائم کریں۔ پھر اللہ بھی مسلمانوں سے قرآن میں اپنے کیے گئے وعدے پورے کرے گا ۔ مفہوم کہ” بستیوں کے لوگ اگر اللہ کے بتائی ہوئی تعلیمات کے مطابق عمل کرتے تو اللہ ان پر آسمان سے رزق نازل فرماتا۔ زمین اپنی خزانے اُگل دیتی۔ اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے ۔ آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں