سینئر بزدار یا مریم نواز ؟
شیئر کریں
عماد بزدار
ڈاکٹر صغریٰ روزنامہ جنگ میں کالم لکھتی ہیں۔ پچھلے دنوں ان کا کالم ”پنجاب خدمتِ خلق کے رستے پر”پڑھ رہا تھا جس میں مریم نواز صاحبہ کی تعریف کرتے ہوئے وہ لکھتی ہیں کہ
”پچھلے دور میں جب پنجاب پر قہر ڈھایا گیا تو پاکستان کو ڈیفالٹ کا خطرہ لاحق ہوا، اسلئے جو کوئی پنجاب کے وقار کیلئے سنجیدہ نظر آتا ہے میری محبتیں اور دعائیں اس کا حصار کئے رہتی ہیں۔میں مریم نواز کیلئے اس لیے دعا کرتی تھی کہ مجھے یقین تھا اگر کوئی اور جماعت جیتی تو پھر پنجاب کے لوگوں سے بدلہ لینے کیلئے کسی سینئر یا جونیئر بزدار کو ہی مسلط کیا جائے گا”۔
یہ الفاظ”پنجاب کے لوگوں سے بدلہ لینے کیلئے کسی سینئر یا جونیئر بزدار کو ہی مسلط کیا جائے گا” پڑھتے ہی مجھے صغریٰ صدف صاحبہ کے اس وقت کے کالمز یاد آگئے جب عثمان بزدار وزیراعلیٰ پنجاب تھے ۔ آیئے دیکھتے ہیں تب ڈاکٹر صاحبہ ،عثمان بزدار کے بارے میں کیا لکھتی رہی ہیں اپنے 04 اگست ، 2021 کے کالم”پنجاب کا بدلتا کلچراور قدریں”میں لکھتی ہیں کہ
”مثلاً پنجاب میں پہلی بار پنجاب کلچر ڈے منایا گیا، بزدار صاحب خود بلوچ سردار ہیںمگر ان کے دل میں پورا پاکستان بسا ہوا ہے ۔ انھیں پاکستان کی تمام مادری زبانوں اور دیسی کلچر سے شغف ہے اسی لیے پاکستان کی تمام مادری زبانوں کے حوالے سے خصوصی دن منائے گئے جو کہ مادری زبانوں کی اہمیت اور ان سے جڑی جداگانہ ثقافتوں کی ترقی و ترویج میں نمایاں اہمیت کے حامل ہیں۔ یوں پنجاب ایک خاموش
سماجی تبدیلی کی طرف بڑھتا ہوا نظر آتا ہے” ۔اسی کالم میں آگے جا کر لکھتی ہیں کہ”ثقافتی اقدار کی بحالی اخلاقی اقدار کی سربلندی کا باعث بنتی ہیں۔یوں ثقافت کو وسیلہ کر کے پنجاب اپنی اصل کی طرف مائل ہو رہا ہے جو ایک بڑی کامیابی ہے ۔سردار عثمان بزدار خوش قسمت ہیں کہ خیر کے اس عمل میں خیال احمد کاسترو، محترمہ اِرم بخاری، راجہ جہانگیر انور اور ثمن رائے جیسی مثبت اور متحرک ہستیاں ہمہ تن ان کی سوچ کو تعبیر بنانے میں مگن ہیں”۔
اپنے 16 جولائی ، 2020 کے کالم ”صوبائی ہم آہنگی میں پنجاب کا کردار” میں نون لیگ اور پیپلز پارٹی پر تنقید ان الفاظ میں کرتی ہیں
”پیپلز پارٹی اور نون لیگ، جو کبھی عملی طور پر وفاقی جماعتیں تھیں اب سندھ اورپنجاب کی پارٹیاں بن چکی ہیں اور دیگر صوبوں میں انہیں برائے نام نمائندگی حاصل ہے ۔مرکزی حیثیت لئے ضروری تھا کہ دورسے بیٹھ کر معاملات کاجا ئزہ لینے کی بجائے نظر انداز علاقوں کا دورہ کیا جائے اور روٹھے ہوئے لوگوں کے پاس جا کرگلے شکوے سنے جائیں اور رابطے استوار کئے جائیں۔مگر مصروف حکومتوں کو اس بڑے مقصد کی طرف نگاہ کرنے کی فرصت نہ ملی”۔
یہ لکھنے کے بعد عثمان بزدار کے بارے میں لکھتی ہیں
”وزیرِ اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی تعیناتی کے عوامل میں سب سے بڑی نیک نیتی یہ تھی کہ وہ چونکہ بلوچ سردار ہیں اور بلوچوں میں سردار کی خصوصی اہمیت ہوتی ہے ۔اس لئے بلوچستان ،جس کے عوام اور سیاستدان جمہوری اور آمرانہ حکومتوں کے غلط رویوں کی وجہ سے کافی دل برداشتہ ہو چکے تھے ۔دیگر صوبوں خصوصا پنجاب سے انکو بے پناہ شکایات تھیں کیونکہ مختلف اداروں اوربیوروکریسی میں پنجاب کی اکثریت ہوتی ہے ۔ اس لئے وہ تمام مسائل کی ذمہ دار پنجاب کی اشرافیہ کو قرار دیتے ہیں۔ عثمان بزدار کے آنے کے بعد ان کا رویہ تبدیل ہو گیا۔ انہیں پنجابی قوم کی یہ ادا بھی پسند آئی کہ اکثریت میں ہونے کے باوجود پنجاب کے لوگوں نے وفاقی حکومت کے مقرر کردہ وزیراعلیٰ کو قبول کیا۔ کبھی ان کے خلاف کوئی جلوس نکلا نہ انہیں بلوچ ہونے کی وجہ سے ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ یہ خاموش پیغام محبت دیر پا اثر کا حامل ہے ۔
پنجاب اگر افراد کی وجہ سے بڑا صوبہ ہے تو بلوچستان رقبے کے حوالے سے عظیم ہے ۔ وزیر اعلیٰ دونوں بڑے صوبوں کے درمیان ٹوٹے ہوئے رابطے کا جوڑ ثابت ہو رہے ہیں۔ بلوچستان اور پنجاب کے درمیان غلط فہمیوں کے ازالے کا مقصد ریاست کے استحکام کے مترادف ہے ۔ جس میں عثمان بزدار کی کاوشیں یقینا قابلِ تحسین ہیں۔پنجاب ایثار اور محبتوں کی سرزمین ہے ۔ کچھ لوگوں نے اسکا تاثر معدو م کر کے پورے پنجاب کو کٹہرے میں کھڑا کر رکھا ہے لوگوں کو درست تصویر دکھانے کی ضرورت تھی جسکا آغاز ہو چکا”۔
اچھا ایسا بھی نہیں ہے کہ ڈاکٹر صاحبہ نے صرف مریم نواز اور عثمان بزدار پر نظر کرم کی ہو بلکہ ڈاکٹر صاحبہ کی نظر میں پنجاب کا ہر موجودہ وزیر اعلیٰ بہترین صفات سے متصف ہوتا ہے
اپنے 04 جولائی ، 2022 کے کالم”پنجاب کو چلنے دیں”میں جب مرکز اور پنجاب میں حکومت تبدیل ہوگئی تو صغری صدف صاحبہ کو حمزہ شہباز میں ٹیلنٹ نظر آنا شروع ہوگیا
” گزشتہ چار سال کے دوران پنجاب کے ساتھ جو ظلم و زیادتی ہوئی ہے اس کی 75سالہ تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ یہ پہلا موقع تھا جب پنجاب کی ہر طرح کی ترقی کے آگے بند باندھ دیئے گئے ، جو کچھ موجود تھا اُسے بے دردی سے بانٹا اور ضائع کیا گیا۔سوال یہ ہے کہ آخر پنجاب کو کب تک مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو ووٹ دینے کی سزا دی جاتی رہے گی؟ کب تک تیسری، چوتھی قوت کے ذریعے ترقی کے راستے مسدود کئے جاتے رہیں گے” ؟
مزید لکھتی ہیں
”پنجاب کو ایک مخلص، متحرک اور محنتی ٹیم کی ضرورت ہے ۔ حمزہ شہباز اپنے والد کے ریکارڈ کو ضرور آگے لے جا سکتے ہیں، اگر انہیں پوری آزادی سے کام کرنے کا موقع فراہم کیا جائے ۔ ملک کی معاشی حالت کے پیش نظر پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں جاری ڈرامہ اب ختم ہو جانا چاہئے ۔”
مختصر عرصہ کے لئے سہی، وزیر اعلیٰ تو پرویز الہٰی بھی بنے تھے اس لئے انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ان کی معاملہ فہمی کی تعریف بھی بنتی تھی۔ اپنے 14نومبر 2022کے کالم ”وزیر اعلیٰ پنجاب کے موثر اقدامات”میں لکھتی ہیں کہ
”بی اے میں چوہدری پرویز الٰہی کے ہاتھوں امتیازی حیثیت کا انعام وصول کرنے کے بعد ان کے قائم کردہ ادارے پِلاک کی ڈی جی کی حیثیت سے ان سے گزشتہ ہفتے سی ایم ہائوس میں بریفنگ کے دوران ملاقات ہوئی تو شدید حیرانی ہوئی۔ کبھی کسی کو اس طرح معاملہ فہمی اور واشگاف حکمتِ عملی کا اظہار کرتے نہیں دیکھا تھا”۔
ڈاکٹرصاحبہ کی خدمت میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ
آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی