عبرت ناک انجام کے لیے تیاررہیں
شیئر کریں
ہم اپنے ملک میںہرکام کرنے سے پہلے اس کی مثال ان ممالک سے لیتے ہیںجہاںترقی ہوچکی ہے۔ہمارے ملک میں تعلیم ،صحت ،ٹرانسپورٹ سے لے کرہربڑے منصوبے میں امریکا کایاچین کاہاتھ ہوتاہے۔ہم دنیابھرمیں کشکول اٹھاکربھیک مانگتے ہیںاوراس بھیک سے ترقی کی سیڑھیاںچڑھ رہے ہیں۔ بھیک سب مانگتے ہیں،جنہوںنے آج تک حکومت کرلی وہ بھی بھیک کے بغیرنہیں چل سکے اور جو کل آکرپاکستان بدلنے کادعویٰ کرتے ہیںوہ بھی بھیک کے بغیرترقی نہیں کرسکیںگے، یہ ایک آفاقی حقیقت ہے۔ دنیاکاہرترقی یافتہ ملک مقروض ہے، دنیاکے ملکوںکوچھوڑیں، اپنے گریبان میں منہ ڈالتے ہیں۔ہروہ آدمی جوترقی کرناچاہتاہے ،وہ مقروض ہوجاتاہے جس دن کسی انسان نے اپنا معیار زندگی بلندکرنے کافیصلہ کیااسی روزوہ مقروض ہوجائے گا۔ اسلام نے قرض دینے کی حوصلہ افزائی کی ہے لیکن قرض نہ واپس کرنے والے کو جنت سے محروم ہونے کاخطرہ بتایا ہے۔ اسلامی معاشرے میںکوئی فردقرض اس وقت لیتا تھاجب قرض لیے بغیرزندگی گزارناممکن نہیں رہتا اور حدیث شریف میں آتاہے جس کامفہوم ہے کہ قرض معاف کردینااجرعظیم ہے ۔مگرقرض واپس نہ کرنابھی بہت بری بات سمجھاجاتا ہے اور شہید کو بھی قرض میں کوئی رعایت نہیں دی گئی۔ اگرشہیدبھی قرض واپس نہ کرے گاتواس کوقرض واپس کرنے کے لیے اپنی نیکیاںدیناہوںگی۔یہ ایک سچ ہے کہ آج ترقی بھیک اورقرض کے بغیرممکن نہیں ہے۔ ہم ہرچیزمیں امریکا اورچین کی نقل کرتے ہیں۔ دونوںترقی یافتہ ملک ہیں۔ دونوںبہت بڑی فوج کے حامل ملک ہیں۔دونوںمقروض ہیں،ٹرمپ کواپنے امریکی سرمایہ داروںپرایک غصہ یہ بھی ہے کہ وہ اپناپیسہ چین جاکرلگاتے ہیں۔وہ امریکی ہوکرچین کومضبوط کیوںکرتے ہیں؟اس نے سرمایہ داروںپراس حوالے سے مختلف پابندیاں لگانے کافیصلہ کیاتواسے سرمایہ داروںنے دھمکی دی کہ اگرٹرمپ نے سرمایہ داروںپرٹیکس عائد کیا تو سرمایہ دارامریکی شہریت سے دستبردارہوجائیں گے۔ ٹرمپ کاکہناہے کہ امریکی سرمائے کی وجہ سے چین کی معیشت مضبوط ہورہی ہے چین کے لوگوںکوامریکی سرمائے کی وجہ سے نوکریاں اور روزگار میسرآتاہے ۔جبکہ امریکی سرمایہ داروں کے اپنے ہم وطن مالی ابتری کاشکار رہتے ہیں۔ اس لیے امریکی سرمایہ داروںکواپناسرمایہ امریکا میں خرچ کرناچاہے تاکہ امریکی لوگوں کو روزگار ملے۔ مگر سرمایہ داربھی اس کے جواب میںکمال کی دلیل رکھتے ہیںوہ کہتے ہیںکہ ہم کاروبار سرمائے کو بڑھانے کے لیے کرتے ہیں۔ اور ہمیں چین میں امریکی مزدورسے سستا مزدورملتاہے ۔اس لیے ہم چین میں سرمایہ کاری کرتے ہیںتاکہ کسی بھی چیزپرکم لاگت آئے اوراس کی فروخت سے زیادہ سے زیادہ سرمایہ میسرآسکے۔یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کہ پاکستانی صنعت کاروں نے بنگلا دیش میں جاکرسرمایہ کاری کی ہوئی ہے ۔سرمایہ دارکاکوئی ملک نہیں ہوتا۔فرانس نے اپنے سرمایہ داروں پر بھاری ٹیکس عاید کیے تو ایک ہی ساتھ 5 ہزار سرمایہ داروںنے فرانس کی شہریت کو چھوڑ دیا ان سرمایہ داروںمیںسے ایک کوروس نے یہ پیشکش کی کہ اگروہ روس کی شہریت اختیارکرلے تو روس اسے اپنا وزیر سیاحت بنادے گا۔سرمایہ دار کا کوئی ملک ،کوئی مذہب نہیں ہوتا،یہ بات آج بھی ہمارے ہاں سمجھ نہیں آسکی۔لوگ سمجھتے ہیںکہ امیر لوگ کم قرض لیتے ہیں۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ قرض دارامیرہوتے ہیںکیونکہ ان کواپنامعیارزندگی برقراررکھنے کے لیے ہروقت محنت کرناپڑتی ہے۔ اور اس کے لیے انہیں مسلسل سرمائے کو بڑھاتے رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مسلسل سرمایہ بڑھے اس کے لیے مزیدسرمائے کی ضرورت پیش آتی ہے جس کے لیے بینک قرض دیتے ہیں۔جتنی ترقی ہوتی جاتی ہے اتنا امیر آدمی اپنے غریب رشتہ داروں کی مددکرنے سے معذور ہوتا جاتا ہے۔ اوراس کے پاس بڑی مضبوط دلیل ہوتی ہے کہ پیسے تو ہیں مگر اپنی ضرورت کے لیے ہیں۔ اور معیار زندگی میںکمی امیرآدمی کسی صورت برداشت نہیں کرتا۔یہی حال کسی بھی ملک کاہوتاہے ،ہرقومی ریاست کے لیے سب سے پہلے قومی مفاد ہوتا ہے۔ اورقومی مفاد بدلتا رہتا ہے، کبھی افغانی مسلمان بھائی ہوتے ہیں مگر قومی مفاد بدلتے ہی وہ بوجھ بن جاتے ہیں۔ایسااس لیے ہوتا ہے کیونکہ قومی مفاد نام ہی صرف ترقی کرنے کا ہے۔ اورمسلسل ترقی کرنے کا ،جوملک جتنی ترقی کرتاہے اس کی عوام پرزندگی گزارنے کے طریقے اتنے پیچیدہ اورمشکل بنادیے جاتے ہیں۔امریکا میں مفت کچھ نہیں ملتاجولوگ امریکا میں علاج معالجے کی سہولیات کے گن گاتے ہیںوہ یہ بتانا بھول جاتے ہیںکہ یہ علاج انشورنس کروانے کے بعد میسرآتاہے۔ اور انشورنس اسلام میںحرام ہے۔ اب آپ کہیں گے کہ انشورنس توآج کل عام ہوگئی ہے تویہ کیسے حرام ہے ؟عام ہوگئی ہے تو ہوتی رہے یہاںکون سااسلامی حکومت ہے کہ ملک میںحلال اورحرام کی تمیز کی جائے گی؟اس لیے انشورنس کروانا لوگوںکے ہاتھ میں ہے۔ ریاست نے آزادی دی ہے کہ انشورنس کروا کر مرنے کی بھی آزادی ہے اوربغیرانشورنس کے مرنے کی بھی آزادی ہے ۔ اب توہماری وفاقی اور صوبائی حکومتوںنے علاج کی غرض سے قرض دینا شروع کردیا ہے۔ جب لوگ ڈاکٹر پر مکمل ایمان لے آئیںگے تب حکومت درمیان سے ہٹ جائے گی تب انشورنس والے سامنے آجائینگے ۔ جب پاکستان امریکا،برطانیہ ،فرانس جیسی ترقی کریگاتب انشورنس کروانے کی پابندی ہوگی۔ امریکا میں جوغریب ہے اس کی زندگی پاکستان کے غریب کے مقابلے میں ہزارگناہ زیادہ بری ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہاںلوگ خودکشی کرتے ہیں۔پہلے لوگ ترقی کابھرپورمزہ لیتے ہیں اور پھر اس ترقی کے ہاتھوںاتنے تنگ آجاتے ہیں کہ ایک دن اپنے ہاتھوںسے خوداپناخون کرلیتے ہیں۔ پا
کستان میںہردوسراحکمران ترقی ترقی کاترانہ گا رہا ہے یہ ترقی لوگوںکی زندگیاںجہنم بنادے گی۔ دنیامیں سب سے زیادہ پاگل ترقی یافتہ ملکوںمیں ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ مجرم ترقی یافتہ ملکوں میں ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ ہوس کے پجاری ترقی یافتہ ملکوںمیں ہیں۔دنیامیں سب سے زیادہ نشے کے عادی ترقی یافتہ ملکوںمیں ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ غیرمحفوظ عورت ترقی یافتہ ملکوں کی ہے ۔ دنیا میںسب سے زیادہ خودکشیاںترقی یافتہ ملکوں میں ہوتی ہیں۔دنیامیں سب سے زیادہ مریض ترقی یافتہ ملکوںمیں ہیںاگریقین نہیں تو یورپ اور امریکا کی سروے رپورٹس کوپڑھ لیں۔ جوجولوگ ترقی کے لیے جی رہے ہیںاورترقی کو اپنا خدا بنا چکے ہیںوہ یادرکھیں کہ یہ ایک پیکیج ہے ۔ترقی کے ساتھ ساتھ یہ سب بھی ملے گا۔ اور ایساترقی یافتہ ملکوںمیں ہورہاہے اس لیے کریں ترقی ضرور کریں مگرعبرتناک انجام کے لیے بھی تیارہیں۔