انشائیہ: علمیات سے عملیات تک
جرات ڈیسک
اتوار, ۳۱ مارچ ۲۰۲۴
شیئر کریں
انشائیہ
………..
زریں اختر
انشائیہ لکھنے سے پہلے کیوں نہ انشائیہ نگاری پر ہی پہلا انشائیہ لکھ مارا جائے۔ اب یہ لکھ مارا جائے کو تمیز سے ”لکھا جائے“ کیوں نہ لکھاجائے؟ بس یہی انشائیہ ہے۔ مضمون سے تعلق ِ خاطر ضرور ہے لیکن اغماض بھی برتنا ہے،اگر نہیں برتا تو انشائیہ نہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی سنجیدہ مجلس میں خشک مقالے سننے کے بعد چائے کا وقفہ تصور میں لائیں؛ قہوے کی خوشبو، لباسوں کی سرسراہٹ، ہلکی پھلکی گفتگو، دبے دبے قہقہے،کہیں ذرا کھِلی کھِلی ہنسی تو کہیں زیرِ لب دھیمی مسکراہٹ،چائے کی چسکیوں کے درمیان مضامین پر کچھ سنجیدہ کچھ نیم سنجیدہ تبصرے۔ غرض چائے کا وقفہ تنہا چائے کا وقفہ نہیں ہوتا،یہ اپنے جلو میں لطیف سمے سموئے ہوتا ہے۔اگر یہ وقفہ پندرہ منٹ کا ہے تو یہ ٹک ٹک ٹک پندرہ گھڑیاں کتنی اہم ہیں؟اسے سمجھنے کے لیے سی سا جھولے کی مثال دی جاسکتی ہے۔ اس جھولے کے درمیان میں لگا پتھر،اگر یہ نہ ہو تو لکڑی کا وہ تختہ کس پر ٹکے گا؟ٹکنا ضروری ہے۔ تختہ ٹکتا ہے تو دونوں طرف بیٹھے ہوئے بچے جھولا جھول سکتے ہیں۔تختے کے ایک طرف بیٹھے ہوئے بچے کو اپنی فضا میں بلند ہونے کے لیے پہلے زمین کی طرف آنا ہوتاہے،توتختے کے دوسرے طرف بیٹھا ہو اساتھی فضا میں بلند ہوتا ہے،پھر اگلی باری میں دوسری طرف بیٹھا ہوا ساتھی زمیں کی طرف آتا ہے اور پھر خود کو بلند کرنے کے لیے اپنے پیروں پر زور دے کر اٹھتا ہے۔ تختوں کے درمیان لگا پتھر ”توازن“ قائم رکھنے کے لیے ہے۔بس چائے کا وقفہ بھی اسی توازن کوبرقرار رکھنے کے لیے ہے؛ توازن مسلسل سنجیدہ فکری مقالات کے درمیان، کہیں یہ توازن سخت پتھر قائم کرتاہے تو کہیں چائے کی پیالی۔
اگر یہ مثال بھی درست نہیں لگی تو دوسری مثال بلکہ تعریف سے سمجھتے ہیں۔ انشائیے کی تعریف بیان کرتے ہوئے غالباََ ڈاکٹر وزیر آغا(لفظ غالباً کے لیے معذرت،ڈاکٹر صاحب کا انشائیے پر اتنا کام ہے کہ اگر انشائیہ نگاری کی ایک انوکھی تعریف ان کے کھاتے میں بلاوجہ ہی آجائے تو محض اس سے ان کا قد نہیں بڑھ جاتا اور کسی اور کی بیان کردہ آجائے تو اس کے قد میں اضافے کاموجب بن سکتا ہے کہ اس کی بیان کردہ تعریف کو ڈاکٹر صاحب سے منسوب کیا جارہا ہے یعنی اس نے کچھ ایسا ہی تیر مار دیاہے) بیان کر تے ہیں:”سمندر ایک سائنس دان کسی اور نظر سے،شاعر کسی اور زاویے سے،عاشق کسی اور پہلو سے اورانشائیہ نگار اپنے ہی انداز سے دیکھے گا۔ وہ انداز کیا؟ انشائیہ نگار سمندر کی طرف پشت کرکے کھڑا ہوگااورجھک کر اپنی دونوں ٹانگوں کے درمیان سے سمندر کا مشاہدہ کرے گا“۔
انشائیہ نگاری نہ ہوئی سرکس ہوگیاگویا انشائیہ لکھنا ہے تو دنیا کو سر نیچے اور پاؤں اوپرکرکے دیکھنے ہوگا کہ اب یہ نباتات و جمادات کیسے دکھائی دیتے ہیں،لکھ کر ویسا دکھاؤ۔ وزیر آغا یہاں صحافت کے باوا آدم کہلائے جانے والے برطانوی لارڈ نارتھ کلف کی خبر کی اس تعریف سے متاثر بلکہ مرعوب نظر آتے ہیں کہ اگر کتا انسان کو کاٹ لے تو خبر نہیں لیکن اگر انسان کتے کو کاٹ لے تو خبر ہے۔ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔کوئی جی دار انشائیہ نگار جو عملیات پردل و جان سے فدا ہواور صنف انشائیہ میں اپنا مقام آپ پیدا کرنا چاہتا ہو،خود کو اس تجربے سے عملی طور پر خود ہی گزارے کہ چلیں سمندر کونسا دور ہے،جیسا استاد محترم نے فرمایا ہے کر کے دیکھتے ہیں،یعنی اس آسن کااہتمام کرتے ہیں۔یہی وہ اصل مقام ہے جہاں یہ تعریف اپنی جزئیات کے ساتھ کھل کر سامنے آتی ہیں۔ تعریف میں وقت اور مقام کاکہیں ذکر نہیں ہے کہ سمندر کے مشاہدے کے لیے کو ن ساوقت اورمقام ہونا چاہیے، یہاں ڈاکٹر صاحب سے بڑی چوک ہوگئی،ان کو مشرقی اور مغربی ساحل ِ سمندر کا فر ق ملحوظ رکھنا چاہیے تھا۔خیر جو سمندر بھی میسر ہو پریکٹیکل تو کرنا ہے توکیوں نہ اس تعریف کی صحیح کھوج کے لیے کچھ سنجیدہ لونڈوں لپاڑوں کے ساتھ پکنک کااہتما م کیاجائے تاکہ مختلف وقتوں میں اطمینان سے آسن جمایا جاسکے۔ یکم از کم تین اوقات میں یعنی طلوعِ آفتاب، وقت زوال اور غروب آفتاب کے وقت سمندر کی طرف سے منہ موڑ کر ٹانگوں کے درمیان سے پوری سنجیدگی اور مکمل توجہ سے سمندرکا مشاہدہ کیا جائے۔ اگر تو انشائیہ نگار یوگاکا بھی ماہر ہے تو یہ آسن اس کے لیے چیز ہی کوئی نہیں۔
انشائیے کی اس تعریف پر عملی نکتہ نظر سے پورا اترنے کے بعد ہم علمی سطح پر ا س مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ انشائیے کی خصوصیات لپک اور مچل کر ہمارے سامنے آن کھڑ ی ہوئی ہیں،اب انسانوں کی طرح سیدھے کھڑے ہوجائیں۔
وہ چار خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ اختصار: دیکھیں کوئی بھی اس پوزیشن میں خواہ اسے لوگوں کی پرواہ نہ بھی ہو،ہوسکتاہے اس وقت کم لوگ ہوں اور دوست بھی حلقہ کیے کھڑے ہوں اور اگر یہ مشرقی نہیں بلکہ کوئی مغربی ساحل ہو کہ وہاں کسے پرواہ،یہ تو ہم جانتے ہیں کہ یہ سب کشت صنف ِانشائیہ نگاری کی وسعتوں اور گہرائیوں میں اترنے کے لیے ہے،اچھا ہمیں یہ بالکل یادنہیں رہا کہ اس وقت انشائیہ نگار کو کس قسم کے لبا س میں ہونا چاہئے۔ مشرقی خواتین انشائیہ نگاروں کو پرخلوص مشورہ ہے کہ وہ اس ضمن میں مردوں کے تجربات سے ہی استفادہ فرمالیں۔ دیکھیں جہاں ہم دوسروں کے کئی تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہیں تو یہاں کیوں نہیں،باقی آپ کی مرضی۔ مردوں کی طرف آتے ہیں۔ یوگا بھی شلوار قمیص پہن کرتو ہوتا نہیں، کرنے کو آپ جو بھی کرتے ہوں، توبنیانوں والے کپڑے کا پاجامہ اور آستینوں والا بنیان موزوں لباس ہے۔آسن کی یہ پوزیشن انشائیے کے اختصار کی جانب واضح اشارہ ہے۔ انشائیہ اختصار پسند ہوتاہے،ڈیڑھ سے دو صفحات،یہ ہم اپنی طرف سے نہیں کہہ رہے کسی تعریف میں پڑھا تھا اور آسن کی یہ پوزیشن بھی یہی ثابت کرتی ہے۔
۲۔ ظرافت: آسن کی پوزیشن اوردورانیہ اختصار کے ساتھ انشائیے کی دوسری خصوصیت کی جانب بھی توجہ دلاتاہے اور وہ ہے ظرافت۔ کسی کو اس پوزیشن میں دیکھ کر کوئی کتنا ہنس سکتا ہے، بس اتنی ہی ظرافت کا تڑکاانشائیے کی ضرورت ہے، نہ کم نہ زیادہ ہی ہی ہی۔
۳۔ انفرادیت: سمندر اس طرح کیسا دکھائی دیتاہے، جیسے اس سے قبل کسی نے نہیں دیکھا ہوگا،سمندر عرش ہوجائے اور عرش فرش بن جائے گا، حالاں کہ نہ سمندر عرش بنا نہ عرش فرش بنا۔ طبعی دنیا کو دیکھنے دکھانے کا مختلف انداز اپنے پرپیر نکالے گااور سوچ کو نیا رخ دے گا۔بس یوں سمجھیں کہ انشائیہ نگار انفرادیت کی منزل کی جانب گامزن ہوچکاہے۔
۴۔ ذکاوت:انفرادیت کے رستے پر ذکاوت سے ملاقات یقینی ہے۔یہ سوچ کو ایک نیا رخ دے گا،خیال کی الگ دنیا،یہ سطحیت سے بلند ی کا سفر ہے اوریہ بلندی ذکاوت کی خوبی پیدا کرتی ہے۔
اختصار، ظرافت، انفرادیت اور ذکاوت۔ یہی انشائیے کی چار نمایاں خصوصیات ہیں۔اور پانچویں کہ تنہا بھی ہو تو سمندر کے ایسے مشاہدے سے باز نہ آؤ،باز نہ آنا جرأت کی جانب پیش قدمی ہے،ہر لکھاری کا من پسند راستہ۔
٭٭٭