خادم الحرمین الشریفین--- انصاف کی اعلیٰ مثال
شیئر کریں
یحییٰ مجاہد
اسلام امن و سلامتی کا دین ہے اور امن عدل و انصاف سے قائم ہوتا ہے جس معاشرے میں انصاف نہ ہو وہ قومیں اور معاشرہ ہمیشہ زوال کاشکار ہو جاتی ہیں۔کسی بھی قوم وملک کی تعمیر اور ترقی کے لیے انصاف ایک بنیادی ضرورت ہے، جہاں انصاف کا بول بالا ہو وہاں امن وسکون ہوتا ھے۔ اور اگرانصاف شریعت کے مطابق ہو تو اس میں اجر بھی ہے۔ہر شہری کی جان و مال اور عزت کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہوتی ھے، مسلم معاشروں کو برائیوں سے پاک رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ جس سے جرم سرزد ہو جائے اس کوشریعت کے مطابق سزاملے۔معاشرے میں انصاف ہو گا تو امن و سکون ہو گا۔ اسلام میں بھی انصاف کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ اسلامی نظام انصاف میں مجرم خواہ امیر ہو یا غریب،بادشاہ ہو یا رعایا سب برابر کے شہری ہیں اور انہیں اسلامی عدالت میں شرعی حدودوقوانین کی بنیاد پر ہی سزا ملے گی اور اس پر عمل بھی ہو گا۔قرآن مجید کی سورة النساءمیں ہے کہ ”ترجمہ:اے ایمان والو انصاف پر خوب قائم ہوجاﺅ اللہ کیلیے گواہی دیتے رہو چاہے اس میں تمہارا اپنا نقصان ہو یا ماں باپ کا یا رشتہ داروں کا۔ فریق معاملہ خواہ مالدار ہو یا فقیر ہو بہرحال اللہ کو اس کا سب سے زیادہ اختیار ہے خواہش کے پیچھے نہ جاﺅ کہ حق سے الگ ہوجاﺅ۔ اگر تم ہیر پھیر کرو گے یا منہ پھیرو گے تو اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے“۔بخاری شریف کی ایک مشہور حدیث ھے کہ قبیلہ قریش کے خاندان بنی مخزوم کی ایک عورت نے چوری کی، قبیلہ قریش نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جو نبی کریم ﷺ کے انتہائی محبوب تھے سفارش پرآمادہ کر لیا کہ وہ نبی کریم کے حضور سفارش پیش کریں۔ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بارگاہِ رسالت میں سفارش عرض کر دی یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ”اے لوگو! تم سے پہلے کے لوگ اس وجہ سے گمراہ ہو گئے کہ جب ان میں کوئی اثرورسوخ والا چوری کرتا تھا تو اس کو چھوڑ دیتے تھے اور جب کوئی کمزور آدمی جرم کرتا تو اس پر سزائیں قائم کرتے تھے خدا کی قسم! اگر محمد کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے گی تو یقینا محمد اس کا ہاتھ کاٹ دے گا۔سعودی عرب میں قتل کے جرم میں شاہی خاندان کے ایک فردکاسر قلم کرنے کی خبریں میڈیا پر آئیں تو سب کے لیے حیران کن بات تھی کیونکہ سعودی عرب کے فرماں روا خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیزنے ہی انصاف کی اعلیٰ مثال قائم کرتے ہوئے شاہی حکم نامہ جاری کیا اور اپنے ہی خاندان کے قاتل شہزادے کا سر قلم کروا دیا۔ سعودی وزارت داخلہ نے شہزادہ ترکی بن سعود الکبیر کا سرقلم کیے جانے کی تصدیق کردی ہے۔ شہزادہ ترکی بن سعود بن ترکی بن سعود الکبیرنے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کے نواح میں واقع الثمامہ میں ایک گروہی لڑائی جھگڑے کے دوران سعودی شہری عادل بن سلیمان بن عبدالکریم المحیمید کو قتل کردیا تھا۔سعودی عرب کی ایک عمومی عدالت نے تین سال قبل شہزادہ ترکی کو قتل کے جرم میں قصوروار قرار دے کر سزائے موت سنائی تھی۔اپیل عدالت اور عدالت عظمیٰ دونوں نے اس سزا کو برقرار رکھا تھا۔اس کے بعد ایک شاہی حکم نامہ اس سزا پر عمل درآمد کے لیے جاری کیا گیا تھا کیونکہ مقتول کے خاندان نے خون بہا لینے سے انکار کردیا تھا اور قصاص کا مطالبہ کیا تھا۔اس سزا پرعملدرآمد سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان سعودی عرب کی سکیورٹی،انصاف اور اللہ کے احکام کے نفاذ میں گہری دلچسپی رکھتے ھیں۔سعودی فرماں روا خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے اس منصفانہ اقدام کے بعد نہ صرف سعودی عرب بلکہ دنیا بھر میں تعریف کی جا رہی ہے۔سعودی عرب دنیا میں وہ واحد اسلامی مملکت ہے جہاں شریعت اسلامی کے مطابق سزائیں دی جاتی ہیں اور وہاں کی عدالتیں آزادانہ فیصلے کرتی ہیں۔حالیہ فیصلہ اور اس پر عملدر آمد ایک واضح اور روشن دلیل ہے۔ عالم اسلام کے دیگر ممالک کے حکمرانوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ کیا ان کے ممالک میں بھی انصاف کی یہی کیفیت ہے۔شاہ سلمان بن عبدالعزیز جب سعودی عرب کے حکمران بنے تھے تو انہوں نے اعلان کیا تھا کہ سعودیہ میں کوئی بھی شخص بادشاہ یا شہزادوں کے خلاف بھی کیس کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ اللہ ان شہریوں کو جزا دے جو حکمرانوں کی غلطی نکال کر انکی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں، عوام براہ راست شکایت یا ٹیلیفون اور خطوط کے ذریعے حکمرانوں اور حکومت کے خلاف شکایات درج کرا سکتے ہیں۔ خادم الحرمین الشریفین کا کہنا تھا کہ الحمدللہ ہمارا آئین اللہ کی کتاب اور اسکے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، اللہ کا شکر ہے ہمارا ملک محفوظ اور مستحکم ہے، ہمارے شہری ہمارا فخراور ہماری قوت ہیں۔ ہمارے ملک کی ذمہ داریاں بھی زیادہ ہیں۔ کیونکہ دنیا بھر کے مسلمان اپنے قبلے کی جانب رخ کرکے نماز پڑھتے ہیں اور یہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی جو عربی زبان میں تھی اور ایک عرب نبی پر نازل ہوئی، اس لیے ہم پر تمام تر ملکوں سے زیادہ بڑھ کر ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ سعودی عرب کے فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے اس عزم کا بھی اظہار کیا تھا کہ ”وہ مکمل اور متوازن ترقی ” کے لیے کام کریں گے اور عرب اور اسلامی نصب العین کا دفاع کریں گے۔تمام شہریوں کے لیے انصاف کے حصول کی غرض سے اقدامات کریں گے اور اس ضمن میں ایک شہری سے دوسرے شہری اور ایک خطے سے دوسرے خطے کے درمیان کوئی فرق روا نہیں رکھا جائے گا۔ شاہ سلمان نے اقتدار سنبھالتے وقت جو اعلان کیا تھا آج اس پر عمل کر کے یہ ثابت کر دیا کہ دین اسلام سب کو برابری کے حقوق دیتا ہے اور انصاف کرتے وقت بھی منصف
اور قاضی کو شریعت کے مطابق فیصلہ کرنا چاہیے نہ کہ اپنے ضمیر کے مطابق۔ دنیا سوچ بھی نہیں سکتی کہ سعودی عرب میں ایک شہزادہ جرم کرے گا اور اس جرم کے بدلے میں اسے قتل کر دیا جائے گا بلکہ کچھ عاقبت نااندیش سعودی عرب کے خلاف ہر وقت سازشیں و الزام تراشیاں کرتے رہتے ہیں کہ سعودی عرب میں سزائیں ٹھیک نہیں دی جاتیں، انصاف نہیں ہوتا، ماضی میں بھی پھانسیوں پر سعودی عرب کے خلاف مذموم پروپیگنڈا کیا گیا لیکن سعودی شہزادے کے قتل کیس میں فیصلے پر عملدرآمد کے بعد سب خاموش اور حیران ہیں۔ پروپیگنڈا کرنے والوں پر سکتہ طاری ہے ۔اگر ان میں حوصلہ ہے تو وہ اپنے ملک کا کوئی ایسا فیصلہ دکھائیں جس میں حکمران کے کسی عزیز کو اس طرح سزا ملی ہو۔شاہ سلمان کے اس فیصلے سے دنیا بھر میں ان کی عزت و مقبولیت میں اضافہ ہوا اور کیوں نہ ہو عزت دینے والا اللہ ہے۔ جو اللہ کے فیصلوں پر عمل کرے گا اسے ضرور عزت ملتی ہے۔