ادھورے سچ
شیئر کریں
ایم سرور صدیقی
پانامہ ا سکینڈل پاکستان کی تاریخ کا ایک ایسا ناقابل ِ فراموش باب ہے جس نے سیاست،جمہوریت اور شریف خاندان پر گہرے اثرات مرتب کیے یعنی ایک ایسا بھوت ہے جس سے جان نہیں چھڑائی جاسکتی یا دوسرے لفظوںمیں یہ بھی کہا جاسکتاہے نوازشریف فیملی اس کمبل کواتارکرپھینکنا چاہتی ہے لیکن اب کمبل انہیں نہیں چھوڑرہا۔پانامہ ا سکینڈل نے میاں نوازشریف کی سیاست ختم کرکے رکھ دی ہے۔ اس کے باوجودمیاں نوازشریف نے قوم کو کبھی سچ نہیں بتایا ۔ان کا ادھورا سچ لوگ تسلیم نہیں کررہے۔ اس کے باوجود احتساب عدالت اسلام آباد نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے بیٹوں حسن نواز اور حسین نواز کو العزیزیہ، ایون فیلڈ اور فلیگ شپ ریفرنس میں بری کر دیا۔
احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا نے بریت کی درخواستوں پر محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا۔ دوران سماعت، نیب پراسیکیوٹر افضل قریشی نے عدالت کو آگاہ کیا کہ مریم نواز کی بریت کے خلاف ہم نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر نہیں کی، حسن نواز اور حسین نواز پر سازش اور معاونت کا الزام ہے۔ ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ انکا کیس ہے کہ ان ریفرنسز میں مرکزی ملزم بری ہوچکے ہیں۔ حسن نواز اور حسین نواز کے وکیل قاضی مصباح ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے نواز شریف کو بری کیا، جن دستاویزات پر انحصار کرتے ہوئے عدالت نے مریم نواز کو بری کیا تھا انہی پر نواز شریف کی بریت ہوئی، نیب نے مریم نواز کی بریت کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر نہیں کی تھی۔ درخواست گزاروں کے وکیل نے کہا کہ العزیزیہ کیس میں ٹرائل کورٹ نے سزا دی اور دسمبر 2023 میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے نواز شریف کی اپیل منظور کی۔ نیب نے نواز شریف کی اپیل منظور ہونے کے فیصلے کو بھی سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں کیا جبکہ نیب نے مزید شواہد عدالت کے سامنے نہیں رکھے جو شواہد موجود ہیں ان پر بھی حسن نواز اور حسین نواز کو سزا نہیں ہو سکتی، حسن نواز اور حسین نواز کے خلاف کیس چلانا عدالتی وقت ضائع کرنا ہوگا۔قاضی مصباح ایڈووکیٹ نے کہا کہ کیس میں مرکزی ملزم بری ہوگئے تو معاونت کے الزام میں کیس چل ہی نہیں سکتا، فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف ٹرائل کورٹ سے بری ہوگئے تھے ۔نیب نے بریت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل بھی نہیں کی، جو تمام شواہد موجود ہے ان کو تسلیم بھی کرلیا جائے تب بھی سزا کا کوئی چانس نہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس فیصلہ پر سرتسلیم ِ خم کیا جاسکتاہے لیکن درحقیقت اس اسکینڈل نے میاںنوازشریف فیملی کی اخلاقیات کا بھرم کھول کررکھ دیا تھا کیونکہ پانامہ اسکینڈل نے پچھلے8 سال میں ملک کے سیاسی مستقبل پر گہرے اثرات مرتب کئے اس سے بھی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ،پاکستان میں وقت اور حالات کیسے اور کتنی تیزی سے بدلتے ہیں پاناما کیس اس کی واضح مثال ہے کچھ لوگوںکا یہ بھی خیال ہے ایک وقت وہ بھی تھا جب اس اسکینڈل کو بنیاد بنا کر اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے سیاسی انجینئرنگ کی جس میں عدلیہ بھی شامل ہوئی اور سیاستدان بھی حصہ بنے، اس وقت وزیراعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کو نشانہ بنایا گیا جبکہ شریف فیملی کے سیاسی مخالفین پانامہ اسکینڈل کو غضب ناک کرپشن کی عجب کہانی قرار دیتے ہیں یہ ساری باتیں اپنی جگہ پر لیکن اس معاملہ میں شریف خاندان قوم کو مطمئن نہیں کرسکا۔ پچھلے دنوںایک میڈیا اینکرنے میاںشہبازشریف سے سوال کیا تھا کہ لندن میں ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کس کی ملکیت ہیں؟ جواب میں موصوف نے کہا یہ سوال آپ میاںنوازشریف یا ان کے بیٹوںسے پوچھیں، میرا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ کوئی اس سوال کا جواب دے نہ دے، حقیقت سب جانتے ہیں یہ بھی جانتے ہیں کہ اب8 سال بعد وقت ،حالات اور ترجیحات بدل گئیں۔ پاناما اسکینڈل کی بنیاد پر بننے والے تمام کیسز سے شریف خاندان کے افراد ایک ایک کر کے کیونکر بری ہوگئے ؟ اب نواز شریف کے دونوں بیٹے حسن نواز اور حسین نواز بھی بری ہو چکے ہیں،پہلے ان مقدمات میں عدالتوں سے سزا ہونے پر شریف خاندان کیخلاف بیانیہ بنا، اب انہی عدالتوں سے بریت ہونے پر بھی بیانیہ بنایا جارہا ہے اور انہیں لاڈلا قرار دیا جارہا ہے۔
پانامہ اسکینڈل سے جڑے سوالات شریف خاندان کا پیچھا کرتے رہیں گے۔ پانامہ اسکینڈل میں بتایا گیا تھا کہ لندن میں ایون فیلڈ اپارٹمنٹس شریف خاندان کی ملکیت ہیں جسے حسین نواز نے تسلیم بھی کرلیا تھا، اس کے بعد سوالات اٹھنے لگے کہ یہ فلیٹس شریف خاندان کی ملکیت میں کب اور کیسے آئے؟ اور اس کی منی ٹریل کہاں ہے؟ لیکن اس کا آج تک کوئی جواب نہیں ملا، اب8 سال بعد پاناما سے جڑے کیسز سے ختم تو ہوگئے ہیں لیکن سوالات اب بھی قائم ہیں یہ سوالات ہمیشہ شریف خاندان کا پیچھا کرتے رہیں گے ایک نہ ایک دن سچائی سب کے سامنے آکررہے گی قوم کو افسوس تو اس بات کاہے کہ عوام نے جس شخص کو 3مرتبہ وزیر اعظم بنایا، اس سے بے پناہ محبت کی، شریف خاندان کا بچہ بچہ اقتدارکے مزے لیتا رہا، اس نے سچ بولنا گوارا نہیں کیا۔ دنیا میں شاید کسی اور خاندان کی مثال پیش نہیں کی جاسکتی جس میں دو بھائی وزرائے اعظم اور ان کی اولادیں وزیر ِ اعلیٰ پنجاب منتخب ہو چکی ہوں، وہ سچائی بتانے سے گریز کریں ۔قوم کو ادھورے سچ قبول نہیں۔پانامہ اسکینڈل ہو یا پھرکوئی اور معاملہ سب حکمرانوں کو سچ سچ بتاناہوگا ۔اس کے بغیر ان کے کردار پر جو کالک لگی ہے، اسے کبھی نہیں دھویا جاسکے گا۔
٭٭٭