نظام کو بچا لیا گیا ہے!
شیئر کریں
حمیداللہ بھٹی
آٹھ فروری کے انتخابی نتائج سے نظام کو لاحق خطرات میں کمی آئی ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ فی الوقت نظام کو بچا لیا گیا ہے تو بھی کچھ زیادہ غلط نہ ہو گا۔ مگر عیاں حقیقت یہ بھی ہے کہ نظام بچانے کی کوششوں میں عوامی عمل دخل کم ہوا ہے اور یہ کوششیںمقتدراِداروں تک محدود ہوتی جارہی ہیں جس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں درپیش نازک حالات کی وجہ سے ملک کسی نئے تجربے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے نظام کو بچایا جارہاہے ۔عوامی محافل میں یہ سوال اکثر سُننے کو ملتا ہے کہ انتخابی نتائج سے کچھ تبدیل ہواہے ؟کیونکہ وزارتِ عظمیٰ کے منصب سے شہباز شریف اُترے تو انوارالحق کاکڑ براجمان ہو گئے ،وہ گئے تو شہباز شہبازشریف نے دوبارہ منصب سنبھال لیا۔ اِس مشق کے دوران ستر سے اسی ارب روپے خرچ ہو گئے۔ ملک کی کمزورمعاشی حالت کی بناپریہ مشق ناقابلِ فہم ہے۔ اگر یہی چہرے ناگزیر تھے تو بہتر ہوتاکہ مناسب آئینی ترمیم سے مزید چند برس اقتدار میں رہنے دیا جاتا ۔اب بھی تو ستر سے اسی ارب روپے لگا کر پُرانے چہروں کے ذریعے نظام بچایا گیا ہے۔ مناسب ترامیم سے نگرانوں کامعاشی اختیارات دینے جیسا تڑکا بھی تو لگایاہی گیاتھا۔ اگر اسمبلی بھی مزید عرصہ برقرار رہتی تو خزانے سے بھاری رقم ایک مشق کی نذر نہ ہوتی۔ جہاں تک عوام کی بات ہے تو انھیں قابو کرنا کون سا مشکل کام تھا جس طرح ایک مخصوص مکتبہ فکرکو اظہارِرائے کی آزادی پرابھی تک قدغن ہے، ایسی حکمتِ عملی سے مزید عرصہ سیاسی سرگرمیاں کنٹرول کرناسہل ہوتا اِس وقت موجودہ نظام کے بڑے مستفیدین میں مسلم لیگ ن اور پی پی ہیں اور موجودہ نظام کو بچانے میںدونوں جماعتوں کا کلیدی کردار ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اِس دوران دونوں جماعتوں کی مقبولیت متاثر ہوئی ہے جس کا اقتدار ملنے کی خوشی میں قیادت کوابھی ادراک نہیں یا پھر شاید قیادت کو مقبولیت سے زیادہ اقتدار پسند ہے۔
ماضی میں بھی انتخابی نتائج پر اعتراضات سامنے آتے رہے ہیں لیکن جس بڑے پیمانے پر آٹھ فروری کے نتائج پر انگلیاں اُٹھائی جارہی ہیں ماضی میں ایسی نظیر کم ہی ملتی ہے سرفراز بگٹی کا وزارتِ داخلہ سے انتخابات سے چند روز قبل الگ ہو کرالیکشن میں حصہ لینا اور وزیرِ اعلیٰ بلوچستان بننا،نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی کا ایوان زیریں یا ایوانِ بالا کا رُکن منتخب ہوئے بغیر وزارتِ داخلہ کا قلمدان سنبھالنا اور اب چیف الیکشن کمشنر سکندرسلطان راجہ کو کینیڈا میں سفیر لگائے جانے کی اطلاعات سے ایسے قیاسات کو تقویت ملے گی کہ موجودہ نظام کو بچانے کے لیے نتائج کو کنٹرول کیا گیا ہے ۔لہٰذا بہتر ہے کہ منصب تقسیم کرتے وقت حکمران حالات کا ادراک کریں ۔اگر اسی طرح بغیر سوچے سمجھے عہدے تقسیم کرنے کا سلسلہ جاری رہا تو نتائج میں تبدیلی کے اپوزیشن کے الزامات کو تقویت ملے گی جس سے ایسی احتجاجی تحریک کی راہ ہموار ہو سکتی ہے جن سے نظام بچانے کی کوششیں سبوتاژ ہونے کا امکان بڑھ جائے گا ۔
وزیرِ اعظم نے کابینہ کا انتخاب کرتے وقت زیادہ تر پُرانے چہروں پر ہی اعتماد کیا ہے جس پر لوگ حیران ہیں۔ اِس حیرانی کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ ماضی میں ایک سے زائد بار کابینہ کا حصہ رہنے کے باوجود کاردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکے اور جن کی وجہ سے ملک کی معاشی حالت میں گراوٹ آتی گئی انھیں ہی مسلسل آزماتے رہنا کوئی دانشمندی نہیں۔ ماضی میں ناکام رہنے والے اب خاک معجزہ دکھا سکتے ہیں ؟ موجودہ کابینہ سے وطن عزیز کومعاشی گرداب سے نکالنے کے لیے توقعات پوری ہونا دشوار ہے۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ چند خاندان مزید پانچ برس مراعات حاصل کرنے کے قابل ہو گئے ہیں صدر آصف زرداری اور وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے اپنے عہدوں کی تنخواہیں نہ لینے کا علان کیا ہے ۔یہاں مجھے ایک لطیفہ یاد آرہا ہے کسی صاحبِ ثروت نے کام کاج کے لیے ایک ملازم رکھا مگر تنخواہ طے کرتے ہوئے دونوں میں اتفاق نہیں ہورہاتھا ۔کافی دیربحث ہوتی رہی جس سے تنگ آکر ملازم نے تجویز پیش کی کہ اگر آپ گھر کا سودا سلف لانے کی ذمہ داری بھی مجھے دے دیں تو میں بغیر تنخواہ کام کرنے کوبھی تیار ہوں۔ رانجھے نے بغیر تنخواہ ہی بھینسوں وغیرہ کاخیال رکھنے کی ذمہ داری لی تھی اور پھر نیا ہی چن چڑھا دیا تھا۔ اسی لیے دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ اعلان کے مطابق ہماری قیادت کاش وعدے پورے کرے کیونکہ ملک مزید کسی حادثے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔بہتر یہی ہے کہ برسرِ اقتدار طبقہ خلوص ِنیت سے ملک کو مسائل کی دلدل سے نکالے۔ عام لوگ سخت مشکلات کا شکار ہیں مسلم لیگ ن ہو یا پیپلز پارٹی،دونوں نے انتخابی مُہم کے دوران تین سو یونٹ تک بجلی مفت دینے کے اعلانات کیے تھے ۔ضرورت اِس امر کی ہے کہ انتخابی وعدے ایفا کیے جائیں۔
انتخابی نتائج کی روشنی میں جس طرح شہباز شریف اکیلے حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکتے تھی، اسی طرح آصف زرداری کا صرف اپنی جماعت کے ووٹوں سے صدر منتخب ہو نا بھی کسی طور ممکن نہیں تھا۔ پی پی نے شہباز شریف کو وزیرِ اعظم بننے کے لیے اپنے مینڈیٹ کی بیساکھی پیش کی تو مسلم لیگ ن نے بھی جواب میں ایوانِ صدر تک پہنچانے کے لیے آصف زرداری کو کندھا پیش کر دیا مگر بظاہر اتحادی دونوں جماعتیں ذمہ داریاں لینے سے گریزاں ہیں بالخصوص پی پی تو حکومتی امور سے فاصلہ رکھنے کی حکمت عملی پر عمل پیراہے اُس کی خواہش ہے کہ کل کلاں اگر سیاسی قیمت چکانے کی نوبت آئے تو اپنی جماعت کو بچالیاجائے اسی وجہ سے وہ کابینہ کا حصہ بننے سے کترارہی ہے مگر وزیر ِاعظم چاہتے ہیں کہ کسی بھی طرح پی پی کو کابینہ میں شامل کیا جائے ۔یہ ملکی سیاسی تاریخ کا انوکھا واقعہ ہے کہ شامل اقتدار جماعت اصرار کے باوجود کابینہ میں حصہ لینے پر رضا مند نہیں ہو رہی، نہ ہی دیگر سیاسی جماعتیں مزید عہدوں کا مطالبہ کررہی ہیں۔ حالانکہ ماضی میں اتحادی ہمیشہ زیادہ سے زیادہ وزارتوں کے لیے بھاگ دوڑ کرتے تھے۔ اب شاید سب کو خدشہ ہے کہ حکومت میں شامل ہو نے سے عوام متنفرہو سکتے ہیں۔ اسی لیے عہدوں سے دور رہنے میں عافیت سمجھی جارہی ہے۔ اِن حالات میں دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ جس خوش اسلوبی سے مسلم لیگ ن اور پی پی نے وزیرِ اعظم اور صد ر منتخب کرنے کے معاملے کو حل کیا ہے ۔یہ دونوں بڑی جماعتیں ملکی مسائل حل کرنے میں بھی ویسی ہی بصیرت اور حکمت کا مظاہرہ کریں ۔
نظام کوتو بچا لیا گیا ہے لیکن نظام بچاتے بچاتے کئی سیاسی جماعتیں خطرات کی زد میں ہیں۔ نواز شریف کو وزیرِ اعظم بنانے کے لیے بڑے طمطراق سے واپس وطن لایا گیا۔ ابتدامیں دوتہائی اکثریت حاصل کرنے اور حکومت بنانے کے دعوے بھی کیے گئے مگر انتخابی نتائج نے سیاسی صورتحال ہی یکسر بدل دی ہے۔ اکثریت تو ایک طرف سادہ اکثریت بھی نہیں مل سکی بلکہ کئی ایک جماعتوں کو ساتھ ملا کر حکومت تشکیل دی گئی ہے اور وزیرِ اعظم بننے کی آس لے کر آنے والے نواز شریف کوحکومتی منصب تو نہیں مل سکا ۔بس اتنا فائدہ ہوا ہے کہ اُن کی تصویر دس کلو کے آٹے پر لگ گئی ہے۔ اسی لیے سیاسی جماعتوں کو سوچ سمجھ کر کام کرنا ہو گا۔ عوام باشعور ہیں اوروہ ووٹ دیتے وقت کارکردگی پیشِ نظر رکھتے ہیں۔اگر اب بھی پی ڈی ایم حکومت کی طرح سبسڈی کا خاتمہ اور گرانی کا تمام تر بوجھ عام آدمی کی طرف منتقل کرنے کا سلسلہ جاری رہاتومزید سیاسی نقصان سے بچنا محال ہے کیونکہ سیاسی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو معمول کے نہیں بلکہ حالات غیر معمولی ہیں ۔عوام میں بداعتمادی ہے نوجوانوں میں غصہ ہے جس کا علاج عوام دوستی کے دعوے کرنا نہیں بلکہ سلگتے عوامی مسائل حل کرنا ہے۔ عام آدمی کے مسائل حل کرنا ہے تو اشرافیہ کی مراعات ختم کرنا ہوں گی۔ اندرونی وبیرونی قرضوں کے علاوہ گردشی قرضوں اور توانائی کے مسائل حل کرنا ہوں گے۔ مہنگائی اور بے روزگاری پر قابوپانا ہوگا۔ وگرنہ نظام کو تو شایدمستقبل میں بھی خطرہ نہ ہو لیکن حکمران جماعتوں کی سیاست خطرات کے بھنورمیں پھنس سکتی ہے۔