اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر
شیئر کریں
زریں اختر
اس کالم کی پہلی قسط میں اوریانا فلاشی کے اندرا گاندھی سے کیے جانے والے سوالات اس کے بعد تھے جو اب میں یہاں لکھنے جارہی ہوں ۔ میں ابتدا میں ان کی ازدواجی زندگی سے متعلق لکھنا چاہ رہی تھی جو انٹرویو میں بعد میں آتاتھا۔ یہ انٹرویو کا وہ حصہ ہے جس میں اندرا ایک عورت ہے۔
اوریانا: کیا یہ سچ ہے کہ آپ کبھی شادی کرنا نہیں چاہتی تھیں؟
اندرا: ہاں، جب تک میری عمر اٹھارہ سال تھی،ہاں۔ اس لیے نہیں کہ میں عورت کے حق ِ رائے دہی کی حمایتی تھی بلکہ اس لیے ،کیوں کہ میں اپنی ساری توانائیاں ہندوستان کی آزادی حاصل کرنے کے لیے وقف کرنا چاہتی تھی ۔ شادی کے بارے میں میرا خیال تھاکہ یہ میری تمام ذمہ داریو ں پر اثرانداز ہوگی جو میں نے اٹھارکھی ہیںلیکن لحظہ بہ لحظہ میں نے اپنا ذہن تبدیل کیااور اٹھارہ سال کی عمرتک شادی کرنے کی تمام ممکنات پر نظر دوڑانا شروع کردیاتھا۔ ایک خاوندکی خواہش کے تحت نہیں بلکہ اپنے بچوں کی خواہش کے تحت۔میں ہمیشہ اپنے بچوں کی خوشی محسوس کرتی تھی ۔۔اگر یہ مجھ پر ہوتاتو میرے گیارہ بچے ہونے تھے۔یہ میرا خاوند تھا جو صرف دو بچے چاہتاتھا۔
اور میں تمہیں کچھ اور بھی بتاتی ہوں۔ڈاکٹروں نے مجھے ایک بھی بچے کی پیدائش سے منع کیاتھا۔میری صحت اچھی نہیں تھی اور ان کا کہنا تھا کہ حمل میرے لیے جان لیوا ثابت ہوسکتاتھا۔ اگر وہ مجھے ایسا نہ کہتے تو شاید میں کبھی بھی شادی نہ کرتی ۔لیکن اس تشخیص نے مجھے ہوا دی ،اس نے مجھے اشتعال دلایا۔ میں نے جواب دیاکہ ”کیوں آپ سمجھتے ہیں کہ میں شادی کرلوں اگر میرے بچے ہی نہ ہوں؟ میں یہ نہیں سننا چاہتی کہ میرے بچے نہیں ہوں گے؛میں چاہتی ہوں کہ تم مجھے بتائو کہ میں ایسا کیا کروں جس سے میرے بچے ہوں”! انہوں نے اپنے کندھے اُچکائے اور دھیرے سے کہنے لگے کہ شاید اگر میں کچھ وزن بڑھالوںتو ہوسکتاہے کہ وہ اس حوالے سے میری حفاظت کرے۔ اس قدر پتلی رہ کر میں حمل سے کامیابی سے نبرد آزما نہیں ہوپائوں گی ۔تو ٹھیک ہے،میں نے کہا، میں اپنا وزن بڑھالیتی ہوں،او رمیں نے مالشیں کروانا ، کوڈ-لیور تیل پینا اور زیادہ کھانا شروع کر دیا۔ لیکن میں ایک پائو وزن بھی نہ بڑھاپائی ۔میں نے اپنا ذہن بنایا ہوا تھاکہ جس دن میری منگنی کا اعلان کیاجائے گاتو تب تک میں موٹی ہوچکی ہوں گی مگر میں نے تو ایک پائو وزن بھی نہیں مزید بڑھایا۔ پھر میں موسوری چلی گئی جو کہ ایک صحت افزا مقام تصور کیا جاتاہے اور میں ڈاکٹروں کی تمام ہدایات بھول گئی ،اور وہاں میں نے اپنے ہی طریقوں سے اپنا وزن بڑھالیا۔جو میں آج چاہتی ہوں اس کے بالکل الٹ تب کیا۔آج مجھے پتلی رہنے کے لیے کافی محنت کرنی پڑتی ہے،بہرحال میں گزارا کرہی لیتی ہوں۔ میں نہیں جانتی، شاید تم سمجھ پائو کہ میں ایک مستقل مزاج عورت ہوں۔
اوریانا: ہاں، میں یہ بات سمجھتی ہوں، اور اگر میں غلطی پر نہیں ہوں تو آپ نے شادی کرنے کے لیے بھی اسی خصوصیت کا استعمال کیاتھا۔
اندرا: ہاں یقینا۔کوئی بھی اس شادی کے حق میں نہیں تھا،کوئی بھی نہیں۔ یہاں تک کہ مہاتما گاندھی بھی اس پر خوش نہیں تھے۔ جہاں تک میرے والد کا تعلق ہے۔۔ یہ سچ نہیں کہ وہ اس شادی کے مخالف تھے جیساکہ لوگ کہتے ہیں، لیکن ہاں وہ اس کے لیے پُر جوش بھی نہیں تھے۔ اس حوالے سے میرا اندازہ ہے کہ اکلوتی بیٹی کے تمام والد یہی چاہتے ہیں کہ ان کی بیٹی کی شادی جتنا ہوسکے دیر سے ہو۔ جو بھی ہو لیکن میں اسی بات کو وجہ ماننا چاہتی ہوں۔ میرامنگیتر، جیساکہ تم جانتی ہوکسی دوسرے مذہب کا پیروکارتھا۔ وہ پارسی تھا، اور یہی وجہ تھی کہ کوئی بھی اس شادی کے حق میں نہیں تھا،سارا انڈیا ہمارے خلاف تھا۔ لوگوں نے گاندھی کو خطوط بھیجے ، میرے والد کو اور مجھے بھی بھیجے۔ جن میں ذلیل کرنے کی باتیں اور موت کی دھمکیاں تھیں۔ ہرروز ڈاکیا لدا پھندا آتا اور ہمارے فرش پر خطوط کے ڈھیر چھوڑ جاتا۔ حتیٰ کہ ہم نے انہیں پڑھنا چھوڑ دیا؛ ہم نے کچھ دوستوں کی ذمہ داری لگائی کہ وہ انہیں پڑھ کر ہمیںبتائیںکہ ان میں کیا لکھاہوا ہے”ایک ایسا شخص ہے جو تم دونوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرنا چاہتاہے ۔ایک آدمی ہے جو تم سے شادی کرنے کے لیے تیار ہے حالانکہ اس کی ایک بیوی پہلے بھی ہے۔وہ کہتاہے کہ چلو کم از کم وہ ایک ہندو تو ہے”۔ایک ایسا وقت آیا کہ مہاتما گاندھی بھی شکوک و شبہات کی لپیٹ میں آگئے ۔۔میں نے ایک کالم پڑھا جو انہوں نے اپنے اخبار میں لکھاتھا،جس میں انہوں نے لوگوں سے التماس کی وہ اسے سکون سے رہنے دیںاور تنگ ذہنی کی طرف مت دھکیلیں۔ہر قسم کے حالات کے باوجود میں نے مسٹر فیروز گاندھی سے بیاہ رچالیا۔جب میرے ذہن میں کوئی بات بیٹھ جائے تو کوئی بھی اسے نکال نہیں سکتا۔
اوریانا: مسز گاندھی ، آپ کے خاوند کچھ سال قبل وفات پاچکے ہیں ۔ کیا آپ نے کبھی دوبارہ شادی کے لیے سوچاہے ؟
اندرا: نہیں ،نہیں۔ شاید میں ایسا سوچ لیتی اگر میں کسی ایسے شخص سے ملی ہوتی جس کے ساتھ رہنا میں پسند کرتی ۔لیکن میں کسی ”ایسے” شخص سے نہیں ملی ہوںاور …نہیں، حتیٰ کہ میں ایسے شخص سے ملی بھی ہوتی تو مجھے یقین ہے کہ میں شادی کا فیصلہ نہ کرتی۔ کیوںمیں دوبارہ شادی کروں جب کہ میری زندگی بھرپورہے؟ نہیں، نہیں، اس کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اوریانا: اس کے لیے میں آپ کو ایک گھریلو بیوی کے طور پر تصور بھی نہیں کرسکتی۔
اندرا: تم غلط ہو!اوہ، تم غلطی پر ہو!میں ایک مکمل گھریلو بیوی تھی ۔ ایک ماں ہونا ہمیشہ میرے لیے ایک پسندیدہ کام رہاہے۔ یقینا۔ ایک ماں اور ایک بیوی ہونے کے لیے بھی مجھے قربانی نہیں دینا پڑی۔۔میں نے ان برسوں کے ہر منٹ کا مزہ اُٹھایاہے۔ میرے بیٹے ۔۔میں اپنے بیٹوں کے لیے پاگل تھی اور میرے خیال میں ان کی تربیت کرکے میں نے ایک شاندار معرکہ سرانجام دیاہے۔آج اسی لیے وہ دو اچھے اور سنجیدہ مرد ہیں۔ نہیں، میں ایسی عورتوں کو بھی سمجھ نہیں پائی ہوں جو بچوں کی پرورش کو ایک بار سمجھتی ہیںاور ان کی وجہ سے زندگی کی دوسری مصروفیات سے منہ موڑ لیتی ہیں۔ دونوں کاموں کو ایک دوسرے سے منسلک کرنا کوئی زیادہ مشکل کام نہیں ہے اگر آپ اپنے وقت کو ذہانت سے تقسیم کرلیں۔حتیٰ کہ جب میرے بیٹے چھوٹے تھے تب بھی میں کام کرتی تھی ۔ میں تب بھی ایک انڈین کونسل کے لیے کام کرتی تھی جن کا مقصد انڈیا کے بچوں کے حقوق کا تحفظ اور بحالی تھا۔ میں تمہیں ایک کہانی سناتی ہوں۔راجیو اس وقت صرف چار سال کاتھااوراسکول میں فقط کھیل کود کے لیے جاتاتھا۔ایک دن اس کے چھوٹے دوستوں میں سے ایک کی ماں ہمارے گھر آئی اور خوشامدی آواز میں مجھ سے کہنے لگی ”اوہ، یہ یقینا ایک دکھ بھر ی بات ہوگی کہ تمہارے پاس اپنے چھوٹے بچے کے لیے وقت نہیں ہوتاہوگا!” راجیو شیر کی طرح دھاڑا ”میری ماں میرے ساتھ اس سے زیادہ وقت گزارتی ہے جتنا تم اپنے بچوں کے ساتھ گزارتی ہو!وہ مجھے بتاتا ہے کہ تم اکثر اسے تنہاچھوڑ جاتی ہوتاکہ تم تاش کھیل سکو!”میں ایسی عورتو ں سے نفرت کرتی ہوں جو کچھ نہیں کرتیں بس تاش کھیلتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔