میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سوال یازوال

سوال یازوال

ویب ڈیسک
منگل, ۵ مارچ ۲۰۲۴

شیئر کریں

سمیع اللہ ملک
قیام پاکستان کے دوران مختلف تعلیمی اداروں اوران کے سربراہوں سے ملنے کااتفاق ہوا۔عجب معاملہ تویہ ہے کہ ہرکوئی تعلیم کے مستقبل پرجہاں انتہائی پریشان دکھائی دیاوہاں ابھی تک ہم یہ فیصلہ ہی نہیں کرپائے کہ ہم اپنی قوم کے نوجوانوں کی موجودہ سمت کاتعین تک نہیں کرسکے۔آپ دل پرہاتھ رکھ کربتائیں،بی ای،بی کام،ایم کام،بی بی اے،ایم بی اے، انجینئرنگ کے سینکڑوں شعبہ جات میں بے تحاشہ ڈگریاں اوراس کے علاوہ چارچارسال تک کلاس رومزمیں ماسٹرزڈگریوں کیلئے خوارہوتے لڑکے لڑکیاں کون ساتیرماررہے ہیں؟ ماسوائے اس کے کہ ہم صرف دھرتی پر”ڈگری شدہ”انسانوں کے بوجھ میں اضافہ کررہے ہیں۔یہ تمام ڈگری شدہ نوجوان ملک کو ایک روپے تک کی پروڈکٹ دینے کے قابل نہیں ہیں۔ان کی ساری تگ ودواورڈگری کاحاصل محض ایک معصوم سی نوکری ہے اوربس۔
نجانے مجھے کیوں آج جنوبی افریقاکی ایک یونیورسٹی پرآویزاں چشم کشاکتبہ یادآگیاکہ” کسی قوم کوتباہ کرنے کیلئے ایٹم بم اوردورتک مارکرنے والے میزائل کی ضرورت نہیں بلکہ اس کے نظام تعلیم کامعیارگرانے کیلئے طلبہ وطالبات کوامتحانات میں نقل کی اجازت دے دووہ قوم خودتباہ ہوجائے گی۔اس ناکارہ نظام تعلیم سے فارغ التحصیل ہوکرنکلنے والے ڈاکٹروں کے ہاتھوں مریض مرتے رہیں گے، انجینئرکے ہاتھوں عمارتیں تباہ ہوتی رہیں گی،معیشت دانوں کے ہاتھوں مالی وسائل ضائع ہوتے رہیں گے،مذہبی رہنماؤں کے ہاتھ فرقہ واریت، اتحادواتفاق اورانسانیت تباہ ہوتی رہے گی،ججزکے ہاتھوں انصاف کاقتل ہوتارہے گا۔اس لیے یہ کہا جاتاہے کہ نظام تعلیم کی تباہی پوری قوم کی تباہی قرار پاتی ہے”۔
یونیورسٹی کے دروازے پرآویزاں اس تحریرکی حقانیت اور سچائی سے کون انکارکرسکتاہے ۔بالخصوص ہم پاکستانی قوم کی تباہ حالی اورہرشعبہ ہائے زندگی میں مسلسل گراوٹ کاجائزہ لیں توبات سمجھ آجاتی ہے کہ ہمارانظام تعلیم ہی اس معاشی گراوٹ اور ذہنی پستی کاذمہ دارہے۔پورے ملک میں نقل مافیاکی لعنت نے اس مضبوطی سے پنجے جمائے ہوئے ہیں کہ مقامی انتظامیہ اس پرقابوپانے کے بجائے اس نمک کی کان میں نمک بن چکی ہے۔اب توپنجاب اورسندھ میں امتحانات سے پہلے ہونیوالے پرچے آؤٹ ہونے کی اطلاعات بھی میڈیا میں شائع ہوچکی ہیں لیکن ابھی تک اس کے تدارک کی کوششیں صرف بیانات تک محدودہیں۔مصدقہ ہوش ربارپورٹ کے مطابق ملک بھرمیں آدھے سے زیادہ ڈاکٹربننے والے نقل مافیاکی بدولت امتحان پاس کرکے ہسپتالوں کارخ کرتے ہیں اوریہی وجہ ہے کہ آئے دن ان ناتجربہ کاراورنالائق ڈاکٹروں کے ہاتھوں انسانی اموات کی خبریں عام ہوگئی ہیں اوربھولی بھالی عوام اپنے مریضوں کی اموات کوقدرت کاشاخسانہ سمجھ کرصبروشکرکے ساتھ ان انسانی مجرموں کامحاسبہ کرنے سے بھی قاصرہے۔
اگرآج پاکستان انتظامی اورحکومتی سطح پربدترین نااہلیت کاشکارہے تواس کی وجہ نظام تعلیم کی ناکامی،نقل کی بہتات اورجعلی ڈگریاں ہیں۔اس بہتی غلیظ گنگامیں ہاتھ دھونے میں صرف ڈاکٹرز،انتظامی افسران اورسیاستدان ہی شامل نہیں بلکہ نقل مارکرپاس ہونے والے ہمارے انجینئرزبھی شامل ہیں۔تعلیمی پستی کایہ حال ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں کا فارغ التحصیل گریجویٹ انگلش اوراردومیں نوکری کی درخواست بھی نہیں لکھ سکتالیکن رشوت اورتگڑی سفارشوں کے ساتھ سرکاری بڑے عہدوں پرفائزان کی کارکردگی نے ملک کے ہرمحکمے کاستیاناس کرکے رکھ دیاہے۔
معیشت کی بدحالی بھی ایسے ہی نااہل معیشت دانوں کی ذہانت کی عکاس ہے۔اس کتبہ میں لکھی ہوئی تحریرمیں مذہبی رہنماؤں کے کردارسے صاف متنبہ کیاگیاہے اورہم اس کی بدترین شکل پاکستانی معاشرے میں ہرجگہ اورہرمقام پردیکھ رہے ہیں۔ہمارے وہ مذہبی رہنماجوملین مارچ کی دھمکیوں سے ملک کے برج الٹ دینے کے دعوے کرتے تھے،ان انتخابات میں عوام نے ان کوخوب آئینہ دکھا دیاہے اوراپنی اس ناکامی کوذمہ داردوسرے اداروں کوقراردیکرقوم کوایک مرتبہ پھردھوکہ دیاجارہاہے۔یہ مذہبی رہنماؤں کی ناکامی ہی تو ہے کہ ہم آخرت کے خوف سے بے بہرہ ہوکراس قدرگناہوں کی دلدل میں پھنسے اخلاقی پستی اورملاوٹ کے عادی ہوچکے ہیں کہ یہاں پانی سمیت کوئی بھی چیز خالص نہیں ملتی۔سرخ مرچوں میں اینٹوں کابرادہ ڈال کرانسانی جانوں کوہلاک کیاجارہاہے،دودھ کے نام زہریلا کیمیکل فروخت کیاجارہا ہے،دانستہ سیوریج اور کیمیکل ملے پانی میں سبزیاں اُگا کر انسانی معدوں کوبرباد کیاجارہاہے،یہاں خربوزوں اور دیگر فروٹ کومیٹھاکرنے کیلئے سکرین کے انجکشن لگائے جاتے ہیں،کٹے ہوئے تربوزکوفروخت کرنے کیلئے مصنوعی سرخ رنگ کیاجاتاہے،مردہ جانوروں کی چربی پگھلاکرکوکنگ آئل بنایااورہوٹلوں میں استعمال بھی کیاجاتاہے۔شایدہی کسی بیکری میں گندے انڈے اورحفظان صحت کا خیال رکھا جاتاہو ۔ میڈیکل اسٹورزپرفروخت ہونے والی کسی دوائی کے بارے میں یقین سے نہیں کہاجاسکتا کہ وہ خالص ہے، ڈاکٹر انسانیت کوبھول کرپیسہ کمانے والی مشین بن چکے ہیں۔نیا پاکستان ہویاپرانایہاں ہروہ برائی،ملاوٹ،کرپشن،رشوت ستانی،نقل ستانی،جعلی ڈگریوں کا کاروبارعروج پرہے،اس ماحول میں بھلایہ معاشرہ کیسے ایک اصلاحی معاشرہ بن سکتا ہے۔پاکستان کے سرکردہ لوگ یاتونااہل ہیں یا کرپٹ ہیں،دیانت دارلوگ دوردورتک دکھائی نہیں دیتے اورنئے منتخب افراداپنی اپنی قیمت پردیگرجماعتوں کے پٹے اپنے گردن میں ڈال کراپنی وفاداری کااعلان کررہے ہیں۔
حاجیوں کی تعدادکے لحاظ سے پاکستان دنیامیں دوسرے نمبرپراورعمرہ کرنے والوں کی تعداد کے لحاظ سے پہلے نمبرپرہے جبکہ دنیا بھرمیں ایمانداری کے انڈکس کے مطابق پاکستان کا160نمبر ہے۔ورلڈجسٹس پراجیکٹ کی سالانہ رپورٹ میں پاکستانی عدالتی نظام کو قانون کی حکمرانی کی پابندی کرنے والے ممالک میں سب سے نچلے نمبر139ممالک میں سے130ویں نمبرپررکھاگیاہے۔1500یونٹ کو 500 یونٹ لکھنے والارشوت خورمیٹرریڈر،خالص گوشت کے پیسے وصول کرکے ہڈیاں بھی ساتھ تول دینے والاقصائی،خالص دودھ کا نعرہ لگاکرملاوٹ کرنے والادودھ فروش،بے گناہ کی ایف آئی آرمیں دومزید ہیروئین کی پڑیاں لکھنے والا انصاف پسندایس ایچ او،گھر بیٹھ کر حاضری لگواکرحکومت سے تنخواہ لینے والامستقبل کی نسل کامعماراستاد،کم ناپ تول کرپورے دام لینے والادوکاندار،100روپے کی رشوت لینے والاعام معمولی ساسپاہی،معمولی سی رقم کیلئے سچ کوجھوٹ اورجھوٹ کوسچ ثابت کرنیوالاوکیل،سوروپے کے سودے میں دس روپے غائب کردینے والابچہ،آفیسرکیلئے رشوت میں سے اپناحصہ لے جانے والامعمولی ساچپڑاسی،کھیل کے بین الاقوامی مقابلوں میچ فکسنگ کرکے ملک کا نام بدنام کرنیوالاکھلاڑی،ساری رات فلمیں دیکھ کرسوشل میڈیاپرواہیات اورجھوٹ پرمبنی پروپیگنڈے کوآگے بڑھانے والااورفجرکواللہ اکبر سنتے ہی سونے والانوجوان،کروڑوں کے بجٹ میں غبن کرکے دس لاکھ کی سڑک بنانے والاایم پی اے اورایم این اے، لاکھوں غبن کرکے دس ہزار کے ہینڈ پمپ لگانے والاجابر ٹھیکدار،ہزاروں کاغبن کرکے چندسومیں ایک نالی پکی کرنے والاضمیرفروش کونسلر، غلہ اگانے کیلئے بھاری بھرکم سود پہ قرض دینے والا ظالم چودہری،زمین کے حساب کتاب وپیمائش میں کمی بیشی کرکے اپنے بیٹے کوحرام مال کا مالک بنانے والا پٹواری اورریونیوآفیسر،ادویات اورلیبارٹری ٹیسٹ پر کمیشن کے طورپرعمرہ کرنے والے ڈاکٹر،اپنے قلم کوبیچ کرپیسہ کمانے والا صحافی،منبررسول پربیٹھ کردین کے نام پرچندے اور نذرانے والے مولوی اورپیرصاحبان!اورہرکوئی سوشل میڈیاکوبغیرتحقیق کے بے تحاشہ استعمال کرکے خود کوبری الذمہ سمجھتا ہے ،اس دورمیں اگرہم پرنئے اورپرانے پاکستان کی گردان کرنے والے سیاستدان مسلط ہیں، تویہ ہمارے اعمال کی سزانہیں تواورکیاہے؟
حقیقت یہ ہے کہ ٹیوٹا،ڈاہٹسو،ڈاٹسن،ہینو،ہونڈا،سوزوکی،کاواساکی،لیکسس،مزدا،مٹسوبیشی،نسان،اسوزواوریاماہایہ تمام برانڈز جاپان کی ہیں جبکہ شیورلیٹ،ہونڈائی اورڈائیوو جنوبی کوریابناتاہے۔ان برانڈزکے بعدآخردنیامیں اورکون سی آٹوموبائلزہیں جن کا دنیا میں چرچاہے۔ آئی ٹی اورالیکٹرونکس مارکیٹ کا حال یہ ہے کہ سونی سے لے کرکینن کیمرے تک سب کچھ جاپان کے پاس سے آتاہے اور اب کافی حدتک چین دنیاکی مارکیٹ پرچھایاہواہے۔ایل جی اورسام سنگ جنوبی کوریاسپلائی کرتاہے۔2014میں سام سنگ کا ریونیو 305 بلین ڈالرز تھا۔”ایسرلیپ ٹاپ”تائیوان بناکربھیجتاہے جبکہ ویت نام جیساملک”ویت نام ہیلی کاپٹرزکارپوریشن”کے نام سے دنیا بھرمیں ہیلی کاپٹرزاور جہازبنارہاہے۔محض صرف ہوا،دھوپ اورپانی رکھنے والاسنگاپوردنیاکی آنکھوں کوخیرہ کررہاہے اورکیلیفورنیامیں تعمیر ہونے والا اسپتال بھی اپنے استعمال کاساراسامان اورآلات چین سے منگوارہاہے۔دورنہ جائیں،خداکویادکرنے کیلئے تسبیح اورجائے نماز تک ہم خدا کونہ ماننے والوں سے خریدنے پرمجبورہیں۔حرمین کی تمام تجارتی مارکیٹیں اس بات کی گواہ ہیں کہ زائرینِ حرم کی کثیرتعداداپنے سروں پرٹوپیاں،ہاتھ میں تسبیح اورحرم میں نمازپڑھنے کیلئے ساتھ لے جانے والامصلیٰ خداکو نہ ماننے والے ممالک سپلائی کررہے ہیں۔
دنیا کے تعلیمی نظاموں میں پہلے نمبرپرفن لینڈ،دوسرے نمبرپرجاپان اورتیسرے نمبرپرجنوبی کوریاہے۔انہوں نے اپنی نئی نسل کا رخ ”ڈگریوں” کے پیچھے بھاگنے کی بجائے انہیں ”ٹیکنیکل”تعلیم کی طرف کردیاہے،آپ کوسب سے زیادہ ایلیمنٹری اسکولزان ہی ممالک میں نظر آئیں گے جس کے نتیجے میں نہ صرف ان ممالک کی معیشت دنیاکی منڈیوں پر چھاگئی ہے بلکہ ان ممالک کے ماہرین مغرب سمیت امریکا کے اہم ادارے ان سے استفادہ کررہے ہیں۔وہ اپنے بچوں کاوقت کلاس رومزمیں بورڈزکے سامنے ضائع کرنے کی بجائے حقائق کی دنیامیں لے جاتے ہیں۔ایک بہت بڑاووکیشنل انسٹیٹیوٹ اس وقت سنگاپورمیں ہے اوروہاں بچوں کاصرف 20 فیصد وقت کلاس میں گزرتا ہے باقی 80 فیصد وقت بچے اپنے اپنے شعبوں میں آٹوموبائلزاورآئی ٹی کی چیزوں سے کھیلتے گزارتے ہیں۔
دوسری طرف آپ ہمارے تعلیمی نظام اورہمارے بچوں کاحال ملاحظہ کریں۔آپ دل پرہاتھ رکھ کربتائیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور اس کا قصوروارکون ہے؟ہم اس قدر”وژنری ” ہیں کہ ہم لیپ ٹاپ اسکیم پرہرسال200ارب روپے خرچ کررہے ہیں لیکن لیپ ٹاپ کی انڈسٹری لگانے کوتیارنہیں ہیں۔آپ ہمارے”وژنری پن”کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ پوری قوم سی پیک کے انتظارمیں صرف اس لئے ہے کہ ہمیں چائناسے گوادرتک جاتے2000کلومیٹرکے راستوں میں ڈھابے کے ہوٹل اورپنکچرکی دوکانیں کھولنے کو مل جائیں گی اورہم ٹول ٹیکس لے لے کربل گیٹس بن جائیں گے اوراس خوش فہمی میں مبتلاہیں کہ اس طرح ہم جہاں ملکی قرضے اتارنے کے قابل ہوجائیں گے وہاں ہم معاشی طور پراپنی قوم کی تقدیرسنوارنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔اوپرسے لیکرنیچے تک کوئی بھی اٹیکنالوجی ٹرانسفر کروانے میں دلچسپی نہیں رکھتاہے۔
آپ فلپائن کی مثال لے لیں۔فلپائن نے پورے ملک میں”ہوٹل مینجمنٹ اینڈہاسپٹیلٹی”کے شعبے کوترقی دی ہے۔اپنے نوجوانوں کو ڈپلومہ کورسزکروائے ہیں اوردنیامیں اس وقت سب سے زیادہ ڈیمانڈفلپائن کے سیلزمینز/گرلز،ویٹرزاورویٹرسزکی ہے یہاں تک کہ ترقی یافتہ ممالک کے بیشتربڑے اداروں نے اپنے کال سینٹرزوہاں کھول رکھے ہیں جواس وقت ان ملکوں کی معیشت کوبڑھانے کیلئے ان کی مارکیٹنگ کررہے ہیں حتی کہ ہمارادشمن بھارت تک ان تمام شعبوں میں بہت آگے جاچکاہے۔آئی ٹی انڈسٹری میں سب سے زیادہ نوجوان ساری دنیامیں بھارت سے جاتے ہیں جبکہ آپ کودنیاکے تقریباہرملک میں بڑی تعداد میں بھارتی لڑکے لڑکیاں سیلزمینز،گرلز،ویٹرزاور ویٹرسزنظرآتے ہیں۔پروفیشنل ہونے کی وجہ سے ان کی تنخواہیں بھی پاکستانیوں کے مقابلے میں دس دس گنازیادہ ہوتی ہیں۔
جن قوموں نے علم کی قدرکی وہ آج خوشحال ونہال ہیں۔ہمیں علم پرجوتوجہ دینی چاہئے تھی،وہ کرپشن،ایک دوسرے کوغداراوربددیانت کہنے پرصرف کردی جس کے نتیجے میں آج تک ہم علم کوعام نہ کرسکے اورتعلیمی ادارے بھوتوں کے اڈے صفرنتائج کے ساتھ ہماری بربادی کا ڈھول پیٹ رہے ہیں۔اگرتعلیمی بجٹ میں وافرحصہ مختص کرکے عام تعلیم کوعام کیا گیا ہوتاتوآج اس ملک میں کب کا حقیقی جمہوری انقلاب آچکا ہوتا۔اس سے بڑھ کراورستم ظریفی کیاہوگی کہ مسلمان ہوتے ہوئے ہمارے ہاں تعلیم کے مدارس الگ الگ ہیں۔ تاریخ شاہدہے کہ عالم اسلام اس وقت تک دنیاپرعلمی راج کرتارہاجب تک اس کے ہاں تعلیمی ادارے دونہیں ایک تھے۔ایک ہی ادارے سے دنیابھرکے جملہ علوم پردسترس رکھنے والے طلبامیدانِ عمل میں اپنے جوہردکھانے کیلئے ہماری روشن تاریخ کاحصہ بنے جن کی تحقیقات سے استفادے کی گواہی مغرب کی یونیورسٹیوں میں ان کے مجسمے اوروہاں کی لائبریریوں میں ان کی کتابیں موجودہیں۔اس کی ایک مثال بغدادکامدرسہ نظامیہ ہے جوہارون الرشیدکے عہد میں قائم ہوااوروہاں سے ابن الہیشم اورابن رشدجیسے سائنسدان فارغ التحصیل ہوئے جوعالم دین بھی تھے۔ ایک خاص سازش کے تحت ہمارے تعلیمی اداروں کوتقسیم کرکے ایک دوسرے سے الگ کردیا گیااورجب سے ہمارے تعلیمی ادارے دوہوئے،ہمارے ہاں دین سے سیاست جدا ہو گئی اورچنگیزی باقی رہ گئے اوریہ چنگیزیت مختلف خوفناک روپ دھارکرمسلم امہ میں نافذہوچکی ہے۔ہم دوطرح کے تعلیمی اداروں کورواج دے کردنیاکودین سے آزادکررہے ہیں ۔اگرچہ یہ ایک حیرتناک تجویزہے مگراس کی آزمودہ مثال ہماری سنہری تاریخ میں موجودہے۔
یہ توایک نکتہ نظرتھالیکن دوسری طرف ہم نے موجودہ ملکی نظام تعلیم کی کیادرگت بنادی ہے۔اس وقت سب سے بڑادولت کمانے والا کاروبارموجودہ تعلیمی ادارے بن چکے ہیں اور ملک بھرمیں کھلنے والی یونیورسٹیوں اورکالجزنے بھاری فیس کے نام پرڈگریوں کی تقسیم کا
سلسلہ شروع کرکے ایک دوسرے پرسبقت لے جانے کامذموم مکروہ دھندہ شروع کررکھا ہے ۔اپنے اپنے ادارے کے بہترین نتائج کیلئے باقاعدہ طورپرامتحانات میں پوچھے جانے والے سوالات اورطلبا کے بیٹھنے کے بورڈزکی خریداری کیلئے کروڑوں روپے کے اخراجات کادرپردہ کاروبارجاری ہے اورنتائج موصول ہونے پرلاکھوں روپے صرف کرکے میڈیامیں تشہیرکیلئے اشتہارات شائع کرواکے باقاعدہ آئندہ آنے والی نسل سے اس کی قیمت وصول کی جاتی ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ آج بھی ہماری70فیصدآبادی دیہات میں رہتی ہے۔ان کیلئے اول توضرورت بھرسکول موجودہی نہیں، اگرہیں توان کی صورتحال عبرت انگیزہے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ مرکزی اورصوبائی حکومتیں مل کرایک وسیع تعلیمی کمیشن بنائیں جوانقلابی بنیادوں پرکام کرے اورتعلیم کوپورے ملک میں عام کرے۔پرائیویٹ سیکٹرمیں اگر تعلیمی ادارے کام کررہے ہیں توانہیں مادرپدرآزادنہ چھوڑاجائے۔تعلیمی نصاب کامکمل جائزہ لیاجائے اورسرکاری اداروں میں یکساں نصاب تعلیم رائج کیاجائے۔فیسیں مناسب مقررکی جائیں۔اسٹاف کی صلاحیت اورمعیارکاجائزہ لیاجائے کیونکہ اکثروبیشترسکول صرف پیسے بٹوررہے ہیں۔اساتذہ کوتنخواہ کچھ دیتے ہیں اور دستخط زیادہ پرکراتے ہیں اورسب سے ضروری بات یہ کہ فوری طورپرٹیکنیکل تعلیم کے اداروں کاایک منظم جال بچھایاجائے جہاں ہماری نوجوان نسل کوہنرمندبناکرملک وقوم اوردنیابھرکیلئے ایک اثاثہ بنایا جائے اوراس کے ساتھ ساتھ ہمارے چھوٹے بڑے تعلیمی اداروں میں نظریہ پاکستان کوباقاعدہ ایک مضمون کادرجہ دیاجائے۔
ہمارے ہاں پولیس کی طرح اساتذہ بھی اکثرسفارش پررکھے جاتے ہیں۔یہ سفارش کون کرتے ہیں،سب کوخبرہے۔یہی وجہ ہے کہ دیہی علاقوں کے ا سکولوں میں بچوں کی جگہ بھینسیں گائیں پڑھنے جاتی ہیں۔شہروں میں جوسکول ہیں ان کی تعداد میں اضافہ توکجا،وہاں بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں کی جاتیں۔ جب تک ہم اپنے ملک میں نظریاتی اورفنی تعلیم کو عام نہیں کرتے،صالح قیادت کابھی سامنے آناممکن نہیں۔ ان ناگفتہ بہ تعلیمی حالات میں بھی بعض طلبہ بڑی بڑی ایجادات کرتے ہیں مگران کی کوئی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔ ہمارے تمام اداروں پربشمول صوبائی،قومی اسمبلیوں اورسنینٹ پراشرافیہ کامکمل قبضہ ہے اوروہ اپنے بچوں کوبیرونی ملکوں میں تعلیم دلوالیتے ہیں۔اس لئے حکمرانوں(اشرافیہ)کواس کی کوئی پرواہ نہیں کہ عوام الناس کے لئے تعلیمی مواقع کتنے اور کیسے ہیں۔ہم جانتے ہیں کہ ہرآنے والاحکمران تعلیم کوعام کرنے کااعلان توضرورکرتاہے اوراپنے بھرپورشوق کا اظہار بھی کرتاہے مگرصرف شوق سے توکام نہیں چلتا۔اگرتعلیمی اداروں کی یہی حالت رہے گی توظاہرہے جعلی سندوں ڈگریوں کی خریدوفروخت بھی عام ہوگی۔ہم جب تک علم،عالم اورتعلیم کی قدراورانہیں عام کرنے کیلئے باقاعدہ کوششیں نہیں کریں گے،ہمارے سارے شعبے بیمار رہیں گے۔سب سے زیادہ کام ناقص غیرمعیاری اورغیریکساں نصاب تعلیم نے خراب کیاہے۔حکومت پرائیویٹ سیکٹرپراس قدرکنٹرول رکھے کہ ان پرحکومتی تعلیمی اداروں کوگمان ہو۔چینی کہاوت ہے کہ ”اگرتم کسی کی مددکرناچاہتے ہوتواس کومچھلی دینے کی بجائے مچھلی پکڑناسکھادو”۔چینیوں کویہ بات سمجھ آ گئی ۔کاش ہمیں بھی آجائے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایاتھاکہ”ہنرمندآدمی کبھی بھوکانہیں رہتا۔”۔خدارا!ملک میں”ڈگری زدہ”لوگوں کی تعدادبڑھانے کی بجائے ہنرمندپیدا کیجئے۔دنیاکے اتنے بڑے”ہیومن ریسورس”کی اس طرح بے قدری کاجوانجام ہوناتھاوہ ہمارے سامنے ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں