ویلڈن مولانا صاحب اورچٹھہ صاحب
شیئر کریں
میری بات/روہیل اکبر
ویلڈن مولانا فضل الرحمن کیونکہ آپکے ضمیر کی آواز کے بعد کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چٹھہ بھی نیند سے بیدار ہوگئے جنکا ببانگ دہل کہنا ہے کہ ہم نے 8 فروری کی شب راولپنڈی سے 13 لوگوں کو جتوایا اور ہارے ہوئے امیدواروں کو پچاس پچاس ہزار کی لیڈ میں تبدیل کرتے ہوئے راولپنڈی ڈویژن میں نا انصافی کی ہے۔ پریشر کی وجہ سے خودکشی کرنے کی کوشش کی پھر سوچا حرام کی موت کیوں مروں؟ کیوں نا سب کچھ عوام کے سامنے رکھوں ۔ کمشنر راولپنڈی ڈویژن کے نیچے 4 اضلاع اٹک، راولپنڈی، چکوال اور جہلم کی 13 سیٹیں آتی ہیں، ان میں این اے 49اٹک سے لیکراین اے 61جہلم تک حلقے شامل ہیں۔ جہاں سے ان میںپی ٹی آئی کے امیدوارمیجر طاہر صادق (اٹک)،ایمان طاہر صادق (اٹک)،ایازا میر (چکوال)،راجہ بشارت (راولپنڈی)،شہریار ریاض (راولپنڈی)،لطاسب ستی (راولپنڈی)، فرخ سیال (راولپنڈی)،اجمل صابر (راولپنڈی)،عذرا مسعود (راولپنڈی)،سیمابہ طاہر (راولپنڈی)، حسن عدیل (جہلم) اور شوکت اقبال (جہلم)الیکشن میں حصہ لے رہے تھے۔ ان سیٹوں پر زبردستی ن لیگی امیدواروں کو جتوایا گیامگر سلام ہے اس مرد مجاہد پر جس نے اتنی بڑی جرأت و ہمت سے کام لیتے ہوئے اپنے ضمیر کے زندہ ہونے کا ثبوت دیا ۔
ا ب اس بات میں کوئی شک نہیں کہ حالیہ الیکشن میں نہ صرف دھاندلی کی گئی بلکہ تین سیاسی جماعتوں کے من پسند افراد کو جتوانے کے لیے دھاندلہ کیا گیااور جو افراد اب بھی اس دھاندلی کی حمایت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں وہی اصل میں پاکستان کے غریب لوگوں کے دشمن ہیں جن کی وجہ سے غریب خود کشیاں کررہا ہے اور لٹیرے ملکی دولت پر ہاتھ صاف کررہے ہیں۔ اس مشکل ترین الیکشن میں جب امیدواروں ،سپورٹروں اور ووٹروںکو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہوں پارٹی کو ختم کرکے انتخابی نشان تک چھین لیا گیا ہوں اور جلسے جلوسوں پر مکمل پابندی لگا رکھی ہو تو اسکے باوجود پاکستان کے عوام نے تحریک انصاف کو ریکارڈ تعداد میں ووٹ دے کر عمران خان کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے تاریخ رقم کردی اور آج بین الاقوامی میڈیا بی بی سی، سی این این، الجزیرہ نیوز تبصرے کر رہے ہیں اور عمران خان کو بین الاقوامی لیڈر تسلیم کر رہے ہیں۔ اس سے بڑی اور کیا مقبولیت ہو گی اس لیے ارباب اختیار کو چاہیے کہ پاکستان کے معاشی، سیاسی استحکام کیلئے ضروری ہے کہ عمران خان کو فوری طور پر رہا کیا جائے کیونکہ طاقت کا سر چشمہ عوام ہی ہیں اور عوام کی رائے کا احترام کیا جائے۔ جعلی مینڈیٹ کو عوام کبھی بھی تسلیم نہیں کریں گے ۔ہار جیت الیکشن کا حصہ ہوتا ہے نتائج تسلیم کرنے کا جذبہ ہونا چاہیے ۔پہلی دفعہ پاکستان کے جنرل الیکشن میں کچھ سیاست دانوں نے ہار کو خندہ پیشانی سے تسلیم کر تے ہوئے جیتنے والے امیدوار کو مبارکباد پیش کی ہے جو سیاسی ماحول کے ارتقا ، استحکام کیلئے خوش آئند بات ہے لیکن اس تمام صورتحال کے بعد اب کچھ لوگ لیاقت علی چٹھہ کے سخت خلاف ہوچکے ہیں اور اسے ذہنی مریض قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں اور ان افراد میں اتنی جرأت نہیں ہے کہ وہ الزامات کی تحقیقات تک خود کو سرکاری عہدوں سے الگ کرلیں کیونکہ اس وقت سارا مافیا خود ایکسپوز ہوگیا ہے اورتحریک انصاف کا 180 سیٹیں جیتنے والا موقف سچ ثابت ہوگیا لیکن پھر بھی ہمارا نظام انصاف اسے تسلیم نہیں کررہا اور نہ ہی الیکشن کمیشن مانے گابلکہ مجھے لگتا ہے کہ الٹا لیاقت علی چٹھہ کوہی سزا دی جائے گی الیکشن کمیشن بھی اس فیصلے کے خلاف جائے گا اور کہا جائے گا کہ الیکشن میں کمشنر کا کوئی اختیار نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی وہ ریٹرننگ آفیسر ہے لیکن حقائق یہی ہے کہ آر پی او سے لیکر ڈی پی او اور ڈپٹی کمشنر تک سب آفیسران کمشنر کے ماتحت ہوتے ہیں اسی گتھی کو پہلے مولانا فضل الرحمن نے سلجھایا تھا اور ان کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملایا جس کے بعد کمشنر راولپنڈی بھی کھل کر سامنے آئے۔ اس تمام صورتحال پر مجلس وحدت المسلمین کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس نے خوبصورت بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر نے قوم کے ٹیکسوں کے 100 ارب روپے ضائع کر دیے۔لیاقت علی چٹھہ کے ابتدائی بیان سے چیف الیکشن کمشنر کی نالائقی اور ریاست سے وفاداری مشکوک ہو گئی نگران وزیراعظم اور چیف آف آرمی اسٹاف فوری طور پر چیف الیکشن کمیشن کی گرفتاری کا حکم دیں جبکہ کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چٹھہ کا استعفیٰ اور دھاندلیوں کا اعتراف حق و سچ کی جیت ہے جبکہ چیف الیکشن کمشنر کی دھاندلیوں کے خلاف ایک ٹھوس ثبوت اور معتبر گواہ منظر عام پر آ گیا ہے۔ انتخابی نتائج کو بدلنا عوام کے ساتھ بدترین خیانت اور سنگین جرم ہے۔ ملک بھر میں جہاں جہاں بیوروکریسی کو بددیانتی پر مجبور کیا گیا سب کو اسی طرح اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے حقائق کو آشکار کرنا چاہیے۔ حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ ہم عہدوں کی بجائے ملک و قوم کے وقار اور اپنے پیشے سے دیانتداری کو مقدم رکھیں۔ کمشنر راولپنڈی کے استعفیٰ اور پریس کانفرنس کے بعد حقائق کی مکمل انکوائری ہونی چاہیے اور سیاسی استحکام، قومی ترقی کے خلاف پس پردہ متحرک طاقتوں اور سہولت کاروں سے عوام کو آگاہ کر کے انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔
آخر میں پنجاب پولیس سمیت باقی صوبوں کے جوانوں کو صرف اتنا کہوں گا کہ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی جس طرح آج خیبر پختونخواہ کے چیف سیکریٹری اور آئی جی پولیس علی امین گنڈا پور کو عزت دے رہے ہیں اس کو بس سامنے رکھیں کہ یہ وہی شخص تھا جسے سڑکوں پر گھسیٹا گیا بھرپور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کے سر سے دستار کھینچی گئی لیکن آج وہی حکم دینے والے اس کے سامنے سرنگوں ہیں۔ انتخابی دھاندلی جو اب ثابت بھی ہورہی ہے کے خلاف عمران خان کی کال پر ملک بھر میں پرامن احتجاج ہوا، لیکن لاہور پولیس نے پی ٹی آئی کے پر امن کارکنوں پر جو تشدد کی انتہا کی وہ ناقابل فراموش ہے۔ پولیس کو کسی کی دشمنی اور دوستی میں اس حد تک آگے نہیں جانا چاہیے کہ لوگوں کے دلوں میں نفرت پیدا ہوجائے۔ پر امن احتجاج کرنے والوں کو تحفظ دینا پولیس کی ذمہ داری ہے نہ کہ انہیں ایک بار پھر سے سڑکوں پر گھسیٹا جائے اور مارا جائے۔ یہ سب لوگ محب وطن پاکستانی ہیں اور انکی جان ومال کا تحفظ آپ کی ذمہ داری ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔