اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں !
شیئر کریں
جاوید محمود
آپ نے بھی سنا ہوگا کہ میرے ایک کے بائیکاٹ کرنے سے کیا فرق پڑے گا؟ جس طرح اسرائیل کے ظلم و بربریت کے خلاف اس کی اشیاء کا مسلمانوں اور انسانیت کی قدر کرنے والو ں نے بائیکاٹ کیا ،اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ میکڈونلڈز دنیا بھر میں 40 ہزار سے زیادہ ملکیتی ا سٹور ز چلانے کے لیے ہزاروں مقامی آزاد سرمایہ کاروں پر انحصار کرتاہے، ان میں تقریباً 5 فیصد مشرقی وسطی میں ہیں۔ 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد سے میکڈونلڈز کے کارپوریٹ ہیڈ کوارٹر نے اس معاملے پر خاموش رہنے کی کوشش کی۔ لیکن اس کے باوجود یہ کمپنی تنازع سے بچ نہیں سکی۔ اسرائیل کے غزہ پر حملوں کے بعدمیکڈونلڈ نے کہا تھا کہ اس نے اسرائیلی فوج تک ہزاروں کھانے کے ڈبے مفت پہنچائے ہیں۔ اس عمل کی وجہ سے غزہ میںاسر ائیل کی کاروائیوں سے برہم لوگوں نے اس برینڈ کے بائیکاٹ کا آغاز کیا۔اس کی وجہ سے مسلم اکثریتی ممالک جیسے کویت ، پاکستان اور ملائشیا میں مالکان کو لا تعلقی کا بیان جاری کرنا پڑا۔ مشہور فاسٹ فوڈ چین کے سی ای او کا کہنا ہے کہ اسرائیل غزہ تنازع کے تناظر میں مشرقی وسطی اور دیگر ممالک میں صارفین کی جانب سے بائیکاٹ مہم سے ان کے کاروبار پر معنی خیز "اثر پڑاہے۔ دوسری جانب عالمی شہرت یافتہ سٹاربکس کو 11بلین ڈالر نقصان کا سامناہے ۔ سٹاربکس نے اپنے اسٹاف میں سے ہزاروں کو نکال دیاہے ۔سٹاربکس نے تنگ آکر مہم چلائی ہے، ایک کافی کا کپ خریدیں تو دوسرا فری۔ واضح رہے اس وقت دنیا بھر میں کار بکس کے 35711 برانچیں ہیں، اس کے باوجود بائیکاٹ کی وجہ سے خسارے کی لپیٹ میں آئے ہوئے ہیں۔ جو لوگ یہ سوچ رکھتے ہیں کہ میرے ایک کے بائیکاٹ کرنے سے کیا فرق پڑے گا، اُن لوگوں کے لیے مذکورہ مثالیں کافی ہیں ۔
اس وقت دنیا بھر میں اسرائیل کی ایک درجن سے زیادہ مصنوعات مارکیٹ میں موجود ہیں اور انکا بائیکاٹ جاری ہے۔ اسرائیل کی غزہ پر جنگ کے معاشی اثرات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں اور اسرائیل کو اس کی بھاری قیمت چکانا پڑ رہی ہے ۔ اسرائیل کے مرکزی بینک نے ابتدائی اندازوں کے حوالے سے کہا کہ جنگ کے سبب اسرائیلی معیشت کو یومیہ 26 کروڑ ڈالرز کا نقصان ہو رہا ہے اور اس جنگ کی وجہ سے معیشت کو 50 ارب ڈالرز کا ہو سکتا ہے ۔ماہرین سوال کر رہے ہیں کہ کیا اسرائیل کی معیشت میں اتنادم ہے کہ وہ اکیلے اس جنگ کے اخراجات کو برداشت کر سکے ؟ کیونکہ اسرائیلی وزیر اعظم نتن یا ہو اور وزیر خزانہ بیرالیل پر عوامی دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ اسرائیل کے بجٹ پر نظر ثانی کریں، جنگ کے باعث اسرائیل کی کرنسی مشکل 2012 کے بعد کم ترین سطح پر آچکی ہے۔ بینک آف اسرائیل کے مطابق جنگ کے باعث اسرائیل کی کرنسی مسلسل اپنی قدر کھو رہی ہے ۔امریکی نشریاتی ادارے بلوم برگ کا کہنا ہے کہ جنگ شروع ہونے کے بعد امریکی ڈالر کے مقابلے میں اسرائیلی کرنسی شیکل کی قدر میں7 0-فیصد کمی ہوئی ہے ۔اسرائیل کے بانڈز اورا سٹاکس میں بھی کمی ریکارڈ کی گئی ہے جبکہ سرمایہ داروں کو خدشہ ہے کہ غزہ پر جاری جنگ علاقائی تنازع کی صورت اختیار کر سکتی ہے ۔ اسرائیل کی وزار ت افرادی قوت کا کہنا ہے کہ غزہ پر جنگ کی وجہ سے ورک فورس میں 20فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے ۔ جنگ کے باعث اسرائیل کی در آمدت اور بر آمدات متاثر ہو سکتی ہے جبکہ نتن یاہو کی اتحادی حکومت کو رواں مالی سال کے بجٹ پر شدید شکلات کا سامناہے ۔اسرائیل کی وزارت خزانہ نے بجٹ پر نظر ثانی کی ترامیم پیش کی ہیں جنہیں نتن یا ہونے منظور کر لیا ہے۔ ترامیم کے تحت اسرائیل کے جنگی بجٹ میں اضافہ کیا جارہا ہے۔ جبکہ اور وزارتوں کے بجٹ میں کمی کی جارہی ہے۔ اسرائیل کے با اثر ماہرین اقتصادیات نے حکومت کو لکھے گئے خط میں خبر دار کیا کہ حکومت اپنے بجٹ پر نظر ثانی کرے اور اس میں دفاع کو ترجیح دی جائے ۔معاشی ماہرین نے نتن یاہو کو کہا کہ وہ تمام غیر ضروری اخراجات میں کمی کریں۔ اخراجات پر نظر ثانی کریں کیونکہ کے بعد میں امداد اور بحالی کے لیے اربوں ڈالرز کی ضرورت پڑ سکتی ہے ۔ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو امریکا اور یورپ کے ساتھ ملا کر دیکھیں ،ہاں اگر اسرائیل اکیلے یہ جنگ لڑ رہا ہوتا تو شاید اب تک معیشت تباہ ہو چکی ہوتی ۔عالمی ریٹنگ ایجنسی "ایس اینڈ پی”نے حالیہ جنگ کی وجہ سے اسرائیلی معیشت میں 5فیصد کمی کا خدشہ ظاہرکیاہے۔ ریٹنگ ایجنسی نے آئندہ مہینوں میں اسرائیلی معیشت میں سست روی کا بھی امکان ظاہر کیا ہے۔ کاروباری سرگرمیوںمیں کمی ہو رہی ہے ۔ صارفین اشیا کی خریداری کم کر رہے ہیں، جس سے ڈیمانڈ میں کمی ہو رہی ہے اور سرمایہ کاری کے ماحول پر غیر یقینی کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس جنگ کی وجہ سے اسرائیل کے اسلحے کی برآمدات بری طرح متاثر ہو سکتی ہیں۔ اسرائیل اسلحے کی مجموعی برآمدات کا 5 فیصد ہیں۔ جبکہ طویل جنگ کی وجہ سے اسرائیل کی ائیرلائن صنعت بھی متاثر ہو رہی ہے کیونکہ جنگ کے بعد بڑی فضائی کمپنیوں کی اسرائیل کے لیے پروازیں متاثر ہوئی ہیں۔ جنگ کی وجہ سے اسرائیل کا قرض بلحاظ جی ڈی پی 60فیصد تک پہنچ چکا ہے جو اگلے سال تک مزید بڑھ جائیگا۔ امریکی اور یورپی یہودیوں کا بینکنگ ، معیشت اور میڈیا پر پورا کنٹرول ہے۔ مرکزی بینک نے اسرائیل کو جنگ کے لیے45 ارب ڈالرز فراہم کرنے کی منظوری دے دی ہے ۔ امریکی کانگریس نے اسرائیل کو 14 ارب ڈالرز کے امدادی پیکیج کی منظوری دی ہے۔
1948سے آج تک لڑی جانیوالی تمام جنگیں اسرائیل نے امریکا اور یورپ کے ساتھ مل کر لڑی ہیں۔ اسرائیل نے آج تک کوئی جنگ اکیلے نہیں لڑی۔ اسرائیل کی وارمشنری میں میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ اکیلے یہ جنگ لڑ سکے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں میں اتحاد کا فقدان ہے۔ اگر مسلمانوں نے اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ متحد ہو کر نہیں کیا تو المیہ ہوگا ۔بالخصوص ان حالات میں اسرائیل کے غزہ پر حملے کے بعد امریکا، یورپ اور دیگر ممالک میں انسانی جانوں کی قدر والوں نے بھی اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرکے غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کی حمایت کی۔ اس کے علاوہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف دنیا بھر میں ہر مذہب، رنگ اور نسل کے لوگوں نے لاکھوں کی تعداد میں مظاہرے کر کے اسرائیلی پالیسی سے نفرت کا اظہار کیا۔ اس وقت اسرائیلی معیشت ہچکولے کھا رہی ہے ۔ مسلمانوں کو اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ اپنا فرض سمجھ کر کرنا چاہیے۔ اسرائیل کو جنگ بندی پر مجبور کرنے کا یہ بہترین طریقہ ہے ۔