میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
رام مندر:مسلمانوں کی ایک اور آزمائش

رام مندر:مسلمانوں کی ایک اور آزمائش

ویب ڈیسک
منگل, ۱۶ جنوری ۲۰۲۴

شیئر کریں

معصوم مرادآبادی

22جنوری کی تاریخ جیسے جیسے قریب آرہی ہے ، ویسے ویسے دھڑکنیں بڑھ رہی ہیں۔رام مندر کے افتتاحی پروگرام کو کامیاب بنانے کے لیے بی جے پی نے پوری طاقت جھونک دی ہے ۔یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ رام مندر تمام ہندوستانیوں کی آستھا کا پروگرام ہے ۔سبھی جانتے ہیں کہ یہ افتتاحی پروگرام 2024 کے عام انتخابات کو نظر میں رکھ کر کیا جارہا ہے اور اس کا بنیادی مقصد ووٹوں کی فصل اگانے کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔یہ بات بھی سبھی جانتے ہیں کہ رام مندرشروع سے ہی بی جے پی کا سیاسی ایجنڈا ہے اور اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے ، لیکن ملک کے عوام کو مسلسل فریب دیا جارہا ہے کہ یہ ہندوستانی وراثت کوزندہ کرنے کی کوشش ہے ۔اس معاملے کا تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ اس میں خواہ مخواہ مسلمانوں کو گھسیٹنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔نہ صرف یہ کہ انھیں رام مندر کی حمایت کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے بلکہ انھیں اس کا ایندھن بنانے کی بھی کوششیں عروج پر ہیں۔
گزشتہ ہفتہ لکھنؤ میں دو ایسے ہندونوجوانوں کی گرفتاری عمل میں آئی ہے ، جنھوں نے مسلم ناموں سے فرضی آئی ڈی بناکر رام مندرکو اُڑانے کی دھمکی دی تھی۔ یہ میل آئی ڈی زبیر خاں اور عالم انصاری کے نام سے کیا گیا تھا، لیکن جانچ کے بعد سامنے آیا کہ یہ میل درحقیقت اوم پرکاش اور تاہر سنگھ کی نے بھیجے تھے اور ان کا مقصد مسلمانوں کو گھیرنا تھا۔اس پورے معاملے کا ماسٹر مائنڈ دیویندر تیواری بتایا جاتا ہے جس نے پچھلے دنوں حماس کے خلاف لڑنے کے لیے حکومت سے اسرائیل جانے کی اجازت مانگی تھی۔ رام مندر کے افتتاحی پروگرام سے مسلمانوں کو زبردستی جوڑنے کے لیے آرایس ایس کے ایک لیڈر نے یہاں تک کہہ ڈالا ہے کہ22جنوری کو مسلمان مسجدوں، مدرسوں، مکتبوں اور درگاہوں میں جے شری رامکا جاپ کریں۔ یہ بات آرایس ایس کی بغلی تنظیم راشٹریہ مسلم منچ کے کنوینر اندریش کمار نے کہی ہے ۔بعید نہیں کہ کچھ ضمیر اور خمیر فروش نام نہاد مسلمان اس پر عمل کرتے ہوئے اپنی تصویریں اخباروں میں شائع بھی کرائیں۔
22جنوری کو ایودھیا میں وزیراعظم کا پروگرام کامیاب بنانے کے لیے سنگھ پریوار ہی نہیں بلکہ پوری سرکاری مشنری بھی اس میں لگیہوئی ہے ۔یہ بحث الگ ہے کہ ایک سیکولر وزیراعظم کو یہ کام کرنا بھی چاہئے یا نہیں؟ مگریہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب سے سپریم کورٹ نے رام مندر کی راہ ہموار کی ہے تبھی سے وزیراعظم اس معاملے میں غیرمعمولی دلچسپی لے رہے ہیں۔ انھوں نے ہی پجاریوں اور سادھو سنتوں کے ساتھ مل کر5اگست 2020کورام مندر کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔ افتتاحی پروگرام کے موقع پر وزیراعظم رام مندر کو ہندوستانی وراثت کی سب سے بڑی علامت قرار دینا چاہتے ہیں۔اسی لیے ایودھیا نگری کو دلکش اور آرام دہ بنانے کے لیے ہزاروں کروڑ کے سرکاری منصوبوں پر کام جاری ہے ۔ وہاں بین الاقوامی ائیرپورٹ بن کر تیار ہوچکا ہے اور ملک کے تمام ہی خطوں سے ایودھیا کو ریل سے جوڑنے کا کام بھی زور وشور سے جاری ہے ۔مستقبل میں یہی ہندواحیاپرستی کا سب سے بڑا مرکزہوگا۔
پچھلے دنوں وزیراعظمنے ایودھیا میں ‘روڈ شو’کرکے وہاں ہزاروں کروڑ کی سوغاتیں بانٹیتھیں۔ اس موقع پر انھوں نے 22جنوری کو گھر گھر میں شری رام جیوتی جلانے کی اپیل کرتے ہوئے کہا تھا کہوکاس اور وراثت کی مشترکہ طاقت ہندوستان کو دنیا میں سب سے آگے لے جائے گی۔ انھوں نے 140 کروڑ ہندوستانیوں سے اپیل کی کہوہ 22جنوری کو ایودھیا آنے کی کوشش نہ کریں۔ جب ہم نے ساڑھے پانچ سو سال انتظار کیا ہے تو کچھ دن اور انتظار کرنا ہوگا۔ انھوں نے کہا نظم ونسق کے لحاظ سے ایودھیا آنے میں جلدبازی نہ دکھائیں کیونکہ شری رام کا مندر ہمیشہ رہے گا۔ بی جے پی چاہتی ہے کہ22جنوری ہندوستان کی تاریخ میں ایک یادگاردن کے طورپر درج ہوجائے ۔ ملک کی بیشتر سیاسی جماعتوں کے قائدین کو اس تقریب میں مدعو کیا گیا ہے ، تاکہ رام چندرجی سے ان کی عقیدت کا امتحان لیا جاسکے ۔ جو کوئی اس تقریب میں شریک نہیں ہوگا، اسے رام مخالف قرار دے کر الیکشن میں ہرانے کی کوشش کی جائے گی۔ بھلا رام کے احترام سے کس کو انکار ہوسکتا ہے ۔ہندوستانی اقدار میں رام چندر جی کی کوجو اہمیت حاصل ہے ، اس سے شاید ہی کوئی انکار کرسکے ۔لوگوں کو اختلاف اس طریقہ کار سے ہے جو رام مندر بنانے کے لیے اختیار کیا گیاہے ۔
کون نہیں جانتا کہ آج جہاں عالیشان رام مندر تعمیر ہوا ہے ، وہاں پہلے سولہویں صدی عیسویں کی تعمیر شدہ بابری مسجد ایستادہ تھی۔ اس مسجد کو متنازعہ بنانے کے لیے یہاں رام چندرجی جائے کی پیدائش ہونے کا پروپیگنڈہ کیا گیا۔ چوری چھپے مورتیاں رکھی گئیں۔ اس کے بعد نوے کی دہائی میں وہ خوں آشام تحریک شروع ہوئی جس نے ملک کے اندرفرقہ وارایت کا جوالا مکھی کھڑا کردیا۔6دسمبر 1992 کا دن کسے یاد نہیں۔اسی روز بابری مسجد کی شہادت کا المناک واقعہ رونما ہوا۔ پورا ملک خاک وخون میں ڈوب گیا۔معاملہ عدالت میں تھا اور ملک کی سب سے بڑی عدالت نے 9نومبر2019 کو بابری مسجدکی اراضی ہندوؤں کے سپرد کرنے کا عجیب وغریب فیصلہ سنایا۔مگرتین باتیں ایسی تھیں جن کا ذکر اس فیصلے میں بھی کیا گیا۔ اوّل عدالت نے یہ تسلیم کیا کہ بابری مسجد کسی مندر کو مسمار کرکے تعمیر نہیں کی گئی تھی۔ دویم یہ کہ بابری مسجد میں مورتیاں رکھا جانا مجرمانہ عمل تھا۔ سویم یہ کہ بابری مسجد کا انہدام ایک مجرمانہ سرگرمی تھی۔اس بات کو حال ہی میں مسلم جماعتوں نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں بھی اجاگر کیا ہے ۔تمام ہی بڑی مسلم جماعتوں نے جن میں جماعت اسلامی، جمعیة علمائ، جمعیة اہل حدیث، جمعیة اہل سنت وغیرہ شامل ہیں، کہا ہے کہ ایودھیا میں رام مندر سے متعلق مجوزہ تقاریب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوششیں باعث تشویش قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہعین انتخابات کے قریب ملک بھر میں جس طرح تقاریب منعقد کی جارہی ہیں اور جس بڑے پیمانے پر انھیں سرکاری سرپرستی فراہم کی جارہی ہے ، وہ نہ صرف ملک کے سیکولر دستور کے خلاف ہے بلکہ منصفانہ انتخابات کی روح سے بھی متصادم ہے ۔ملی جماعتوں نے ملک کے عوام اورمسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس موقع پر ملک میں امن وامان کی برقراری کے لیے ہرممکن کوشش کریں اورمسلمان خود کو مشتعل کرنے کی کوششوں کو ناکام بنائیں۔
دوسری طرف رام کے سیاسی استعمال پر کئی سیا سی پارٹیوں نے اپنے اپنے انداز میں اعتراض درج کرایا ہے ۔ شیوسینا کے ترجمان اور ممبرپارلیمنٹ سنجے راوت نے کہا ہے کہ اب صرف بھگوان رام کو امیدوار قرار دینے کا اعلان کرنا باقی ہے ۔انھوں نے پران پرتشٹھا سماروہ کے تعلق سے بی جے پی پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی نے پورے پروگرام کو نجی پروگرام بنادیا ہے ۔دوسری طرف کانگریس لیڈر ادھیر
رنجن چودھری کا کہنا ہے کہسپریم کورٹ کی طرف سے رام مندر کی تعمیر کی اجازت دینے کے بعد آہستہ آہستہ یہ سیاسی اسٹنٹ اور انتخابی حربہ بن گیا ہے ۔بائیں بازو کی جماعتوں کے لیڈران سیتا رام یچوری اور برندا کرات نے اس پروگرام میں شرکت سے انکار کردیا ہے ۔یچوری کا کہنا ہے کہ مذہب ایک نجی پسند اور ناپسند کا معاملہ ہے ، جسے سیاسی فائدے کے حصول کا ذریعہ نہیں بنایا جاسکتا۔سی پی ایم پولٹ بیورو کی رکن برندا کرات نے کہا کہ ان کی پارٹی ایودھیا کی تقریب میں شریک نہیں ہوگی۔ یہ ایک مذہبی پروگرام کو سیاست زدہ کرنے کی کوشش ہے ، جو کسی بھی طورپر درست نہیں ہے ۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایک طرف جہاں بائیں بازو کی جماعتوں کے لیڈران نے واضح طورپر پروگرام میں شرکت کا دعوت نامہ ٹھکرادیا ہے تو وہیں دوسری سیکولر پارٹیاں اس معاملے کشمکش کا شکارہیں، کیونکہ بی جے پی عدم شرکت کی صورت میں ان کے رام مخالف ہونے کا پروپیگنڈہ کرے گی جس کا انھیں الیکشن کے میدان میں نقصان اٹھانا پڑسکتا ہے ۔یہی وہ سیاسی کمزوری ہے جس نے ملک کو یہ دن دکھائے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں