میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
شاہد خاقان عباسی نے سیاسی نظام کو عریاں کردیا!!

شاہد خاقان عباسی نے سیاسی نظام کو عریاں کردیا!!

جرات ڈیسک
اتوار, ۱۴ جنوری ۲۰۲۴

شیئر کریں

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے پاکستان کے مکروہ سیاسی نظام کو ایک بار پھر عریاں کیا ہے۔ وہ تواتر سے سیاسی نظام کی خامیوں اور اس میں طاقت کے مراکز کے نازک مباحث کی نبض پر ہاتھ رکھتے دکھائی دیتے ہیں۔ گزشتہ روز لاہور میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ ”نواز شریف جس طرح اقتدار میں آ رہے ہیں، اس سے اختلاف ہے۔نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کے بغیر 100 کے بجائے 30 سیٹوں پر آ جائیں لیکن مورال ڈاؤن نہ کریں۔ سیاستدان اسٹیبلشمنٹ کے سامنے مخالفت کرکے کھڑے تو ہوں۔ بندوق پکڑنا کوئی مشکل کام نہیں، بندوق تو میں بھی رکھ سکتا ہوں، اخلاقی جرأت نہیں تو سیاست دانوں کو سیاست کرنے کا کوئی فائدہ نہیں“۔ شاہد خاقان عباسی نے طاقت کے بہاؤ پر بات کرتے ہوئے یہ واضح کیا کہ”پاکستان میں کرسی کی کوئی طاقت نہیں ہوتی، میں وزیر اعظم نہیں تھا بلکہ مجھے ملازمت دی گئی۔ اُنہوں نے پی ٹی آئی کے سابق اور مسلم لیگ نون کے اگلے ممکنہ اقتدار کا تجزیہ اس ایک جملے میں کر دیا کہ پاکستان تحریک انصاف چوری اور مسلم لیگ (ن) ڈکیتی کرکے اقتدار میں آ رہی ہے“۔
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے مذکورہ الفاظ پاکستان کے سیاسی نظام کی ایک حقیقی تصویر کشی کرتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ابھی تک پاکستان کے انتخابات کے منعقد ہونے یا نہ ہونے پر شکوک کے سائے ہیں، مگر جو بات اس کے باوجود لوگ جانتے ہیں، وہ یہ ہے کہ پاکستان کے اگلے وزیراعظم نوازشریف ہوں گے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ یہ بات عمو می طور پر لوگوں کے علم میں ہی نہیں بلکہ اب مشاہدے میں بھی آگئی ہے کہ پاکستان میں انتخابات سے لے کر وزیراعظم منتخب ہونے تک سب مخصوص نوعیت کے انتظامات کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ یہ بات اس قدر عیاں ہو چکی ہے کہ خود نون لیگ کے رہنماؤں نے گزشتہ ہفتوں میں اپنی حکومت سازی کے حوالے سے ذرائع ابلاغ پر یہ کھلے عام کہا کہ ”اُن کی بات ہو چکی ہے“۔ اس اشتہاری موقف کے پیچھے عوامی نمائندگی کی ضرورت، سیاسی موقف و منثور، جمہوریت کے تقاضے، انتخابات کے چونچلے سمیت کوئی بھی قانونی، اخلاقی یا آئینی ذمہ داری سے عہدہ برآں ہونے کا احساس تک نہیں جھلکتا تھا۔ یہ جہاں ایک شرمناک رویہ ہے وہیں مبنی ئ برحقیقت مسئلہ بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شاہد خاقان عباسی صاحب یہ فرما رہے ہیں کہ ”نواز شریف جس طرح اقتدار میں آ رہے ہیں، اس سے اختلاف ہے۔نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کے بغیر 100 کے بجائے 30 سیٹوں پر آ جائیں لیکن مورال ڈاؤن نہ کریں“۔ پاکستان کا موجودہ منظرنامہ خطرناک ”سیاسی انجینئرنگ“ کا نتیجہ ہے، جس میں تمام انتظامی، سرکاری اور ہر طرح کی مشنری نہ صرف نواز شریف کو اقتدار میں لانے کے لیے خرچ ہو رہی ہے، بلکہ عمران خان اور تحریک انصاف کا راستہ روکنے میں بھی مصروف ہے۔اب مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ بندوبست کا حقیقی مقصد کیا ہے؟ کیا نواز شریف کو اقتدار میں لانا یا پھر عمران خان کا راستہ روکنا؟ کوئی اندھا بھی یہ بات دیکھ سکتا ہے کہ نوازشریف کو لانے کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ عمران خان کا راستہ روکا جائے۔ چنانچہ یہ قیاس کرکے نوازشریف کو لندن سے پاکستان لایا گیا کہ وہ عمران خان کی مقبولیت کے بہاؤ کے آگے بند باندھ سکیں گے۔ مگر ایسا نہیں ہو سکا۔ نوازشریف اب تک مسائل کے حل کے بجائے مسائل کا حصہ نظر آتے ہیں۔ جوں جوں یہ حقیقت واشگاف ہوتی جائے گی، اُن پر انحصار کم اور سیاسی حقائق ایک بار پھر تبدیل ہونا شروع ہو جائیں گے۔ پاکستانی سیاست کی معروضی سچائی یہی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ شاہد خاقان عباسی نوازشریف کو خود پر انحصار کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔اور اُنہیں اپنے قدموں پر کھڑے ہونے کا مشورہ دے رہیں ہیں۔شاہد خاقان عباسی نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کا راز بھی واشگاف کردیا ہے کہ ”میں وزیر اعظم نہیں تھا بلکہ مجھے ملازمت دی گئی“۔ حقیقت بھی یہی ہے، نوازشریف کے نااہل قرار پانے کے بعد شاہد خاقان عباسی کو بقیہ مدت کے لیے وزیراعظم کا منصب پیش کیا گیا تھا۔ مگر حقیقی طاقت تب کے نااہل اور سبکدوش وزیراعظم نوازشریف کی پاس ہی تھی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں دراصل جاگیریں ہیں اور اس کے سربراہاں دراصل دیوتا ہوتے ہیں۔ جنہیں کوئی کہیں پر بھی چیلنج نہیں کر سکتا۔ پاکستان میں سیاسی رہنما اپنے لیے تو جمہوریت چاہتے ہیں، مگر اس جمہوریت کے ثمرات دوسروں تک پہنچنے نہیں دینا چاہتے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے اندر بدترین آمرانہ ڈھانچے رکھتی ہیں۔ جہاں سربراہ کے انتخاب سے لے کر نیچے تک ہر چیز آمرانہ انداز سے وہی چند لوگ طے کرے ہیں جو دراصل جماعتوں کو اپنے ہی ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی سمجھتے ہیں۔ خود نون لیگ ایسے ہی ایک بدترین ڈھانچے کی آئینہ دار ہے۔ چنانچہ یہ ترقی یافتہ ممالک کی جمہوریتوں کی طرح نہیں جس میں پارٹی قائد کا انتخاب حقیقی اور خاندانی تسلط سے آزاد ہو سکتا ہے، بلکہ یہ کچھ خاندانوں کی ذاتی جاگیروں کی طرح ہوتا ہے۔ جس میں شاہد خاقان عباسی ایسے لوگ کسی بھی بڑ منصب پر پہنچ جائیں وہ اصل میں اُن خاندان کی ہی ملازمت کرتے ہیں۔
شاہد خاقان عباسی نے یہی المناک سچائی ان الفاظ میں بیان کی ہے کہ ”میں وزیر اعظم نہیں تھا بلکہ مجھے ملازمت دی گئی“۔سابق وزیراعظم کے یہ الفاظ بھی انتہائی قابل توجہ ہیں کہ ”پاکستان تحریک انصاف چوری اور مسلم لیگ (ن) ڈکیتی کرکے اقتدار میں آ رہی ہے“۔درحقیقت یہی مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی عمران خان پر سلیکٹیڈ کا الزام عائد کرتے تھے، اُن کے عرصہئ اقتدار میں اُن کا عرصہئ حیات یہ کہہ کر مستقل تنگ کیا جاتا رہا کہ وہ سلیکٹیڈ ہے۔ مگر پھر پیپلزپارٹی جو اسی فارمولے کے تحت سندھ میں گزشتہ پندرہ سالوں سے سلیکٹیڈ ہے اور نوازشرف جنرل ضیاء الحق کے زمانے سے سلیکٹیڈ چلے آرہے ہیں۔ نوازشریف اقتدار میں آکر چند عارضی وقفوں کو چھوڑ کر ہمیشہ”معاملات“ طے کرکے ہی اقتدار میں آنے میں کامیاب ہوتے رہے ہیں۔ چنانچہ اقتدار سے بے دخل کیے جانے کے بعد اس مرتبہ بھی اُنہوں نے وہی راستہ چنا جس پر وہ تحریک انصاف کو نشانہ بنا چکے ہیں۔ نوازشریف جن دروازوں سے اقتدار میں آنا چاہتے ہیں، وہ تاریکیوں کی جانب کھلتے ہیں اور”سلیکٹیڈ“کے رنگ سے رنگے ہوتے ہیں۔اُنہوں نے لندن سے چلنے سے پہلے ہی اپنے تمام معاملات طے کرلیے تھے، جن میں
اُن کے اپنے تمام مقدمات کا خاتمہ اور تاحیات نااہلی کا کیس بھی شامل تھا۔ باخبر لوگوں کا اصرار ہے کہ وہ تاحیات نااہلی کے کیس کو نمٹانے کے وعدے پر ہی پاکتان آئے تھے۔ اُن کی واپسی کے بعد اُن پر نیب اور جہاں جہاں جو بھی کیس تھے وہ ایک ایک کرکے ختم کردیے گئے اور اُنہیں مختلف مقدمات سے نجات دلانے کے لیے عدالتوں سے لے کر حکومت کے مختلف شعبوں تک سب انتہائی خشوع وخضوع کے ساتھ بروئے کار بھی آئے۔ اُن کا یہ طرزِ عمل ماضی میں عمران خان کے رویے سے زیادل خطرنا ک ہے۔ چنانچہ شاہد خاقان عباسی کی جانب سے کہاگیا کہ پی ٹی آئی نے تو چوری کی مگر اب اقتدار کے لیے ڈکیتی کی جا رہی ہے۔
ہمارے نزدیک سابق وزیرا عظم شاہد خاقان عباسی کے یہ تمام الفاظ انتہائی قابل توجہ ہے۔اگر پاکستان میں جمہوریت کے تقاضے پورے کرنے ہیں اور ایک دستوری جمہوریت کی جانب سفر شروع کرنا ہے تو ان تمام باتوں پر سنجیدگی سے سوچنا ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں