میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بدلتی دنیا کو سمجھیں

بدلتی دنیا کو سمجھیں

ویب ڈیسک
اتوار, ۹ اپریل ۲۰۱۷

شیئر کریں

کہنے کویہ ایک موبائل فون پرآنے والا پیغام ہے مگراس پیغام میں بڑے راز چھپے ہیں۔آئیںپہلے پیغام پڑھتے ہیںجس کا عنوان تھابلوچستان میں مردم شماری ۔دروازے پر دستک ہوئی اندرسے بوڑھی ماںکی آوازآئی کون ہے؟ جواب ملاکہ مردم شماری والے ہیں گھر میں ٹوٹل کتنے لوگ ہیں؟یہی پوچھنے آئے ہیںتاکہ اندراج کرسکیں۔بوڑھی ماںنے کہا کہ ٹوٹل چھ بندے چار موجود ہیں دو لاپتہ ہیں، مردم شماری والوں نے یہ بات اپنے آفیسرتک پہنچادی کہ ٹوٹل چھ ہیں اور دو لاپتہ ہیں اب کیا کیا جائے؟ آفیسر نے کہا کہ چارکااندراج زندہ اوردوکومردہ شمار کرو۔ کیونکہ لاپتہ افرادکے لیے کوئی خانہ مردم شماری فارم پرموجودنہیں ہے ۔یہ سن کربوڑھی ماںپربجلی سی گری اوردردبھری آوازمیںکہنے لگی ۔ہمیں اپنے پیاروںکے لوٹ آنے کی امیدہے کہ وہ ضرور لوٹ آئیںگے ،انہیں جیتے جی مردوںمیں شمارنہ کریں۔ بوڑھی ماںکی باتیں سن کرمردم شماری ٹیم کی حفاظت پرماموراہلکارنے بوڑھی ماںکومخاطب کرتے ہوئے کہا، مائی تمہیں صرف امیدہے کہ وہ لوٹیں گے مگرہمیں پورایقین ہے کہ وہ اب نہیں لوٹیں گے ۔یہ سن کربوڑھی ماںکے پاﺅںتلے زمین نکل گئی اوردیوارکے سہارے بیٹھ کر آہیں بھرنے لگی ۔چارکوزندہ اوردوکومردہ شمارکرنے کے بعدمردم شماری ٹیم کارخ بشام کے گھرکی طرف تھاجس کے تین بچے تین سال سے لاپتہ تھے ۔یہ تحریرفرض کرلیںکسی صدف مینگل نے لکھی ہے، یہ تحریر اپنے اندرکئی احساسات،جذبات اور محرومیوںکے طوفان رکھتی ہے ۔ڈیفنس آف ہیومن رائٹس پاکستان کی سربراہ محترمہ آمنہ مسعود جنجوعہ کے مطابق گزشتہ دس سال میں پاکستان اور آزادکشمیرسے لاپتہ ہونے والے افرادکی تعداد 1225 ہے جن میںسے 296 کو رہا کردیا گیا جبکہ 143کے بارے میںمعلوم ہوچکاہے کہ وہ کہاں رکھے ہوئے ہیںاور51کی نعشیں مل گئی ہیں۔ بلوچستان سے 54لوگ لاپتہ ہیں،اسلام آباد سے 47،خیبرپختونخوا سے 83،پنجاب سے 326، سندھ سے 100اورآزادکشمیرسے 17 لوگ لاپتہ ہےں۔واضح رہے کہ محترمہ آمنہ صاحبہ خود بھی متاثرین میں شامل ہیں،ان کے شوہرمسعود جنجوعہ کو14جولائی 2005ءکوایک بس اڈے سے چندلوگوںنے غائب کردیااورآج تک ان کاکچھ پتہ نہیں چلا۔ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے اعدادوشماربھی دل دہلادینے والے ہیں۔ اس کمیشن کے صدرجسٹس (ر)جاویداقبال ہیں۔ کمیشن کے اعدادوشمار کے مطابق 2004ءسے 2016ءکے دوران پاکستان میں 35935 لوگوں نے خودکشی کی، جبکہ پولیس مقابلوںمیں مارے جانے والے شہریوںکی تعداد 1289 ہے۔ فروری 2015ءتککی رپورٹ کے مطابق اس وقت ملک بھرسے 3856کیس لاپتہ افراد کے حوالے سے کمیشن کے پاس درج ہیں۔جبکہ سندھ ہائی کورٹ میں 495لاپتہ افرادکے کیسز کی سنوائی جاری ہے ۔سوال یہ نہیں ہے کہ پاکستان سے اتنے زیادہ لوگ کیوںلاپتہ ہیں،کیونکہ یہ بات ہرذی شعورکومعلوم ہے کہ یہ لوگ کیسے لاپتہ ہوئے ؟کس نے لاپتہ کررکھے ہیں؟کیوںلاپتہ کیے ہوئے ہیں؟جن لوگوںکی نعشیں مل جاتی ہیںوہ نعشیں کون دیتاہے ۔بعض لاپتہ لوگوںکی نعشیں ایسے بھی ملی ہیںکہ ان کے گھروالوںنے چندروزقبل مرنے والے سے کسی جگہ ملاقات کی پھرچندروزبعدمرنے والے کے ورثاءکومتعلقہ جگہ بلایا جاتاہے وہاںان کوبتایاجاتاہے کہ آپ کابندہ اچانک دل کادورہ پڑنے سے مرگیاہے ۔ان کے سامنے چندکاغذات رکھے جاتے ہیںجن پردستخط کرنے کو کہا جاتا ہے۔ اگر کوئی خاندان دستخط کرنے سے انکارکرے تواسے کہا جاتا ہے کہ پھر لاش نہیں ملے گی، ہم خوددفنادیںگے۔ لہٰذالوگ اپنے مرنے والے کی لاش لے کراورنامعلوم کاغذوںپردستخط کرکے آجاتے ہیں۔بعض کیسز میںچندلوگ سادہ کپڑوںمیںکسی قیدی کی لاش لے کراس کے گھرپہنچتے ہیں،پھرگھروالوںسے مطالبہ کیاجاتاہے کہ ابھی اسی وقت اس کی تدفین کرو،اگرکسی کوبتایایاشورکرنے کی کوشش کی توہم سے براکوئی نہیں ہوگا۔یہ واقعات سناتے سناتے آمنہ مسعودصاحبہ کی آوازبھرآئی ۔آمنہ مسعودجنجوعہ صاحبہ کواب اس دنیاسے زیادہ انصاف ملنے کی امیدپل صراط پرہے، وہ کہتی ہیںوہاںکسی کوہم مظلوموںسے کوئی نہیں بچاسکے گا۔ اورہم اللہ پاک کے سامنے اپنا مقدمہ رکھیں گے ۔وہ بتاتی ہیںکہ ایسے بھی کئی خاندان ہیںجوکہتے ہیں کہ ہمیں اپنے بندے کی لاش ہی دے دیں تاکہ اس کودفناکے صبرکرسکیںاورانتظارکی اذیت سے آزاد ہوسکیں۔صرف کراچی میں عبدالستارایدھی کے قبرستان میں83ہزار900نامعلوم لوگ دفن ہیں۔یہ صرف ایک شہرکے ایک قبرستان میں دفن لوگوںکی تعدادہے ۔اس کے علاوہ شہرکے دیگر قبرستانوں میں جولوگ دفن کردیے گئے اور ملک بھرکے قبرستانوں، بیابانوں، صحراﺅں، پہاڑوں میں جولوگ دفن کردیے گئے یاجن کوپھینک دیا گیا۔ ان کی تعدادشاید کبھی سامنے نہ آسکے ۔اس بات پرکئی ہزارصفحے لکھے جاسکتے ہیںکہ ان لوگوں کو کس نے لاپتہ کیااورکیوںکیا،اگر آپ عدالتوں میں لاپتا افراد کے کیسز کی کارروائی سنیں تو سب کچھ سمجھ آجائے گا۔لاپتہ کرنے والوںکے پاس اپنے حق میں دلیل سے زیادہ مضبوط ثبوت بھی ہیں۔ مگر ہم اس موضوع پراس طرح بات نہیں کرینگے کہ لاپتہ لوگ صحیح لاپتہ ہوئے یاغلط لاپتہ ہوئے۔ ہم اس پربھی بات نہیں کرینگے کہ لاپتہ افراد صرف پاکستان میںلاپتہ ہوئے ہیںیایہ کام امریکہ برطانیہ بھی کرتاہے ؟ہم اس موضوع پرایک نئے اندازسے بات کرینگے۔ سوال یہ ہے کہ جس زمانے اورجس عہدکوآج دنیاکے لوگ عظیم عہد کہتے ہیںاورجس عہدکے بارے میں لوگوں کا خیال ہے کہ اس عہدمیں پیداہوکروہ ایک عظیم دور کے مزے لوٹ رہے ہےں،دراصل وہ لوگ نہیں جانتے کہ ان جیساغلام آج کے دورسے قبل کبھی پیدا نہیں ہواتھا۔آج کے انسان کے پاس موبائل فون ہے جس سے وہ اپنی پل پل کی خبراپنے پیارو
ںکودے سکتاہے ۔مگراس کے باوجودآج کا انسان جتنااکیلاتنہا اورغیر محفوظ ہے، اتنامایوس انسان آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک پیدا ہونے والے بچوں تک کبھی پیدانہیں ہواتھا۔یہ ترقی یافتہ دورکے آزادلوگ ہیںجن کو خودکشی پر مجبور کیاجاتا ہے۔ان کی زندگی کوترقی یافتہ دنیا اتنا مشکل بنادیتی ہے کہ ایک روزانسان اپنی تمام مشکلات کاحل اپنی موت میں تلاش کرلیتاہے۔ عقل تویہ تقاضا کرتی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کے لوگوںکوکم سے کم خودکشی کرنی چاہےے جبکہ غریب ملکوںکے لوگوںکوزیادہ خودکشی کرنی چاہیے مگر اعداد وشماربتاتے ہیںکہ دنیامیںسب سے زیادہ خود کشی کرنے والے ملکوںمیںترقی یافتہ ممالک بھی شامل ہیں۔ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کی 2012ءتک کی رپورٹ کے مطابق 1 لاکھ لوگوںمیں سے جاپان میں 18.5 فیصد لوگ خودکشی کرتے ہیں۔ جبکہ امریکہ میں 12.1فیصد جرمنی میں9.2فیصد پولینڈ میں16.6فیصد کینیڈا میں 9.6 فیصد اور پاکستان میں 9.3 فیصد اور دنیامیں خودکشی کرنے والے ممالک پاکستان کا نمبر106درجے پر ہے۔ جبکہ جرمنی ،امریکہ ، آسٹریلیا،کینیڈاپاکستان سے آگے ہیں۔جب پاکستان بھی ان ممالک جتنی ترقی کرلے گا تب پاکستان میں بھی خودکشی کی شرح میںاضافہ ایک لازمی بات ہوگا۔آج کی دنیاکے مسائل کی اصل وجہ ترقی ہے ۔اورکتنی ترقی اس بات کاجواب کوئی نہیں دیتاہے آج کی جدید ریاست میں ترقی کرناہی قومی ریاست کااولین نصب العین ہے ۔اب مسئلہ یہ ہے کہ ایک قوی ریاست ترقی کے لیے کچھ بھی کرسکتی ہے ۔ اور اگر کوئی گروہ شخص قبیلہ یافردریاست کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتاہے توریاست اس کی بوٹی بوٹی کرنے سے بھی نہیں رکتی ۔جدید قومی ریاست کاکوئی مذہب نہیں ہوتا۔البتہ جدید قومی ریاست مذہب کوترقی کرنے کے لیے استعمال ضرورکرسکتی ہے ۔ اگر مذہب ترقی میں مددکرے توریاست ایک منٹ ضائع کئے بغیرمذہبی ہوجاتی ہے ۔جسے افغانستان میں روس کوشکست دینے کے لیے ریاست مذہبی ہوئی تھی ،مگرپھرجب ریاست کوقومی مفاد مذہب کے ردمیں نظرآیاتوریاست نے بغیر وقت ضائع کئے وسیع ترقومی مفادمیں مذہب کا لبادہ اتارپھینکااوراس وقت جولوگ ریاست کی پالیسی کے سامنے کھڑے ہوئے وہ یاتوجاچکے یا لاپتہ کردیے گئے کیونکہ قومی مفادسے بڑھ کرکچھ بھی نہیںہے ۔ یہ کام دنیا کی ہر ریاست اپنے شہریوں کے ساتھ کرتی ہے ۔قومی مفادترقی کرنے کا نام ہے بلکہ مسلسل اورہمیشہ ترقی کرنے کانام، لاپتہ ہونے والوںمیں سے اکثریت ایسے معصوم لوگوںکی تھی جوسمجھتی تھی کہ ریاست اسلامی ہے ۔ریاست ایک روزدہلی کے لال قلعہ پراسلامی پرچم لہرائے گی ۔جوسمجھتے تھے ریاست کی فتوحات کشمیرسے فلسطین تک جاری رہیںگی۔اس لیے یہ لوگ ہرنیکی کاکام ریاست کی مددسے کرتے تھے اس لیے جب ریاست کومذہب کی ضرورت نہ رہی توریاست کوایسے لوگوںکوپکڑنے میں زیادہ دیرنہ لگی ۔ان لوگوںمیں سے جوریاست کے نئے قومی مفادکوسمجھ گئے اوراس میں حصہ ڈالنے پرراضی ہوگئے وہ چھوڑدیے گئے اورجوراضی نہ ہوئے وہ نمٹادیے گئے ۔یہ کوئی ظلم وزیادتی یاناانصافی نہیں ہے اگرکوئی اقوام متحدہ میں لاپتہ افرادکامقصدلے جائے تواقوام متحدہ بھی انسانی حقوق کے عالمی منشورکی روشنی میں لاپتہ افرادکے قتل یاان کی قیدکوجائزقراردے گی اوریہ بات عظیم فلسفی جان رالزکے فلسفے کی روشنی میں درست ہوگی۔ آج کی جدید ریاستیں جان رالز کے فلسفے پرعمل پیرا ہیں اور جان رالزکہتاہے کہ اگرکوئی انسان ترقی نہیں کرنا چاہتا اوروہ جمہوریت کونہیں مانتاتواس کاقتل ہی مسئلے کاحل ہے ،چاہے وہ شخص کوئی بھی ہو۔اس لیے اصل انکارترقی کا اورجدیدریاست کا ہونا چاہیے۔ اور ترقی کا انکار تو ہمارے پیارے نبیﷺ نے کیا ۔صحابہ کرام ؓنے کیا، بزرگان دین اور اکابرین امت نے کیا۔ مگر آج کے لوگ ریاست اورترقی کودرست سمجھتے ہیںاوراعتراض صرف چندباتوںپرکرتے ہیں،جو کہ غلط طرز عمل، طرز فکر ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کوئی امت کا ٹوٹا ہوا تعلق اس کی تاریخ سے جوڑ دے جس کے لیے ضروری ہے کہ بدلتی اور بدل چکی دنیا کو سمجھیں۔
٭٭….٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں