حسینہ واجدکی یک جماعتی آمریت
شیئر کریں
حمیداللہ بھٹی
اگرکسی سے یہ سوال کیا جائے کہ کیا بنگلہ دیش میں انتخابات آزادانہ اور منصفانہ ہوئے ہیں نیز جمہوری قدریں مستحکم ہے ؟توکوئی بھی اِس سوال کا ہاں میں جواب نہیں دے گا البتہ سبھی اتفاق کریں گے کہ یہاں اپوزیشن جماعتوں کے رہنمائوں اور کارکنوں پراِس حدتک عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے کہ وہ انتخابی عمل کا حصہ بننے کی سکت کھو چکے ہیں کیونکہ آمرانہ سوچ کی حامل حسینہ واجد ایساکوئی عمل برداشت ہی نہیں کر تیں تمام تر حکومتی سختیوں کے باوجود بھی اگرکوئی اپوزیشن رہنماثابت قدم رہتااور مقابلے پر آنے کی کوشش کرتا ہے تواُسے مقدمات اور گرفتاریوں میں الجھا دیاجاتاہے جن سے تنگ آکروہ مقابلے سے باہر ہونے میں عافیت جانتا ہے بنگلہ دیش کے حالیہ انتخابی عمل کے نتائج ایسے ہی حربوں کا شاخسانہ اور شیخ حسینہ واجدجیسی متشدد اور غیر مقبول شخصیت دوتہائی اکثریت لیکر پانچویں بار وزیرِ اعظم کا منصب سنبھالنے کی تیاریوں میں ہے وگرنہ گزشتہ کئی برس سے ملک میں موجود عوامی نفرت کومدِ نظر رکھتے ہوئے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اگرجمہوری اقدار کمزور نہ ہوتیں اور انتخابی عمل آزادانہ اور منصفانہ ہوتاتو دو تہائی اکثریت حاصل ہونے کی بجائے بدترین شکست کا سامنا کرناپڑتااوروہ اب تک اقتدارسے بے دخل ہو چکی ہوتیں کیونکہ ملکی منظرنامے پر طائرانہ نگاہ ڈالتے ہی واضح ہوجاتاہے کہ عوام کا آمرانہ سوچ رکھنے کی بناپرشیخ حسینہ واجد سے دل بھر گیا ہے اور وہ اب کسی جمہوری سوچ رکھنے والی شخصیت کو اقتدار میں دیکھناچاہتی ہے۔
رواں ماہ آٹھ جنوری کو منعقد ہونے والے عام انتخابات میں حکمران جماعت عوامی لیگ نے تین سو کے ایوان میں 223 نشستیں حاصل کرلی ہیں 2009سے وزیرِ اعظم کے منصب پر فائزشیخ حسینہ واجد کوحالیہ انتخابی نتائج سے پارلیمان میں تین چوتھائی اکثریت مل گئی ہے مگر نتائج سے لگتاہے کہ انتخابات کے باوجود بنگلہ دیش نے ایک بارپھر سیاسی استحکام کی منزل کوکھو دیا ہے اور برسرِ اقتدار نے اپوزیشن کے ساتھ عوام کو بھی بے بس کردیاہے اپوزیشن کا مطالبہ تھا کہ نگران حکومت ملک میں الیکشن کرائے ایسا ماضی میں ہوچکالیکن حسینہ واجد نے اقتدار میں آکر آئین میں ایسی ترامیم کیں جن کی روسے اب نگران حکومت تشکیل دیناممکن نہیں رہا اِ س نُکتے پر اپوزیشن نے احتجاج کیا اِس دوران کئی اموات بھی ہوئیں لیکن حسینہ واجد نے مطالبہ تسلیم نہ کیااور بالاآخر اپوزیشن نے بائیکاٹ کردیامگر یک جماعتی آمریت پر یقین رکھنے والی شیخ حسینہ ثابت قد رہیں اور اپوزیشن کی عدم موجودگی یک طرفہ مقابلے میں کامیابی سمیٹ لی ۔ مظاہرے ،احتجاج ،گرفتاریاں اور پکڑ دھکڑ معاشی ترقی کے عمل میں سُستی لانے کا باعث بنتی ہیں بدقسمتی سے اکثر ترقی پذیر ممالک کی قیادت اِس کا ادراک نہیں کرتی اور اور اپنے اقتدار کا عرصہ طویل سے طویل تر بنانے کے لیے غیر قانونی اور غیر جمہوری حربوں کا سہارہ لیتی ہیں جیسا کہ بنگلہ دیش میں ہورہا ہے ایسے حربے معیشت کی ناہمواری کا باعث بنتے ہیںاگر مقبول قیادت کواقتدار سے بے دخل کرنے کے عمل میں اِدارے سیاستدانوں کی معاونت نہ کریں تو نہ صرف جمہوری عمل مستحکم ہوبلکہ سرمایہ کاروںمیں ڈراورخوف بھی ختم ہوتا ہے کیونکہ سرمایہ ڈوبنے جیسے خدشات میں کمی آتی ہے جبکہ غیر مقبول قیادت ملکی مفاد میں فیصلے کرنے سے زیادہ اپنے اقتدار کو مستحکم بنانے کے لیے اِداروں کی دستِ نگر رہتی ہے ماہرین کا کہناہے کہ جمہوری قوانین کی عدم پاسداری سیاسی عدمِ استحکام کا موجب بننے کے ساتھ غربت وافلاس کوجنم دیتی ہے بنگلہ دیش آجکل اسی دوراہے پرہے۔
شیخ حسینہ واجد عام انتخابت میں پانچویں بار فقید المثال کامیابی حاصل کرنے کے بعد عوام کو یقین دلانے کی کوشش میںہیں کہ آئندہ پانچ برس کے دوران اُن کی توجہ معاشی ترقی پر ہو گی اپوزیشن جماعتوں کی بائیکاٹ مُہم پر تنقید کرتے ہوئے اُن کایہ بھی کہناہے کہ ہر سیاسی جماعت کو فیصلے کا ختیار ہے مگر انتخابات میں ایک سیاسی جماعت نہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ملک میں جمہوریت ہی غائب ہے اُن کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ملک میں انتخابات شفاف ہوئے ہیں لیکن یہ بتانے کی ہمت نہیں کرپارہیں کہ اُن کے حلقے گوپال گنج سے 249962ووٹ لینے میںکیسے کامیاب ہوئیں اور اُن کے حریف کو صرف 469 ووٹ ہی کیوں مل سکے صاف ظاہر ہے اپوزیشن جماعت کے ووٹروں کو ووٹ ڈالنے سے ہی روک دیا گیا اور یقینی بنایا گیا کہ صرف حکمران جماعت کے ووٹر ہی پولنگ اسٹیشنوںمیں داخل ہوں مزید دلچسپ پہلویہ کہ انتخابات میں چھوٹے چھوٹے بچے بھی ووٹ ڈالتے رہے جن کی ٹھپے لگانے کی ویڈیوسوشل میڈیاپر وائرل ہو چکی ہے ایسے حربوںسے حکمران جماعت 223نشستیں لے گئی جبکہ اپوزیشن جماعت جیتاپارٹی بمشکل گیارہ نشستیں لے پائی حالیہ انتخابات میں 52آزاد امیدوار بھی منتخب ہوئے جن کاتعلق بھی حکومتی جماعت سے ہے اپنی ہی جماعت کے کچھ امیدوارآزاد جتوانے کے پسِ پردہ مقاصددنیاکو الیکشن صاف شفاف باورکراناہے کیونکہ آزادکوبھی جتوانے کے لیے حکومتی مشنری کا بدترین استعمال کیا گیا اور مدِ مقابل امیدواروں کو قانون نافذ کرنے والے اِداروں نے نہ صرف تشدد کا نشانہ بنایا بلکہ اُن کے گھروں پر حملے کیے گئے اورمقابلے سے روکنے کے لیے اہلِ خانہ تک کو ہراساں کیا گیا اِس کے باوجود اگرکوئی انتخابات کو آذادانہ اور منصفانہ قرار دینے پربضدہے توبہترہے ڈکشنری میں دھاندلی کا مطلب شفافیت لکھ دیاجائے۔
امریکہ اور برطانیہ سمیت کئی ممالک نے بنگلہ دیش کے انتخابی عمل کوآزادانہ اور منصفانہ تسلیم کرنے کی بجائے نتائج مستر کرتے ہوئے متنازع الیکشن پر کئی سوال اُٹھا ئے ہیں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیوملر نے کہا ہے کہ اپوزیشن جماعت کے ہزاروں کارکنوں ،رہنمائوں کی گرفتاریوں اور ووٹنگ کے عمل میں بے ضابطگیوں پر تشویش ہے انتخابی عمل کے دوران تشدد جیسے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے بنگلہ دیشی حکومت پر زور دیا کہ نہ صرف تشدد کے واقعات کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائے بلکہ زمہ داران کو سزابھی دلائے انھوں نے عوام کے ساتھ ہونے کی بات کرتے ہوئے انتخابات کے مبصرین کے تاثرات شیئر کیے اور بنگلہ دیش کے انتخابات میں تمام جماعتوں کے حصہ نہ لینے پر افسوس کیا برطانیہ نے بھی واضح طورپر کہہ دیا ہے کہ بنگلہ دیش میں ہونے والے انتخابات آزادانہ اور منصفانہ کے معیار پر پورانہیں اُترے دونوں ممالک کی تنقید کو چین کی طرف بڑھتارجحان کہہ کرنظرانداز نہیں کیا جا سکتابلکہ حقیقت بھی یہی ہے ابھی تک دنیا بھر میں پاکستان واحد ملک ہے جس کے وزیرِ اعظم نے حسینہ واجد کو جیت کی مبارکباددیتے ہوئے دونوں ممالک کے تعلقات بہتر بنانے کی توقع ظاہر کی ہے جس
کی وجہ شاید سیاسی ناپختگی ہے بنگلہ دیش کے تین اطراف بھارت ہے جس کی قیادت ہنوز خاموش ہے جو نہایت ہی معنی خیز ہے شاید اِس طرح احسان جتاکرچین سے دورکرنامقصدہو لیکن بنگلہ دیشی منظر نامے پر نظر رکھنے والوں کو یقین ہے کہ وہ بیک وقت بھارت اور چین سے تعلقات رکھنے کی روش پر گامزن ہیں اور اِس پالیسی میں اب شاید ہی تبدیلی ہو مگر کیا سیاسی عدمِ استحکام کی موجودگی میں معاشی اہداف حاصل کیے جا سکیں گے ؟اِس کا جواب ہاں میں تو ہرگز نہیں ہو سکتا البتہ اِتنا یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی یک جماعتی
اکثریت میں کوئی ابہام نہیں رہا اور یہ ملک بدترین سیاسی عدمِ استحکام کی طرف بڑھ رہا ہے نیز شاید ہی نومنتخب اسمبلی اپنی مدت پوری کر سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔