کراچی سی اے ڈیپارٹمنٹ کا ملکی ریونیو کو مارکنگ فیس میں سالانہ 2 ارب کا ٹیکہ
شیئر کریں
( رپورٹ: سجاد کھوکھر) پاکستان کا اہم ادارہ پاکستان اسٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کا ساؤتھ زون بلیک میلرز اور مْلکی ریونیو کو سالانہ اربوں ہڑپ کرنے والوں کے چنگل میں پھس گیا مارکنگ فیس اور کیلی بریشن کے نام پر ماہانہ کروڑوں کی کرپشن کر کے عوام کو جعلی پراڈکٹس مافیا کے سپرد کر دیا حکام بالا کی خاموشی عوام کی امیدوں پر زہر بن کر دوڑنے لگی تفصیلات کے مطابق پاکستان کا واحد ادارہ پی ایس کیو سی اے ہے جو اپنی عوام کے استعمال کی پراڈکٹس کو نیشنل اسٹینڈرڈ کے طور پر چیک اینڈ بیلنس کے طور پر وجود میں لایا گیا جبکہ زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں کراچی ریجن میں تعینات سی اے کی اہم پوسٹوں پر کرپٹ غیر معیاری افسران کا قبضہ ہے جو مافیا کی صورت اختیار کر چکے ہیں کراچی میں موجودہ سی اے ڈیپارٹمنٹ کے راشی افسران مارکنگ فیس کے نام پر مْلکی خزانے کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان پہنچا رہے ہیں جبکہ دوسری جانب کیلی بریشن اور انڈسٹریز میں لازمی کردہ لیب کے نام پر کرپشن کر کے عوام کی صحت مند قیمتی زندگیوں سے کھیلنے کا انکشاف ہوا زرائع نے بتایا ہے کہ قانوناً ہر کھانے پینے کی انڈسٹریز میں کیلی بریشن سسٹم اور لیب کو لازمی قرار دیا جاتا ہے چونکہ کیلی بریشن سسٹم اور لیب کھانے پینے کے آئٹم کو بیلنس یعنی کہ معیاری غیر معیاری ہونے کی رپورٹ دینے کا کام کرتے ہیں لازمی کردہ سسٹم کی موجودگی میں ہی ڈائریکٹر سی اے لائنسس جاری کرنے کا مجاز رکھتا ہے جبکہ یہاں تو الٹی گنگا بہانے کے ثبوت حاصل ہوئے ہیں گھی ،کوکنگ آئل، بسکٹس، بند بوتل پانی ، پیکنگ جوس،پیکنگ دودھ،مصالحہ جات، حتٰی کہ ٹائرز کمپنیز سے بھی کیلی بریشن، مارکنگ فیس،لیب مشینریز سسٹم سمیت نیشنل اسٹینڈرڈ کے نام پر کروڑوں کی رشوت خوری اور عوام سے دن کی روشنی میں دھوکہ جاری ہے زرائع کا کہنا ہے کہ اگر سی اے ڈیپارٹمنٹ والے ایمانداری سے مارکنگ فیس حاصل کر لیں تو سالانہ ریونیو تین ارب سے بڑھ کر 6 ارب ہو جائے کرپشن اور دھوکے کے خاتمے کے لیے منسٹر اف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ڈاکٹر عمر سیف ، ڈائریکٹر جنرل عصمت گل خٹک، وفاقی سیکریٹری سائنس اینڈ ٹیکنالوجی علی رضا بھٹہ،چیئرمین سینٹ اسٹیڈنگ کمیٹی سائنس اینڈ ٹیکنالوجی شفیق ترین متحد ہو کو قانونی کارروائی عمل میں لائیں تاکہ ادارے سے کرپشن رشوت خوری بلیک میلنگ کا خاتمہ ممکن اور عوام کو نیشنل اسٹینڈرڈ کے معیار پر آئٹم کی ترسیل بحال ہو سکے ۔