بس ذرا انتظار ........
شیئر کریں
ب نقاب/ایم آر ملک
بلاول بھٹونے دبئی یاترا گریزاں ہوکر کی یا نہیں ،مگر عوام یہ سوال پو چھتے ہیں کہ کیا زرداری ایک بڑی پارٹی کی جاں بلب لاش کو آکسیجن فراہم کر سکے گا؟ عوامی حلقوں کی دہلیز پر ٹنگا ہوا یہ سوال شاید تشنہ ہی رہے۔ جبر کے سائے میں دیر بالا میں عوامی سمندر نے واضح کردیا۔ جاگیردارانہ اور لمپن قیادت کی سوچ کا تسلط شاید اب قوم کے شانوں پر اپنا وجود بر قرار نہ رکھ سکے ۔کیا اسے ایک ذلت اور شر مساری سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا کہ عرصہ پہلے رائے ونڈ کے مکینوں کا منہ بولابھتیجا اپنے جلسوں میں (جن میں نظریاتی ورکرز نہیں دیہاڑی پر لائے گئے ونگارو ہوتے ) گو نواز گوکے نعرے لگوا کرنفرت کی انتہاؤں پر کھڑا تھا؟ پھر اسی گو نواز گوکی گردان میں مفاہمت کی سیاست نے جنم لیا۔ لاڑکانہ کی سڑک پر گھسیٹنے والوں نے جب مفاہمت کی کال دی تو 70کھانوں کو دیکھ کر باپ کی رالیں ٹپک پڑیں،مفاہمتی سیاست نے رائے ونڈ کی شخصی آمریت کی اطاعت میں عوامی شعور کا قتل کر ڈالا،کون نہیں جانتا کہ زرداری نے سندھ ہاؤس میں ضمیر کی منڈی سجا کر اور بولی لگا کر 25کروڑ عوامی احساسات کو لالچ،مفاد پرستی اور حرص کی گہری کھائی میں دفن کر دیا۔میرے ایک دوست کا استدلال ہے کہ عرصہ قبل زرادی کے ہاتھ گیلانی کی نااہلی کا ایشو پارٹی کی مردہ رگوں میں خون دوڑانے کا باعث تھا مگر اعتزاز احسن کو عدالت میں پیش نہیں ہونے دیا گیا ،بلاول کی تقریروں میں ایک بار پھر عوامی ایشو کو مہنگائی لیگ کے دلفریب نعرہ کے شور میں گم کر نے کی کوشش کی گئی مگر ہر بار ایسا نہیں ہوتا ۔حالات غیر دانستہ طور پرعوامی تحریک کی شکل میں پک کر تیار ہوتے ہیں، دیر میں یہی کچھ ہوا۔ فخر ِ ایشیاء ذوالفقار علی بھٹو کا ورکر اور ایک عام ووٹر اب ایسی لمپن قیادت کی طرف لوٹنے سے رہا جس نے اُس کے قائد کے قاتلوں کے ہاتھ میں نظریاتی ورکروں کا چاک گریباں دے دیا اور بھٹو کے لہو سے رنگا قالین بچھا کر اُن کی اطاعت پر کمر کس لی ،سرمائے کی لوٹ مار اور فرار بچانے کیلئے زراداری نے ایسی شخصی آمریت کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کو ترجیح دی جس نے عوام کے دریدہ پیراہن میں غربت،مہنگائی،بیروز گاری، بجلی، پانی، گیس کی قلت،تعلیم و علاج کا فقدان اور معاشی و سماجی بر بادیاں ڈالیں،سرمائے کی جمہوریت کے اس بے ڈھنگے ارتقاء نے جمہوری حقوق کی شکلیں مسخ کر دیں۔تخت ِ لاہور مخالف جھوٹی نعرے بازی کے شور میں چھوٹا زرداری آنے والے کل میں اپنی باری کیلئے بے چین ہے ۔ شاؤ نزم کو اُبھارنے کی بے ہودہ کوشش!۔ اب عوام احمقوں کی جنت میں نہیں رہتے کہ جھوٹی کار گزاریوں کے نعروں پر حمایت جیتی جاسکے ۔ مرتضیٰ بھٹو کی موت شہر کے مرکزی دروازے پر آج بھی سو ال بن کر کھڑی ہے ؟ کس نے ایک جری بھٹو کو اپنے رستہ سے ہٹانے کیلئے انتقام کا خونریز وار کیا؟ لوٹ مار کی جمہوریت کے ڈوبتے سفینے کو شریف زرداری کمپنی مل کر کندھا دینے کی ناکام سعی میں رہے ۔جمہوریت تو دو پارٹیوں کی لوٹ مار کے دو پاٹوں میں پس کر متروک ہوتی رہی ۔منافقت اور تضحیک کے درمیان عوام کے حق ِ خود ارادیت کا قتل ہوتا رہا ۔
عدلیہ اور مقتدر حلقوں کی جانب سے لیول پلیئنگ فیلڈکی اختراع منظر عام پر آنے کے بعد کیا ضیاء آمریت سے جنم لینے والی پارٹی اور زرداری لیگ کی یک رنگی سے بیزار عوام ضروریات زندگی کے حصول کی غیر انسانی مشقت سے اب نجات کے خواہاں نہیں؟جن کی محنت کا استحصال کم ہونے کے بجائے تیز ہو رہا ہے عمران کے لئے دو موروثی پارٹیوں سے بیزار عوام سیاسی اظہار کی تلاش میں نکلے ، لوٹ مار اور کرپشن پر اتحاد نے جمہوریت کے فریب اور کھوکھلے پن کو بے نقاب کر دیا ہے ماضی کی فرسودگی کو عوام آئندہ عام انتخابات میں گلے لگانے سے گریزکرنے پر اکتفا کرچکے ، دو افراد کے جمہوری تصورات کے ابہام سے نکلنے کیلئے عمران ان کا انتخاب بنا ۔بیلٹ کی طاقت سے جمہوری تہمت سے داغدار طوق کو گلے سے اتارنے کیلئے اکثریت بے چین دکھائی دیتی ہے ۔چہروں پر پھیلی زہر آلود مسکراہٹیں 8فروری کے عام انتخابات کے روز ان جعلی قیادتوں کا استقبال کریں گے ۔جب مفاہمت کی سیاست کی چھتری تلے محض عوامی حقوق کا قتل عام مقصود ہو تو بیلٹ پیپر پر مہر لگاتے وقت احساسات کی افادیت یکسر مختلف ہو جایا کرتی ہے ۔بھٹو کی پارٹی کے کارکن اور جانثار محترمہ کی شہادت کے بعد شدید مایوسی اور لاچارگی کے عالم میں اپنی قربانیاں اور جدو جہد قیادت کی منڈی میں نیلامی کیلئے لے کر پھرتے رہے ،سسکتے رہے ،آہ و بکا کرتے رہے لیکن زرداری نے اُن کے نظریات اور جذبات کو ایسی سیاست کی سولی پر چڑھا دیا جس نے بھٹو کی پھانسی پر مٹھائیاں تقسیم کیں۔ تیسری دنیا کے لیڈر کو جن کے سیاسی باپ نے قتل کر کے ان نظریاتی ورکروں سے انتقام لیا۔ نظام کے ہاتھوں مسلط شدہ اُفق پر جو پارٹی عوام کی واحد اُمید تھی کے ساتھ جڑے ہوئے نظریات ریزہ ریزہ ہو چکے ۔عوام کو مرعوب کرنے کیلئے نو خیز زرداری آئندہ اقتدار کیلئے لکھی ہوئی تقاریر کی ریہرسل کرتا رہا اس سے بڑا فریب اور کیا ہو سکتا ہے کہ بھٹو کی پارٹی اقتدار میں ن لیگ کی بی ٹیم بن گئی ۔ لوٹ مار کے آئینے میں سچ کی شکل واضح نظر آرہی ہے ۔ بہت دیر ہو چکی،وقت مٹھی سے ریت کی طرح پھسل گیا اور بھٹو کی پارٹی کے جعلی وارثوں کو خبر تک نہ ہوئی،الفاظ کی چاشنی سے پارٹی کی مردہ سانسیں بحال کرنا ناممکن ہو چکا کہ بھٹو کی پارٹی بھٹو کے قاتلوں کی ذیلی شاخ بن چکی ہے ،سیاست کے ڈاکٹر کے جمہور کش جمہوی پلان میں لوٹ مار کے گٹھ جوڑنے حالات کو یکسر تبدیل کر دیا ،8فروری کا روز موروثیت کے خلاف ایسا چابک ثابت ہوگا جو وطن عزیز کا روایتی چہرہ بدل کررکھ دے گا،تبدیلی کے حقیقی عناصر عوام اپنی گہری خامشی توڑ کر تاریخ کے میدان میں نکلیں گے ،مفاہمت کی جعلی لفاظی اور لفظ جمہوریت کے ناجائز استعمال سے اُس بے چینی کو ختم نہیں کیا جاسکتا جو معاشرے کی بنیادوں میں ڈائنا مائیٹ کی طرح لگی ہوئی ہے ورکروں کے خلاف جعلی مقدمات اور بنیادی حقوق کی معطلی پر انتقام کایہ ڈائنا مائیٹ پھٹنے کو ہے ۔بس انتظار کہ صبر کے دن تھوڑے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔