مسجد اقصیٰ کی تسلیم شدہ عالمی حیثیت
شیئر کریں
میر افسر امان
یہ تو ساری دنیا اور مسلمانوں کو معلوم ہے کہ مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلہ اوّل ہے۔ رسولۖ اللہ ایک رات میں خانہ کعبہ سے مسجد اقصیٰ گئے۔ پھر مسجد اقصیٰ کی ”دیوار براق” سے آسمانوں پر اللہ سے ملاقات کے لیے گئے تھے۔اس کاذکر قرآن شریف میں موجود ہے ۔ جسے مسلمان شروع سے لے کر آج پڑھتے رہتے ہیں۔ جو روز روشن کی طرح واضح ہے۔
ہوا یوں کہ جب اتحادی قوتوں یعنی عیسایوں نے سلطنت عثمانیہ کو ختم کر کے اس کی تین براعظموں پر پھیلی حکومت کے حصے بخرے کئے، تو فلسطین برطانیہ کے حصہ میں آیا تھا۔ اُس وقت دنیا سے آکرفلسطین میں آباد ہونے والے یہودی اور پہلے سے فلسطین میںموجود پھر بھی قلیل تعداد میں تھے۔ اُنہوں نے مسجد اقصیٰ پر ملکیت کا تنازع کھڑا کیا ۔ کہا کہ مسجد اقصیٰ کے نیچے ہیکل سلیمانی ہے۔ یہ ہماری ملکیت ہے۔ مسجد اقصیٰ کی ”دیوار براق” کو انہوں نے دیوار گریہ بنا ڈالا۔ اس پر مسلمانوں میں اشتعال پیدا ہوا۔ اس تنازع کو ختم کرنے کے لیے آج سے تقریباً ترانوے(93) سال پہلے ایک بین الاقوامی عدالت نے مسجد اقصیٰ اور اس کے اردگرد کے علاقے پر مسلمانوں کے حق میں فیصلہ سنایا تھا۔ اس فیصلے پر، برطانیہ کے بادشاہ نے ایک فرمان بھی جاری کیا تھا جسے”ویسٹرن وال ڈیکری آف1931ء کہا جاتا ہے جو اُس وقت کے گزٹ میں بھی شائع ہوا تھا جو آج بھی ریکارڈ میں موجود ہے۔ اس فیصلے اورفرمان کے بعد یہودی خاموش ہو گئے تھے۔حکومت برطانیہ نے اس معاملہ پر کہ کیا مسجد اقصیٰ مسلمانوںکی ہے( جو یقینی اور تاریخی طور پر مسلمانوں کی ہے) یا یہودیوں کا دعویٰ کہ یہ ہیکل سلیمانی تھا فیصلہ کرنے کے لیے یورپی ثالثوں، غیر جانبدار، ججوں،وکلا، بین الاقوامی مورخین اور ماہر آثار قدیمہ پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی تھی۔ اس کمیٹی میں ایک بھی مسلمان نہیں تھے۔ مسجد اقصیٰ اور اس کے قدیمی مغربی دیوار کے بارے میں فیصلہ سنایا تھا۔اس بین الاقوامی عدالت نے اسے دیوار”براق” تسلیم کیا تھا نہ دیوار گریہ۔مسجد اقصیٰ کو بھی مسلمانوں کی ملکیت تسلیم کیا تھا۔
اصل میں فلسطینی مسلمانوں نے اس دور میں”براق انقلاب” برپا کیا تھا۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ برطانیہ نے یہودیوں کو مسجد اقصیٰ کی مغربی دیوار پر جا کر عبادت کرنے کی اجازت دی تھی۔ احتجاج یہودیوں کو مراعات دینے پر شروع ہوا تھا۔ اس انقلاب پر، برطانوی حکومت اُس وقت تک قابو نہیں کر سکی تھی جب تک کہ وہ یہ معاملہ بین الاقوامی عدالت میں نہ لے گئی۔ یہ طے پایا تھا کہ اس مسئلے کو ہمیشہ کے لیے حل کر دیا جائے، کہ اس مقدس مقام کے یہودی حق دار ہیں یا کہ مسلمان۔چناچہ 13 ستمبر1929 ء کو برطانیہ کے کولونیل سیکریٹری نے ایک کمیٹیshaw commission کے نام سے تشکیل کی۔اس کمیٹی نے بگڑی ہوئی حالت کا جائزہ اور تدراک کے لیے اقدام کرنے تھے۔کمیٹی کے سامنے یہود اور مسلمانوں نے اپنے اپنے دعوے پیش کیے۔برطانوی تجویز پرcouncil of leage of nation نے15 مئی1930ء کو ایک کمیٹی تشکیل دی۔ اس کمیٹی کی سربراہی سویڈش گورنمٹ کے سابق وزیر خارجہ کو بطور چیئرمین سونپی گئی۔ جینوا کے کورٹ آف جسٹس کے نائب صدر، مخلوط آسٹرورو مانین ثالثی کورٹ کے صدر، سماٹرا کے مشرقی جزیروں کے سابق گورنر اور نیدر لینڈ کی پارلیمنٹ کے رکن کو دیگر ارکان کے طور پر شامل کیا گیا اور ایک اعلیٰ پایہ کی بین الاقوامی غیر جانبدار ثالثی کی کمیٹی تشکیل دی گئی۔کمیٹی نے 19 جون 1930 ء کو یروشلم پہنچ کر ایک مہینہ وہاں قیام کر کے روزانہ دو سیشن منعقد کیے۔23 اجلاسوں میں52گواہوں کی شہادتیں سنیں۔ اس میں21 یہودی راہب 30مسلمان علماء اور ایک برطانوی گواہ شامل تھا۔اس میں 35 یہودیوں اور26 مسلمانوں نے دستاویزات جمع کرائیں۔ اس دوران دنیا بھر کے مسلم ممالک کے مسلمان یروشلم میں پہنچ کر فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کیا۔بین الاقوامی عدالت نے تسلیم کیا کہ مسلمانوں کی طرف سے پیش کی گئی دلیلیں درست ہیں۔ مسلمان یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ مسجد اقصیٰ ”دیوار براق” اور آس پاس کا علاقہ مسلمانوں کی ملکیت ہے۔ اس کا ذکر قرآن شریف میں بھی موجود ہے۔ اس پر یہ بات کھل کر سامنے آ گئی کہ دیوار گریہ پر یہودی اپنا حق ثابت نہیں کر سکے۔دونوں پارٹیوں کو سننے کے بعد ثالثی کمیٹی نے اپنا آخری اجلاس28 نومبر سے یکم دسمبر1930 ء میںپیرس میں منعقد کیا۔ متفقہ فیصلہ سنایا گیا۔نمبر ایک، مغربی ویوار صرف مسلمانوں کی ملکیت ہے اور ان ہی کا اس پر حق ہے۔ کیوں کہ یہ دیوار اس مقدس مقام کا اٹوٹ انگ حصہ ہے جو مسلمانوں کے لیے وقف کیا گیا تھا۔ نہ صرف دیوار بلکہ دیوار کے مقابل موجود گزر گاہ اور” المغر بی کوارٹرز” کے بالمقابل واقع علاقہ بھی مسلمانوں کی ہی ملکیت ہے جو کہ اسلامی قوانین کے مطابق انہی کے لیے وقف شدہ ہے۔ دوم ،عبادت میں استعمال ہونے والا ساز و سامان جو یہودی دیوار کے قریب رکھتے ہیں یا پھر اس سے ملحقہ گزر گاہ پر، یہ قطعاً ثابت نہیں کرتا کہ اس دیوار پر اُن کا کوئی مذہبی حق ہے۔ سوم،یہودیوں کو اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگیوں کی خاطر خیمے، کرسیاں، چٹائیوں، پردے، رکاوٹیں، کسی قسم کے مذہبی نشانات دیوار کے قریب لانے یا پھر کسی بھی قسم کے آلات مو سیقی کو مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
اس حکم کی دفعات 8 جون1931ء کو لاگو ہوئیں۔برطانوی حکومت نے اس موضوع پر ایک وائٹ پیپر بھی جاری کیا۔اسی بنیاد پر ایک شاہی فرمان بھی جاری کیا جسے” ویسٹرن وال ڈیکری آف1931ء کہا جاتا ہے جو اُس وقت کے سرکاری گزٹ میں بھی شائع ہوا۔اس روز روشن فیصلے کے بعد بھی کم ظرف اور اللہ کی دھتکارے ہوئے یہودی مسجد اقصیٰ پر قبضہ کر کے اس کو مسمار کر کے ہیکل سلیمانی بنانے اور مسجد اقصیٰ کی مغربی ”دیوار براق” کو دیوار گریہ کہہ کر اس کے پاس جمع ہوتے ہیں۔ یہ سراسر شیطانی فعل ہے۔ مسجد اقصیٰ میں مسلمانوں کو نماز نہیںپڑھنے دیتے۔ ہر وقت اسکی شیطانی فوجیں مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کرتی ہیں۔ مسجد اقصیٰ کیا، پورے فلسطین سے مسلمانوں کو فوجی کارروئیوں کے ذریعے بے دخل کر کے وہاں دنیا کے یہودیوں کو بلا بلا کر بستیاں آباد کر رہاہے۔ مسلمانوں کو ویسٹ بنک اور غزہ کی پٹی میں دھکیل دیا۔ پچھتر سالوں سے فلسطینیوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔ تنگ آکر حماس نے اُس پر 7 اکتوبر کو مظلوم فلسطینیوں کے قتل عام کا بدلہ لینے، فضائی، بحری اور بری راستوں سے حملہ کر کے اُس کے برتری کے غرور کو مٹا کر، اس کے کئی فوجیوں کو قیدی بنا لیا ہے۔اس کے بدلے حماس سے لڑنے کے بجائے غزہ کے نہتے قیدی مسلمان بچوں، عورتوں اور بوڑھوں پر ہوئی حملے اور میزائل برسا کر پچاس ہزار جس میں معصوم بچوں اور عورتیں کی تعداد زیادہ ہے کو شہید اور زخمی کر چکا ہے ۔ اتنی درندگی کے باوجود، آج تک اپنے قیدی رہا نہیں کروا سکا۔ حماس نے اس کے سیکڑوں ٹینکوں، بکتربند گاڑیوں اور بلڈوزروں کو یاسین میزائیل مار کر تباہ کر دیا ہے۔ سیکڑوں فوجی کو روزانہ کی بنیاد پر ہلاک کر رہا ہے۔فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ جب تک یہودیوں کو اپنی زمین سے بے دخل نہیں کرتے اس وقت تک لڑائی جاری رہے گی۔ مسلمان حکمران امریکا کے ڈر کی وجہ سے فلسطینیوں کی مدد نہیں کر رہے۔پھر بھی حماس اکیلا فولادی دیوار بن کے ڈٹا ہوا ہے۔سفاک اسرائیل نے غزہ کے ہسپتال، اسکول، مہاجر کیمپ، رہائشی بلڈنگ، اقوام متحدہ کے امدادی کارکن، صحافیوں، سب کچھ تباہ کر دیا ہے۔ مگر اللہ کی طرف سے حماس کی مدد کام آ رہی ہے۔ اسرائیل پسپا ہو رہا ہے حماس کی فتح یقینی ہے۔ان شاء اللہ۔
٭٭٭