شدید ڈپریشن
شیئر کریں
علی عمران جونیئر
دوستو،ملک میں سیاسی و معاشی حالات دیکھیں تو شدید ڈپریشن ہونے لگتا ہے۔ کم تنخواہوں اور دیہاڑی دار طبقے کی رات کی نیندیں اڑ چکی ہیں ، انہیں اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر کھائے جارہی ہے۔ مہنگائی مسلسل بڑھتی جارہی ہے، ٹرانسپورٹ کے کرائے، اشیائے خورونوش،بجلی، گیس سمیت ہر وہ چیز جو عوام کے لئے بنیادی ضرورت ہے ان کی پہنچ سے دور ہوتی جارہی ہے۔ کچھ روز قبل جب بھارت نے اپنا چندریان چاند پر جانے کے لئے چھوڑا تو ہم نے باباجی کی غیرت جگانے کی کوشش کی اور انہیں بتایا کہ ہمارا پڑوسی چاند پر پہنچ چکا ہے اور ہم اب تک وہیں کے وہیں ہیں۔۔ جس پر باباجی نے ہمیں ”گھوری” ڈالی اور الٹا ہم سے سوال کیا ۔۔ کیا اس وقت تمہارے گھر میں لائٹ ہے؟ ہم نے کہا ، نہیں لوڈشیڈنگ چل رہی ہے۔ پھر انہوں نے پوچھا، کیا گیس آرہی ہے، ہم نے جواب دیا، چار سال سے جس کرائے کے گھر میں رہ رہے ہیں وہاں کبھی گیس نہیں آئی،البتہ ہر ماہ بل ضرور آتا رہا ہے، پھر پوچھا، کیا پانی آتا ہے؟ ہم نے کہا، نہیں ، ٹینکر ہر ہفتے ڈلوانا پڑتا ہے۔ باباجی نے ایک گہری اور لمبی سانس لی اور بولے۔۔ چاند پر بھی بجلی، پانی، گیس نہیں ہے، ہمارے ملک میں بھی نہیں۔۔ چندا فی الحال یہی سمجھ کر جیو کہ تم چاند پر رہ رہے ہو۔۔
ایک 50 سالہ شریف آدمی ڈپریشن کا شکار تھا اور اس کی بیوی نے ایک ماہر نفسیات سے ملاقات کی۔ بیوی نے کہا۔۔وہ شدید ڈپریشن میں ہیں، براہ کرم مدد کریں۔۔ڈاکٹر نے اپنی مشاورت شروع کی۔ اس نے کچھ ذاتی باتیں پوچھی اور شریف آدمی کی بیوی کو باہر بیٹھنے کو کہا، صاحب بولے ۔۔میں بہت پریشان ہوں دراصل میں پریشانیوں سے مغلوب ہوں، ملازمت کا دباؤ ،بچوں کی تعلیم اور ملازمت کا تناؤ، ہوم لون، کار لون، مجھے کچھ پسند نہیں دنیا مجھے پاگل سمجھتی ہے لیکن میرے پاس اتنا سامان نہیں جتنا کہ ایک کارتوس میں، بہت اداس اور پریشان ہوں۔یہ کہہ کر اس نے اپنی پوری زندگی کی کتاب ڈاکٹر کے سامنے کھول دی۔ پھر ڈاکٹر نے کچھ سوچا اور پوچھا،آپ نے دسویں جماعت کس اسکول میں پڑھی، شریف آدمی نے اسے ا سکول کا نام بتایا۔ ڈاکٹر نے کہا۔۔ آپ کو اس اسکول میں جانا ہے۔ اپنے اسکول سے آپ اپنی دسویں کلاس کا رجسٹر تلاش کرنا ہے اور اپنے ساتھیوں کے نام تلاش کرنے ہیں اور ان کی موجودہ خیریت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ ایک ڈائری میں تمام معلومات لکھیں اور ایک مہینے کے بعد مجھ سے ملیں۔شریف آدمی اپنے اسکول گیا، رجسٹر ڈھونڈنے میں کامیاب رہا، اور اسے کاپی کرایا۔ اس میں 120 نام تھے۔ اس نے ایک مہینے میں دن رات کوشش کی، لیکن وہ بمشکل 75ـ80 ہم جماعتوں کے بارے میں معلومات جمع کرنے میں کامیاب رہا۔ حیرت!!!ان میں سے 20 مر چکے تھے۔ 7 رنڈوے اور 13 طلاق یافتہ تھے۔ 10 ایسے نکلے جو کہ بات کرنے کے قابل بھی نہیں تھے۔ 5 اتنے غریب نکلے کہ کوئی ان کا جواب نہ دے سکا۔ 6 اتنے امیر نکلے کہ اسے یقین ہی نہیں آیا۔ کچھ کینسر میں مبتلا تھے، کچھ فالج کا شکار تھے، ذیابیطس، دمہ یا دل کے مریض تھے، کچھ لوگ بستر پر تھے جن کے ہاتھوں،ٹانگوں یا ریڑھ کی ہڈی میں چوٹیں آئی تھیں۔ کچھ کے بچے پاگل، آوارہ یا بیکار نکلے۔ ایک جیل میں تھا۔ ایک شخص دو طلاق کے بعد تیسری شادی کی تلاش میں تھا۔ ایک ماہ کے اندر، دسویں جماعت کا رجسٹر خود قسمت کی اذیت بیان کر رہا تھا۔ ڈاکٹر نے پوچھا۔۔اب بتاؤ تمہارا ڈپریشن کیسا ہے؟شریف آدمی سمجھ گیا کہ اسے کوئی بیماری نہیں تھی، وہ بھوکا نہیں تھا، اس کا دماغ کامل تھا، اسے عدالت، پولیس ، وکلاء کا کوئی مسئلہ نہ تھا، اس کی بیوی اور بچے بہت اچھے اور صحت مند تھے، وہ خود بھی صحت مند تھا۔۔اس آدمی کو احساس ہوا کہ واقعی دنیا میں بہت زیادہ دکھ ہے، اور وہ بہت خوش قسمت ہے کہ اُسے تو کوئی تکلیف نہیں ہے۔ دوسروں کی پلیٹوں میں جھانکنے کی عادت چھوڑیں، اپنی پلیٹ کا کھانا پیار سے لیں۔ دوسروں کے ساتھ اپنا موازنہ نہ کریں ہر کسی کی اپنی قسمت ہوتی ہے۔اور پھر بھی، اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ ڈپریشن میں ہیں، تو آپ کو بھی اپنے ا سکول جانا چاہیے، دسویں جماعت کا رجسٹر لائیں اور۔
امریکہ میں مائیکروسافٹ نے۔۔”آئی ٹی ایکسپرٹ مینیجر برائے یورپ” کی ایک آسامی پر درخواستیں مانگیں۔ تقریباً پانچ ہزار امیدواروں نے درخواستیں جمع کروائیں۔ بل گیٹس اتنے امیدواروں کو دیکھ کر پریشان ہوگیا اور انہیں ایک بہت بڑے گراؤنڈ میں جمع کرکے ان سے مخاطب ہوا۔۔ آپ سب کا بہت شکریہ، چونکہ یہ آسامی بہت ہی اہم اور ٹیکنیکل پوسٹ کے لیے ہے۔ لہذا آپ میں سے جو جاوا زبان کو جانتے ہیں، وہ موجود رہیں، باقی تمام حضرات سے معذرت، وہ جا سکتے ہیں۔ایک پاکستانی بھی امیدواروں میں کھڑا تھا۔ اس نے سوچا مجھے جاوا تو نہیں آتا لیکن پھر بھی میں اگر رک جاؤںتو کیا حرج ہے۔ چنانچہ وہ وہیں کھڑا رہا۔ جبکہ جاوا نہ جاننے والے ایک ہزار افراد چلے جاتے ہیں۔بل گیٹس نے پھر سب کو مخاطب کیا۔۔ ہماری آج کی مینیجر کی پوسٹ کے لیے مینجمنٹ کوالٹی بہت ضروری ہے۔ آپ میں سے وہ افراد جن کی ماتحتی میںکم از کم سو افراد ہوں، موجود رہیں، باقی سب جا سکتے ہیں۔پاکستانی نے پھر سوچا کہ میرے تو گھر والے میرے ماتحت نہیں۔ لیکن رک جاتا ہوں۔ ممکن ہے کوئی چانس بن جائے۔ امیدواروں میں سے مزید ایک ہزار افراد چلے جاتے ہیں۔۔بل گیٹس نے باقی بچ جانے والے تین ہزار امیدواروں سے کہا۔۔ اس جاب کیلیے ہیومن ریسورس مینجمنٹ کی ڈگری لازمی ہے۔ صرف اس ڈگری والے رکیں باقیوں سے معذرت۔۔پاکستانی نے پھر سوچا کہ ڈگری وگری تو کوئی نہیں۔ مگر رک جانے میں کیا حرج ہے۔ایک ہزار افراد مزید کم ہو گئے۔۔اس بار بل گیٹس نے کہا۔۔ہمیں تجربہ کار مینجر کی ضرورت ہے۔ جس کے پاس کم از کم پانچ سالہ تجربہ ہے وہ رک جائے۔ باقی جا سکتے ہیں۔پاکستانی پھر سوچتا ہے کہ تجربہ تو کسی کام کا نہیں لیکن جانے سے بہتر ہے کہ رک جاؤں۔ شاید چانس بن جائے۔ایک ہزار مزید افراد گراؤنڈ سے چلے گئے۔بل گیٹس نے سوچا کہ اب صرف ایک ہزار امیدوار بچ گئے، ان سے کہنے لگا۔۔ گڈ! اب صرف وہ رکیں جنہیں اسے یورپ کی کئی زبانیں آتی ہوں۔یہ سن کر آخری ہزار میں سے پانچ سو افراد اٹھ کر چلے گئے۔ پاکستانی اردو پنجابی اور ٹوٹی پھوٹی انگلش کے سوا کچھ نہ جانتا تھا۔ لیکن بہرحال رک گیا۔بل گیٹس پھر بولا۔۔ گڈ۔ آپ تمام افراد بنیادی شرائط پر پورا اترے۔ اب وہی امیدوار رکے جو روسی زبان پر عبور رکھتا ہو۔۔یہ سن کر چار سو اٹھانوے افراد اٹھ کر چلے گئے۔ جبکہ پاکستانی اور ایک اور آدمی رک جاتے ہیں۔ اب آخری 2 افراد اور بل گیٹس گراؤنڈ میں موجود رہ گئے۔بل گیٹس کو جھٹکا لگا کہ پانچ ہزار امیدواروں میں سے صرف دو ہی ایسے امیدوار تھے جو اس کی تمام شرائط پر پورا اتررہے ہیں، ان سے مخاطب ہوکر کہنے لگا۔۔بہت خوب! آپ دونوں ان 5 ہزار افراد میں سے سب سے زیادہ قابل نکلے۔ ویری گڈ۔ اب آپ دونوں ایک دوسرے سے روسی زبان میں بات چیت کریں۔ جو زیادہ صحیح روسی زبان گرامر کے مطابق بولے گا۔ وہ منتخب کر لیا جائے گا۔پاکستانی نے سوچا اب منزل قریب ہے۔ دوسرے آدمی سے مخاطب ہو کر اردو میں بولا۔۔ہاں بھئی استاد۔۔کیا حال چال ہیں۔۔؟۔۔دوسرے نے برجستہ کہا۔۔ شکر اے مولا دا، توں سنا۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔۔گالی، گنتی، سرگوشی اور گندہ لطیفہ اپنی مادری زبان ہی میں مزہ دیتا ہے ۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔