سپریم کورٹ غلطی کر دے تو کیا پارلیمنٹ اس کو درست کر سکتی ہے؟ چیف جسٹس
شیئر کریں
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ آج اس سماعت کا آخری دن ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت، سپریم کورٹ میں پریکٹس پروسیجر کیس میں اضافی دستاویز جمع کرائی گئیں۔اضافی دستاویز میں پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کی پارلیمنٹ کارروائی کا ریکارڈ جمع کرایا گیا۔ درخواست گزار امیر خان کی جانب سے وکیل خواجہ طارق رحیم نے جمع کرایا۔ متفرق درخواست میں سپریم کورٹ سے اضافی دستاویز کو منظور کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔سپریم کورٹ میں جمیعت علمائے اسلام ف نے بھی تحریری جواب جمع کر رکھا ہے جس میں استدعا کی گئی کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستیں مسترد کی جائیں، عدالتی فیصلوں کے مطابق مذکورہ ایکٹ آئینی اور قانون سے متصادم نہیں ہے، پارلیمنٹ ہی وہ فورم ہے جو قانون بنا سکتا ہے یا اس میں ترمیم کرسکتا ہے۔جے یو آئی نے جواب میں موقف اپنایا کہ درخواست گزاروں کا یہ موقف بے بنیاد ہے کہ مذکورہ قانون آرٹیکل 184(3) کے متصادم ہے، مذکورہ قانون سے عدالت عظمیٰ کو حاصل اختیارات میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی، آئین پاکستان اختیارات کسی ایک فرد کو تفویض نہیں کرتا۔صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے پر الگ قانون سازی اختیارات سے تجاوز ہوگا، آئین پارلیمنٹ کو اس معاملے پر قانون سازی کی اجازت نہیں دیتا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے وکیل عابد زبیری سے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ نئی قانون سازی نہیں ہوسکتی؟ آپ کے مطابق سپریم کورٹ پہلے سے موجود قانون کے مطابق رولز بنا سکتی ہے۔