اُلٹی چھلانگیں
شیئر کریں
آج کا ”رانگ نمبر” سود اور فحاشی کے خلاف مورچہ زن قرونِ اولیٰ کے مجاہد جناب انصار عباسی کے بارے میں ہے جسے پڑھ کر آپ کو اندازہ ہوگا کہ کیسے عباسی صاحب نے ایک جیسے معاملے میں مختلف شخصیتوں کے بارے میں ترازو کے مختلف باٹ رکھے ہوئے ہیں۔ کیسے اپنے ممدوح کے راستے کے کانٹے چنتے ہوئے اس کی تقصیریں معاف کرتے ہیں اور مخالف کے ہر ہر عمل کو کیسے خوردبینی نظروں سے
دیکھتے ہوئے اس کی رائی جتنے قصور کو پہاڑ بنا کر دکھاتے ہیں۔
دو ہزار اٹھارہ میں میاں صاحب کی حکومت جاتے ہی عباسی صاحب کو ہر طرف مہنگائی کا طوفان نظر آنا شروع ہوگیا تھا، ڈالر کی قیمت بے قابو اور پاکستان پر آئی ایم ایف کی حکومت نظر آنا شروع ہوگئی۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ وہ کیا ٹوئٹس کرتے رہے ؟
09 اکتوبر 2018 میں لکھتے ہیں کہ
”اسٹاک مارکیٹ کریش کر گئی ۔ ڈالر 135 روپے کا ہوگیا ۔ بجلی گیس کے بعد مہنگائی کا ایک طوفان آنے
والا ہے ۔ تبدیلی کے لیے یہ سب برداشت کریں اور دل بہلانے کے لیے عثمان بزدار کو دیکھتے رہیں کیونکہ
اب کپتان نے کہہ دیا کہ اصل تبدیلی تو بزدار ہی ہے”۔
05 مئی 2019 قوم کو بتاتے ہیں کہ
”ہم IMF نہیں جائیں گے بلکہIMF کے حوالے ہی پاکستان کو کردیں گے”۔
20 مئی 2019 میں فیصلہ سنا دیا کہ
”پاکستان کی تباہی کے لئے IMF کے حوالے کردیا گیا اور IMF کا پہلا نشانہ پاکستانی
کرنسی کو ڈالر کے مقابلہ میں اتنا گرانا ہے کہ معیشت ہی تباہ ہوجائے”۔
22 مئی 2019 کے ٹویٹ میں ڈالر کا بایئکاٹ کرتے نظر آتے ہیں
Don’t let Pakistan fall into IMF’s trap #BoycottDollar
23 مئی 2019 میں ہمیں بتا یا کہ چونکہ سیکریٹری فنانس آئی ایم ایف کے شرائط ماننے کو تیار نہیں تھا اس لئے اسے ہٹا دیا گیا ۔ عباسی صاحب کے بقول ہم نے سب کچھ بیچ دیا۔
Secretary Finance Younis Dhaga, who was resisting tough IMF
conditions and was thus barred from arguing Pakistan case, has
been removed. Complete sell out."
26 جون 2019 کو عباسی صاحب دہائی دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایک دن میں ڈالر کی قیمت میں پانچ روپے اضافہ ہوگیا۔ عمران اب تک خاموش کیوں ہیں؟
”ایک دن میں ڈالر پانچ روپے سے زیادہ مہنگا ہوکر 163 کا ہوگیا لیکن ماضی میں روپے کی قدر
میں ذرا سی کمی پر تڑپنے والے عمران خان خاموش کیوں”؟
منظر نامہ بدلتا ہے پی ٹی آئی حکومت چلی جاتی ہے نئی حکومت آتی ہے جس میں شہباز شریف وزیر اعظم بنتے ہیں اب عباسی صاحب کے اصول بدلتے ہیں ۔اب جب موجودہ اپوزیشن جو بڑھتی ہوئی مہنگائی روپے کے قدر میں کمی ڈیفالٹ کے بڑھتے ہوئے خطرات پر شہباز حکومت پر تنقید کرتی ہے تو انصار عباسی اپوزیشن کے لتے لینا شروع کرتے ہیں کہ ”یہ اپنی سیاست کے لئے کیا پاکستان کو سری لنکا بنانا
چاہتے ہیں؟ یہ کیسی سیاست ہے” ؟ عباسی صاحب ! ناراض نہ ہوں تو ہم عرض کریں یہ کیسی صحافت ہے ؟ جو وہاں پیو تو حلال ہے جو یہاں پیو تو حرام ہے ؟
”تب” 28مارچ 2020 کو ڈالر کی مہنگائی پر سوال اٹھایا جاتا تھا کہ کہ کیا یہ ا سٹیٹ بنک آف پاکستان ہے یا اسٹیٹ بنک آف امریکہ؟
”جس انداز سے یہاں ڈالر مہنگا ہوتا ہے تو بعض اوقات سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ اسٹیٹ بنک آف پاکستان ہے
یاا سٹیٹ بنک آف امریکہ”؟
”اب ” 07 جون 2022 کو ڈالر مہنگا ہونے پر موجودہ اپوزیشن کو شرم دلائی جاتی ہے ،”شرم آنی چاہئے ان لوگوں کو جنہوں نے سیاسی مخالفت کی وجہ سے معاشی ایمرجنسی کی افواہیں پھیلائی جس کے نتیجے میں ڈالر ایک بار پھر مہنگا ہورہا ہے ۔ ایسے بے شرموں کو گرفتار کیا جائے”۔
”تب”31جولائی 2019 کو بتایا جاتا تھا کہ سب کے کاروبار تباہ ہوگئے ہیں۔ ایف بی آر کا ٹیکس نظام بھی تباہ ہوا کرتا تھا۔ ایسے میں جب کاروبار تباہ ہوں تو ایسے میں عباسی صاحب کو پریشانی لاحق رہا کرتی تھی کہ ٹیکس کلیکشن کیسے ہو؟
”کاروباری طبقہ انتہائی پریشان ہے ۔ جس سے پوچھیں رو رہا ہے کہ کاروبار تباہ ہوگئے اور اوپر سے
FBR نے ایسا ٹیکس نظام دے دیا جسے پورا کرنا ہی ممکن نہیں ۔ان حالات میں جب کاروبار ٹھپ
ہورہے ہوں اور تاجر برادری پریشان ہو اور بائیکاٹ کاسوچ رہی ہو تو پھر ٹیکس کہاں سے اکٹھا ہوگا”۔
”اب ”24 جون 2022 عباسی صاحب کی نظر میں شاید کاروبار آباد ہوگئے تھے اور ایف بی آر کا نظام بھی ٹھیک ہوگیا ۔اس لئے عباسی صاحب سودوزیاں کے فکر سے آزاد ہوکر لکھتے ہیں کہ
”پیسہ والے کروڑ پتیوں ارب پتیوں سے ٹیکس لیں چاہے وہ جتنا مرضی شور کریں”۔
”تب” 26 جون 2019 میں جب ڈالر ریٹ 161 روپے تھا۔ عباسی صاحب کی نظر میں ہم آئی ایم ایف کے تابعدار تھے اور ہم نے سب کچھ آئی ایم ایف کو بیچا ہوا تھا
Dollar trading at 161.50 Proves my story true that the IMF deal
was a complete submission and a total sell- out instead of a
bail- out package".
”اب” 29 اگست 2022 جب ڈالر ریٹ بے قابو تھا مہنگائی سے عام عوام بے بس ،آئی ایم ایف پیکیج کو عباسی صاحب کیسے خوشخبری بنا کر پیش کرتے ہیں”آئی ایم ایف نے پاکستان کے بیل آؤٹ پیکیج کی منظوری دے دی”۔ جیو نیوز
”پاکستان کو دیوالیہ کرنے کی سازش ناکام ہوئی”۔
تب سیل آؤٹ ہوا کرتا تھا اب بیل آؤٹ پیکیج بن گیا تب تابعداری تھی اب دیوالیہ کی سازش ناکام ہوگئی۔
تری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو میرے نامہ سیاہ میں تھی
”تب ”پی ٹی آئی حکومت کے نکما پن کو ظاہر کرنے کے لیے اسحاق ڈار کی بھی یاد دلاتے رہے جیسے 18 اپریل 2019 کے کالم
”اسحاق ڈار کی یاد تو آتی ہوگی”!!! وہ بھی سوچتے ہونگے یہ ہم سے کیا ہوگیا؟؟ میںلکھتے ہیں کہ
”بین الاقوامی معاشی ادارے بھی پاکستان کی معیشت کے بارے میں منفی خبریں دے رہے ہیں۔
ان حالات میں اسحاق ڈار کی یاد تو بہت سوں کو آتی ہو گی جن کی پالیسیوں کی وجہ سے نہ صرف پاکستان
کی ترقی کی شرح بہت اچھی رہی بلکہ دنیا بھر کے معاشی ادارے پاکستان کی معیشت کے بارے میں حوصلہ
افزا بات کرتے رہے ۔ اسحاق ڈار کا اصل قصور کیا تھا، اُس بارے میں اُنہوں نے اشاروں کنایوں میں
اپنے حالیہ انٹرویوز میں ایک دو مرتبہ بات بھی کی لیکن اب سوال یہ ہے کہ آگے کیا ہو گا اور کیسے پاکستان کی
معیشت کو بہتری کی طرف گامزن کیا جا سکتا ہے ، کیسے یہ مایوسی ختم ہو گی۔ اس نکتہ پر وزیراعظم عمران خان کو
سوچنا چاہئے ۔ ویسے سوچتے تو ”وہ” بھی ہوں گے کہ یہ کیا ہو گیا!!!
اب ”گھر کے بزرگ” بن کر تنقید اور آہ و زاری کی جگہ قوم کو مشورے دینے لگے جیسے 30 جون 2023 میں فرماتے ہیں کہ پاکستان کو کوشش کرنی چاہئے کہ یہ آئی ایم ایف معاہدہ آخری ہو ۔ اپنا گھر درست کریں ، معیشت کو بہتر بنانے کے لئے میثاق معیشت کریں ، کاروبار اور انوسٹمنٹ کو فروغ دیں ، ٹیکس نیٹ کو بڑھائیں ، روزگار کے مواقع پیدا کریں ۔ معیشت ترقی کرے گی تو ہی ہم غیروں کے دباؤ سے نکل پائیں گے” ۔
نہ صرف مشورے بلکہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر قوم کو اچھی اچھی خبریں سنانا بھی شروع ہوگئے تاکہ مہنگائی کی ماری قوم کا مورال بلند رہے
03 اگست 2022 میں یکے بعد دیگر ٹوئٹس سے کبھی ڈالر کو 8 روپے سستا کرتے ہیں تو کبھی 10 روپے ۔
اوپن مارکیٹ میں ڈالر اب تک 10 روپے سستا ہوچکا ہے ۔ خبر
آج انٹر بنک میں ڈالر تقریباً 8 روپے اب تک سستا ہوچکا ، خبر
اسی طرح 04 اگست 2022 کو قوم کو خوشخبری سناتے ہیں کہ ڈالر محض 220 روپے کا ہوگیا
”اوپن مارکیٹ میں ڈالر اس وقت 220 روپے کا ہوگیا ، خبر۔” یہی ڈالر پچھلی حکومت میں جب 161تک پہنچاتھا تب آئی ایم ایف کی تابعداری تھی جس میں پچھلی حکومت نے سب کچھ آئی ایم ایف کو بیچا ہوا تھا۔
صبح ہوتے ہی نکل آتے ہیں بازار میں لوگ
گٹھڑیاں سر پہ اٹھائے ہوئے ایمانوں کی