نورالدین زنگی دین دار بادشاہ
شیئر کریں
میر افسر امان
نورالدین زنگیابو قاسم ابن عمادالدین زنگی سلطنت کے بانی عمادالدین زنگی کے بیٹے تھے۔انہوں نے تاریخ میں بڑا نام پیدا کیا۔ نورالدین زنگی 1118ء میں پیدا ہوئے ١ور 15 مئی 1174ء کووفات پائی۔ کہا جاتا ہے بلکہ تاریخ میں لکھا ہے کہ ایک شخص خاشین نے انہیں زہر دیا تھا جس کی وجہ سے ان کے گلے میں سوزش ہوئی اور اسی وجہ سے ان کا انتقال ہوا۔انتقال کے وقت ان کی عمر 58سال تھی۔ نورالدین زنگی نے1146 سے1177ء تک دنیا کے ایک بہت بڑے حصہ پر28سال حکومت کی۔نورالدین زنگی کے اقتدار کے زمانے میں بیت المقدس پر صلیبیوں کا قبضہ تھا۔نورالدین زنگی نے عیسائیوں سے بیت المقدس واپس لینے کے لیے ایک مضبوط حکومت قائم کی تھی۔ اس وقت مسلمان حکمران چھوٹی چھوٹی حکومتوں کے باشاہ تھے۔ آپس میں اتفاق نہیں تھا۔ چناچہ نورالدین زنگی نے ان تمام چھوٹے چھوٹے مسلمانوں کی حکومت پر لڑ کر قبضہ کیا۔ہمیں معلوم ہے کہ حضرت عمر کے دور میں مسلمانوں نے بیت المقدس پر قبضہ کیا تھا۔ یہ بھی مشہور ہے کہ جب اسلامی فوجوں نے بیت المقدس کو فتح کیا توپادریوں نے مسلمان فاتحین سے درخواست کی تھی کہ ہم شہر کی چابیوں آپ کے خلیفہ کے ہاتھ میں دینا چاہتے ہیں۔ مسلمان کمانڈروں نے عیسائی پادریوں کی یہ درخواست منظور کی تھی۔ مدینہ سے جب چلے مسلمانوں کے خلیفہ حضرت عمر اور ایک غلام ساتھ ساتھ تھے۔دونوں باری باری اونٹ پر سوار ہوتے تھے۔ جب دونوں بیت المقدس پہنچے ۔ تو اونٹ پر سواری کی باری غلام کی تھی۔ جب بیت المقدس پہنچے تو اونٹ کی مہار خلیفہ حضرت عمر کے ہاتھ تھی اور غلام سواری کر رہا تھا۔ یہ نظارہ پادریوں اور دنیا نے دیکھا تھا۔ پھر پادریوں نے شہر کی چابیاں مسلمانوں کے خلیفہ حضرت عمرکے ہاتھ میں دیں۔ اصل میں ان کو ڈر تھا کہ شہر میں داخل ہو کر مسلمان فاتح فوجیں قتل و غارت کریں گی۔ تاریخ میں لکھا ہے کہ جب صلیبیوں نے بیت المقدس مسلمانوں سے چھینا تھا تو قتل غارت کا وہ بازار گرم کیا تھا، جس سے شیطان کو بھی شرم محسوس ہوئی تھی۔ مگر مسلمان فوجوں نے حضرت عمر کے دور اور پھرنورالدین زنگی کی نائب صلاح الدین کے دور میں عیسائیوں اچھا سلوک کیا تھا۔ کسی کو بھی قتل نہیں تاریخ کے اوراق اس خدا ترسی کے واقعا ت سے بھرے پڑے ہیں۔ پادریوں نے اپنی عبادت گاہ میں حضرت عمر کو نماز پڑھنے کی بھی درخواست کی تھی۔ حضرت عمر نے ایسا کرنے سے انکار کیا کہ کہیں میرے بعد اس عبادت گاہ کو مسجد نہ بنا لیں۔مسلمانوں نے بیت المقدس میں ایک دوسری جگہ پرحضرت عمر کے نام سے ایک مسجد تعمیر کی۔ نورالدین زنگی نے بیت المقدس کو فتح کرنے کے لیے چھوٹی چھوٹی مسلمان ریاستوں کو فتح کر کے ایک مضبوط فوج بنائی تھی۔ شروع میں نورالدین زنگی کا دارلحکومت حلب میں تھا۔ جب انہوں نے دمشق فتح کیا تو دارلحکومت دمشق میں منتقل کیا۔اس کے بعد صلیبیوں پر حملہ کر کے کئی علاقے فتح کیے۔ اس کے بعد ریاست ایڈیسا پر قبضہ کر لیا۔ اس فتح سے صلیبیوں کو بیت المقدس سے نکالنے کی راہ ہموار ہوئی۔ صلیبی ریاست انطاکیہ پر حملہ کر کے اسے بھی نورالدین زنگی نے قبضہ کر لیا۔ دوسری صلیبی جنگ میں عیسائیوں نے دمشق پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ اس پر سیف الدین غازی، معین الدین کی مدد سے اسے ناکام بنایا۔ دوسری صلیبی جنگ میں فتح کے بعد تیسری صلیبی جنگ میں نورالدین زنگی کے نائب صلاح الدین نے بیت المقدس پر قبضہ کر لیا۔اس زمانے میں مصر پر فاطمی حکومت تھی جو کمزور پڑگئی تھی۔ کیونکہ مصر فلسطین کے برابر تھا۔ صلیبی اس پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ نورالدین زنگی نے آگے بڑھ کر خود مصر کو فتح لر لیا۔ پہلی صلیبی جنگ کی ہولناکیوں اور تباکاریوں نے مسلمان حکمرانوں کو موقع فراہم کر دیا تھا کہ وہ آپس میں اختلافات کو ختم کر کے اپنی مشترکہ دشمن کے خلاف صف آرا ہو جائیں۔ اس سلسلے میں کوششیں بھی کی گئیں مگر ناکامی ہوئی اور اتحاد نہ ہو سکا۔خلفاء بغداد نے بھی بڑی کوششیں کیں۔پھر مزید تباہی سے بچانے کی لیے اللہ کی طرف سے مدد آئی۔ بلکہ اللہ تعالی کی طرف سے غیبی مدد آئی اوردنیا کے نقشہ پر نورالدین زنگی سامنے آئے ۔ نورالدین زنگی کی وجہ سے عام مسلمانوں میں حوصلہ پیدا ہوا۔ جب نورالدین زنگی نے ایڈیسا اور انطاکیہ پر قبضہ کر لیا تو عیسائیوں کو ہیبت زدہ کر دیا تھا۔عیسائیوں نے گھبرا کر یورپ کے عیسائیوں سے مدد طلب کی۔ان کی مدد کے لیے سینٹ برنارڈ نے عیسائیوں میں مذہبی جوش پیدا کیا۔1147ء میں جرمنی کا بادشاہ کرنراڈ سوم اور فرانس کا بادشاہ لوئی ہفتم ایک بڑی فوج لے کر اپنے عیسائیوں کی مدد کے لیے مذہبی جوش سے آگے بڑھے۔ ان کی متحدہ فوج نو لاکھ کے قریب تھی۔ لیکن فوج ہر قسم کی بداخلاقی کی حدود سے آزاد تھی۔ جنسی آوارگی کا دور دورہ تھا۔ دوسری طرف نورالدین زنگی ایک دین دار بادشاہ اور ان کی فوج صرف اسلامی اوصاف والی فوج تھی۔اس بڑی فوج کو نورالدین اور اس کی اتحادی سلجوقیوں کے ہاتھ مختلف مقامات پر شکستیں کھانی پڑیں۔ ان کی فوج کا ایک بڑا حصہ برباد ہو گیا۔مصر پر قبضہ کرنے کے بعد نورالدین زنگی نے بیت المقدس پر حملہ کرنے کی تیاری کر لی تھی۔ بیت المقدس کی مسجد عمر میں رکھنے کے لیے ایک بڑا اعلیٰ منبر بھی تیار کروا لیا تھا۔ نورالدین زنگی کی خواہش تھی کے اپنے ہاتھ سے یہ منبر مسجد عمر میں رکھے گا۔لیکن شاید اللہ کو یہ منظور نہیں تھا۔ابھی حملے کی تیاریاںکر ہی رہے تھے کہ خشاشین نے اسے ایسا زہر دیا جس سے اس کے گلے میں سوزش ہوئی اور اسی مرض سے نورالدین زنگی ایک دین دار عادل باشاہ اللہ کو پیارے گئے۔ صلاح الدین، نورالدین زنگی کے نائب اور مصر کے حکمران نے نورالدین کی زندگی کے بعد بیت المقدس فتح کیا۔نورالدین اپنے باپ عمادالدین زنگی کے طرح بہادر تھے۔ ایک بار اسے دشمنوں کی صفوں میں بار بار گھستے دیکھ کر ایک مصاحب قطب الدین نے درخواست کی اور کہا” اے ہمارے بادشاہ! اپنے آپ کو امتحان میں نہ ڈالیں۔ اگر آپ کو شہیدکر دیا گیا تو دشمن ان کے ملک کو فتح کر لیں گے۔ اور مسلمانوں کی حالت تباہ ہو جائے گی” نورالدین زنگی کو اس بات نے ناراض کر دیا۔ اور کہا” قطب الدین زبان کو روکو۔ تم اللہ کے حضور گستاخی کر رہے ہو۔مجھ سے پہلے اس دین اور ملک کا محافظ اللہ کے سوا کون تھا”۔ نورالدین زنگی ایک دین دار نیک سیرت اور شریعت پر چلنے والے بادشاہ تھے۔ وہ اپنے ساتھیوں کو بھی شریعت کا پابند بناتے تھے۔ انہیں دیکھ کر دوسرے ان کی تقلید کرتے تھے۔ اسی وجہ سے نورالدین زنگی کی حکمرانی کے دوران عوام میں اسلام پرعمل کرنے کا جذبہ پیدا ہواتھا۔ لوگ شریعت کے خلاف کام کرنے سے اجتناب کرتے تھے۔ نورالدین زنگی صرف ایک کامیاب فاتح ہی نہیں تھے بلکہ شفیق حکمران اور علم پرور بادشاہ تھے۔ ان کی حکومت میں مدرسوں اور شفاخانوں کا جال بچھا ہوا تھا۔ ان کے انصاف کے قصے دور دور تک مشہور تھے۔ وہ اپنے ذاتی اخرجات کے لیے بیت المال سے ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کرتے تھے۔ مال غنیمت کے پیسوں سے چند دکانیں خرید لی تھیں۔ ان دُکانوں کے کرایہ سے گھر کا خرچ چلایا کرتے تھے۔انہوں نے دوسرے حکمرانوں کی طرح اپنے ذاتی استعمال کے لیے بڑے بڑے محل تعمیر نہیں کروائے تھے۔بیت المال کے پیسوں سے مدرسوں شفاخانوں اور مسافر خانوں اور رفائے عام کے کام کیے۔دمشق میں ایک بڑا شفا خانہ قائم کیا۔ جس کی اس وقت کی دنیا میں مثال نہیں ملتی تھی۔ اس میں مریضوں کا مفت علاج ہوتا تھا۔ دوائیاں مفت ملتی تھیں۔ کھانے پینے اور رہائش کا مفت انتظام تھا۔نورالدین زنگی نے عوام پر سارے ناجائز ٹیکس ختم کر دیے تھے۔ نورالدین زنگی مظلوموں کی شکایت خود سنتے اور خود اس کی تحقیق کرتے تھے۔ نورالدین کی ان خوبیوں کی وجہ سے اس وقت کے ایک مورخ ابن تاثیر نے لکھا ہے کہ خلفائے راشدین اور عمر بن عبدالعزیز کے سوا نورالدین زنگی سے زیادہ بہتر فرمانروا میری نظر سے نہیں گزرا۔ برصغیر میں مغل بادشاہوںں میں ایک دین دار اور عادل بادشاہ اورنگزیب عالم گیربھی گزرے ہیں۔ وہ بھی بیت المال سے اپنی ذاتی زندگی پر ایک پیسا بھی خرچ نہیں کرتے تھے۔ قرآن کی خطاطی اور ٹوپیاں سی کر اپنا گزرا کرتے تھے۔ اورنگ زیب عالم گیر پورے برصغیر ،جس میں کابل بھی شامل تھا کے حکمران تھے۔ انہوں نے پچاس سال حکومت کی تھی۔ نورالدین زنگی کی زندگی کا واقعہ بھی تاریخ میں درج ہے کہ انہیں خواب میں رسول اللہۖ کی زیارت ہوئی تھی۔ اور ان کو کہا گیا تھا کہ دو شخص اس اس حلیہ کے میری قبر کو نقصان پہنچانا چاہے ہیں۔ نور الدین زنگی ان کی تلاش میں مدینہ شریف گئے۔ ان کو تلاش کر کے قتل کیا تھا۔ اللہ دیندار عادل بادشاہ کی قبر نور سے بھر دے آمین۔