نوازشریف کی واپسی اور نون لیگ کی خواہشات
شیئر کریں
پاکستان مسلم لیگ ن کو یہ یقین تھا کہ نگراں وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد ان کی مرضی اور منشاکے مطابق نواز شریف کی واپسی کی راہ میں حائل تمام کانٹے ہٹانے کا فریضہ انجام دے کر ان کی واپسی کو اتنا آسان بنادیں گے کہ انھیں وطن واپسی پر نہ توسیدھے جیل جانا پڑے گا اور نہ ہسپتال بلکہ ان کے ذاتی گھر جاتی امرا کو سب جیل قرار دے کر کلیرنس ملنے سے قبل ہی انھیں انتخابی عملی طے کرنے کی سہولتیں مل جائیں گی جبکہ عمران خان کو انتخابی میدان سے آؤٹ کرکے میدان ن کیلئے صاف کردیاجائے،نگراں وزیراعظم نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ببانگ دہل یہ اعلان کردیاتھا کہ ان کا نگراں دور حکومت دراصل سابقہ اتحادی یا شہباز حکومت کا تسلسل ہوگا اور وہ شہباز دور کی پالیسیوں کو ہی آگے بڑھاتے رہیں گے اور انھوں نے اپنے اس قول پر عمل کرتے ہوئے شریف برادران کے وفاداروں کو اپنی کابینہ میں شامل کرکے یہ ثابت کیا کہ نگراں حکومت دراصل شہباز حکومت کا ہی تسلسل ہے۔لیکن نگراں وزیر اعظم بھی شہباز شریف کی طرح تحریک انصاف کو دیوار سے لگانے کی تمام تر کوششوں کے باجود عمران خان کی مقبولیت کم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے،نواز شریف کی بلااحتساب واپسی کی راہ ہموار کرنے کیلئے نگراں وزیر اطلاعات نے یہ بڑھک مارنے کی کوشش بھی کی کہ نواز شریف جیل توڑ کر لندن نہیں گیاتھا،بلکہ عدالت کی اجازت سے لندن گیاتھا اس لیے اسے واپسی کا پورا پورا حق ہے لیکن یہ کہتے ہوئے یہ نہیں بتایا کہ جس عدالت سے اجازت لے کر وہ لندن گیاتھا اسی عدالت نے اسے مفرور یابھگوڑا قرار دیاہے یعنی صورت حال بالکل تبدیل ہوچکی ہے اور مفرور مجرم کی وطن واپسی کے بعد عدالت میں حاضری کیلئے جیل جانا لازمی ہوگا جس کے بعد وہ عدالت میں حاضر ہوکر عدالتی حکم عدولی کے اسباب سے عدالت کو مطمئن کرکے ہی ضمانت حاصل کرسکتاہے،یہی وہ اسباب ہیں جن کی بنیاد پر اپنے پسندیدہ چیف جسٹس کی آمد کے بعد ان کی اصول پسندی کی اور آنے سے قبل روایتی پنجابی فلموں والی بڑھک بازی کے ذریعے عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش کے سبب بعض حلقوں کو مبینہ طورپر ناراض کرلینے کی وجہ سے اب وہ اپنی واپسی کی تاریخ کا واضح اعلان کرنے کی وجہ سے مقررہ تاریخ پر وطن واپسی سے گریزاں ہیں۔ان کے پاکستان واپس آنے سے گریز کی بڑی وجہ یہ ہے کہ نئے چیف جسٹس کے عہدہ سنبھالنے کے باوجود نہ صرف یہ کہ ان کے سب سے بڑے سیاسی حریف پی ٹی آئی اور ان کے سربراہ کوانتخابات سے الگ رکھنے کا فی الحال کوئی بڑا سیاسی بندوبست نہیں ہوسکابلکہ ان کو اٹک جیل سے اڈیالہ منتقل کرنے کے تازہ ترین عدالتی حکم پر یہ تاثر بھی زائل ہوتا نظر آرہاہے کہ سابقہ چیف چیف جسٹس عمران خان پر خاص مہربان تھے۔ پی ڈی ایم اور خاص طور پر مسلم لیگ ن یہ سمجھتی ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کا سیاسی بندوبست جب تک مکمل نہیں ہوتا، انتخابی عمل ان کے لیے نقصان کا دہ ثابت ہو گا۔ایک طرف ملک کے معاشی حالات خطر ناک صورت اختیار کرچکے ہیں اور جس خوفنا ک انداز میں مہنگائی ہورہی ہے اس کے فوری بعد انتخابی میدان میں اترنا کسی بھی صورت میں حکمران اتحاد کے حق میں نہیں ہے۔اس کے علاوہ یہ بھی حقیقت ہے کہ نواز شریف کے حالیہ بیان سے مبینہ طور پر حکمران اتحاد اور اسٹیبلشمنٹ میں فاصلے کافی بڑھ گئے ہیں۔جہاں تک عام انتخابات کے صاف،شفاف اور منصفانہ ہونے کا تعلق ہے تو بنیادی طور پر ہماری سیاسی اور انتخابی تاریخ میں منصفانہ اور شفاف انتخابات کبھی ہماری ترجیح کا حصہ نہیں رہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو کچھ بھی ہم نے طے کرنا ہوتا ہے وہ انتخابی کھیل کے سیاسی دربار کوسجانے سے پہلے ہی طے کرلیا جاتا ہے۔حالیہ سیاسی بحران میں جمہوریت ہو یا پارلیمنٹ یا ہمارے سیاسی فیصلے پہلے سے زیادہ کمزور ہوئے ہیں۔اس کمزوری کا فائدہ براہ راست ان قوتوں کو ہورہا ہے جو واقعی فیصلہ ساز ہیں۔ نگران حکومت کو ملنے والے مالیاتی اختیارات کو اسی کھیل کے تناظر میں دیکھا جائے کہ مستقبل کا منظرنامہ کس کے کنٹرول میں ہوگا اور ریموٹ بھی سیاسی لوگوں کے ہاتھوں سے نکل جائے گا۔نگران حکومت بننے کے بعدجس طرح انتخابی عمل میں تاخیر کی گئی ہے اس سے خود پی ڈی ایم یا دیگر حکومتی اتحادی جماعتوں کو نقصان پہنچاہے اور اب انتخابات میں کس کے ہاتھ میں کیا آئے گا یہ خود سوالیہ نشان ہے۔
اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد آئین کی دفعہ 58 کی ذیلی شق ایک کے تحت قومی اسمبلی کے علاوہ وفاقی کابینہ کے ارکان بھی اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش کر دیے گئے تھے، کابینہ ڈویژن کے مطابق 3 الگ الگ نوٹیفکیشنز کے ذریعے 33 وفاقی وزرا، 7 وزرائے مملکت، 5 مشیروں اور 38 معاونین خصوصی کو عہدوں سے فارغ کیا گیا تھا، اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ عوام کو ریلیف پہنچانے کیلئے کپڑے تک بیچ دینے کا دعویٰ کرنے والا وزیر اعظم وفاقی کابینہ کے نام پر کس قدر بھاری بھر کم فوج کو قومی خزانے سے سرفراز کررہاتھااورقومی خزانے سے سرفراز ہونے والے ان لوگوں میں سے بہت سے وزرائے کرام ایسے بھی تھے جن کو کوئی محکمہ تک نہیں سونپا گیا تھا گویا ان کے پاس کرنے کو کوئی کام نہیں تھا۔ اس کے باوجود قومی خزانے پر بوجھ بنے ہوئے تھے، اس طرز عمل کو ’اقربا پروری‘ کے سوا کوئی دوسرا نام نہیں دیا جا سکتا۔ سابقہ اتحادی کابینہ کے ساتھ ہی اس کی ایک درجن کے قریب کمیٹیاں بھی ختم ہو گئیں جن کے ارکان اور چیئرمین کے طور پر کابینہ کے ارکان مزید بہت سی مراعات بھی حاصل کر رہے تھے، ایک اندازے کے مطابق کابینہ کے ایک رکن پر ایک کروڑ روپے ماہانہ سے زیادہ اخراجات ہو رہے تھے ہماری قومی اسمبلی اور سینٹ کی 50 کمیٹیاں ہیں اور ہر کمیٹی کا ایک چیئرمین ہے۔ہر چیئرمین کے ذاتی دفتر کی تیاری پر 1994 میں 100-100 کروڑ روپے خرچ ہوئے تھے۔ہر چیئرمین ایک لاکھ 70ہزار روپے ماہانہ تنخواہ لیتا رہا ہے، اسے گریڈ 17 کا ایک سیکریٹری،گریڈ 15 کا ایک اسٹینو،ایک نائب قاصد، 1300cc کی گاڑی،600لیٹرپٹرول ماہانہ،رہائش کے سارے اخراجات،بل وغیرہ اس کے علاوہ ملتے تھے۔ اس کے علاوہ اجلاسوں پر لگنے والے پیسے،دوسرے شہروں میں آنے جانے کیلئے فری جہاز کے ٹکٹ۔ایک اندازے کے مطابق یہ کمیٹیاں اب تک اس غریب بلکہ قلاش ملک کا کھربوں روپے کا دودھ پی چکی تھیں،لیکن قوم کے غم دور کرنے کیلئے اپنی کپڑے فروخت کرنے والے شہباز شریف کے نہ صرف کپڑے فروخت نہیں ہوسکے بلکہ ان میں اضافہ ہوتا رہاا ور ان میں لگائے جانے والے کلف میں بھی کوئی کمی نہیں نظر آئی۔نگراں حکومت نے ابھی تک اپنی کابینہ کا حجم 50 سے کم رکھاہے جس میں کم وبیش ایک تہائی کا شمار شہباز شریف اور نواز شریف کے وفاداروں میں ہوتاہے،جہاں تک پاکستانی سیاستدانوں اور بیوروکریٹس حضرات اور افسران کے رہن سہن کے طور طریقے اور اس کیلئے اس غریب قوم کے خزانے سے خرچ کی جانے والی رقوم کا تعلق ہے تو اس کااندازہ اس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ گورنر ہاؤس سندھ 32ایکڑ،گورنر ہاؤ س پنجاب 700کنال،گورنر ہاؤس بلوچستان 22ایکڑ اور گورنر ہاؤس خیبر پختونخوا سوا کلو میٹر رقبے پر محیط ہے۔گورنر ہاؤس مری بھی8.75ایکڑ پر مشتمل ہے۔اسی طرح تمام چیف منسٹر ہاؤسز بھی بہت بڑے رقبے پر محیط ہیں۔ایوان صدر اسلام آباد بھی سینکڑوں کنا ل پر محیط ہے۔جس میں ہزاروں کی تعداد میں ملازمین رکھے گئے ہیں اور ان پر کروڑوں روپے کے ماہانہ اخراجات ہو رہے ہیں۔اس کے علاوہ کمشنر سرگودھا کی رہائش گاہ ایک سو 4 کنال پرمحیط ہے۔ یہ پاکستان میں کسی سرکاری ملازم کی سب سے بڑی رہائش گاہ ہے۔ اس کی نگہداشت مرمت اور حفاظت کیلئے33ملازم ہیں۔ دوسرے نمبر پر ایس ایس پی ساہیوال کی کوٹھی آتی ہے اس کا رقبہ98کنال ہے۔ڈی سی او میانوالی کی کوٹھی کا سائز 95 کنال اور ڈی سی او فیصل آباد کی رہائش 92 کنال پر تعمیرشدہ ہے۔صرف پنجاب پولیس کے7 ڈی آئی جیز اور 32ایس ایس پیز کی رہائش گاہیں 860 کنال پر مشتمل ہیں۔صرف پولیس کے ان سرکاری محلات کی حفاظت مرمت اور تزئین و آرائش پر ہرسال 80 کروڑ روپے سے کچھ اوپر خرچ ہوتے ہیں۔جو لاہور کے3 بڑے ہسپتالوں کے سالانہ بجٹ کے برابرہیں۔2 ہزار 6 سو 6 کنال پر مشتمل ان رہائش گاہوں کی نگہداشت کیلئے 30 ہزار ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ملازمین ہیں۔صرف ان کے کھانوں پر 18 سے 20 کروڑ روپے سالانہ خرچ ہوتے ہیں،ایک سرکاری اندازے کے مطابق یہ تمام رہائش گاہیں شہروں کے ان مرکزی علاقوں میں ہیں جہاں زمین کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں۔لہٰذا اگر یہ تمام رہائش گاہیں بیچ دی جائیں تو70 سے 80 ارب روپے حاصل ہو سکتے ہیں۔یہ رقم واپڈا کے مجموعی خسارے سے دوگناہے،گویا اگر یہ رہائشیں بیچ کر رقم واپڈا کو دے دی جائے تو واپڈا کو4 سال تک بجلی کی قیمت بڑھانے کی ضرورت نہیں ہو گی۔اگر یہ رقم ہائی وے کو دے دی جائے تو وہ موٹروے جیسی2 سڑکیں اورکراچی سے پشاور تک نیشنل ہائی وے جیسی مزید ایک سڑک بنا سکتی ہے۔اگر یہ رقم محکمہ صحت کے حوالے کر دی جائے تو یہ محکمہ پاکستان میں ”پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز ”جیسے 70 ہسپتال بنا سکتا ہے۔اگر یہ رقم ”واسا ”کے حوالے کر دی جائے تو وہ اس رقم سے سمندر کا پانی صاف کرنے کے 12 پلانٹ لگا سکتا ہے۔دنیا بھر میں سرکاری رہائشیں سکڑ رہی ہیں آپ برطانیہ چلے جائیں وہاں آپ کو 10 ڈاؤئنگ اسٹریٹ (وزیراعظم) سے لے کر چیف کمشنر تک اورڈپٹی سیکرٹری سے ڈپٹی وزیراعظم تک سب افسر اورعہدیدار 2 یا3 تین کمروں کے فلیٹس میں رہتے ہوئے دکھائی دیں گے۔آپ امریکہ چلے جائیں وہائٹ ہاؤس دیکھیں دنیا کاصدارتی محل پنجاب کے گورنر ہاؤس سے چھوٹا ہے۔جاپان میں تو وزیراعظم ہاؤس سرے سے ہے ہی نہیں۔ یہ بڑی بڑی مملکتوں کے سربراہان کی صورتحال ہے،رہے سرکاری ملازم بیوروکریٹ اعلیٰ افسر اورعہدیداران تو آپ پورا یورپ گھوم پھرلیں آپ کو یہ لوگ عام بستیوں کے عام فلیٹوں میں عام شہریوں کی طرح رہتے نظر آئیں گے۔ان کے گھروں میں نہ لان ہوں گے نہ ڈرائیو وے اور نہ ہی بیسیوں نوکر چاکر مگر پاکستان میں آپ ایک ضلع سے دوسرے ضلع کا دورہ کرلیں آپ کو تمام بڑی عمارتوں،تمام بڑے محلات میں ضلع کے ”خادمین“فروکش نظر آئیں گے۔خلقت خدا مر رہی ہے اور ان کے افسر ٹیکسوں کی کمائی پر پلنے والے، باغوں میں جھولے ڈال کر بیٹھے ہیں۔آئی ایم ایف کے مقروض ملک میں 90ہزار گاڑیاں،220ارب کا مفت پیٹرول اور 550ارب روپے کی سالانہ مفت بجلی افسران کو دی جائیگی تو کیا یہ ملک دیوالیہ نہیں ہوگا۔یہ کب تک چلے گا۔لیکن کسی بھی آنے والی حکومت کو اس کی فکر نہیں ہے،کیونکہ ہر آنے والی حکومت سمجھتی ہے یا اسے یہ سمجھایاجاتاہے کہ ان افسران کو پرتعیش رہائش گاہیں اور طرز زندگی دے کر دراصل وہ ان سرکاری افسران کو اپنی حفاظت پر مجبور کررہی ہے۔