میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
رہن رکھی انگوٹھی (عالمی ادب سے منتخب افسانہ)

رہن رکھی انگوٹھی (عالمی ادب سے منتخب افسانہ)

جرات ڈیسک
اتوار, ۲۴ ستمبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

تحریر: ریاض حسین محمود (فلسطین)
مترجم: محمدافتخارشفیع (ساہیوال)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب تک آپ ایسی کہانیاں پڑھنے کے عادی ہوں گے، جن کا آغاز رومانوی قسم کے جملوں سے ہوتاہے۔
جیسے نرم اورخنک ہوا چل رہی تھی۔۔۔
یہ ایک مہکتی ہوئی گلابی شام تھی۔۔۔
جب ہم آپس میں ملے تو۔۔۔
تاہم میری کہانی کا آغاز اس خوب صورت روایت سے بالکل مختلف ہے۔یہ میری زندگی کا ایک سیاہ ترین دن تھا جب ایک سانڈ جیسے پولیس افسرنے ہتھکڑیاں ڈال کر مجھے حوالات میں دھکیل دیا۔مجھے جس تھانے میں بندکیا گیا،وہاں شدید سردی تھی، تھانے کے عملے کے چہروں سے بھی سردمہری عیاں تھی۔سچ پوچھیں تومجھے بچپن ہی سے پولیس والوں کی شکل دیکھنے سے نفرت رہی ہے۔انھیں بھی میرے جیسے بے گھرمزدور سے کیسے محبت ہوسکتی ہے۔جو ان کے کسی کام کانہیں۔اگردیکھیں تومیرے زندہ دل اور بااخلاق ہونے کی وجہ سے زیادہ ترلوگ مجھ سے مل کرخوش ہوتے ہیں۔انھیں میرا عِلم اور حِلم پسندہے، لیکن ایک پولیس والا میرے جیسے عام آدمی کو کیسے ایک قابل ذکر شخصیت جان سکتاہے۔
ہمارے علاقے کا پولیس اسٹیشن گاؤں کے مرکزی چوک میں واقع ہے۔جس گلی سے مجھے گرفتارکیاگیا،وہ اس چوک سے تقریباً پانچ سو میٹرکے فاصلے پرہے۔مکروہ اورکریہہ شکل والے پولیس افسرنے میرے ہاتھوں میں ہتھکڑی ڈالی اور دھکا دیتے ہوئے غصے سے چلایا!
تیزی سے قدم اٹھاؤ!!
مجھ سے چپ نہیں رہاگیا،میں نے جواب میں کہا۔
مرو تم!اللہ تمھاری اپنی زندگی کاسفر تیزکرے، تاکہ موت کی منزل تک آسانی سے پہنچ سکو!
میری بات سن کراس نے زور سے اپنی لات میری کمرپررسیدکی۔اس کے بدلے میں،مجھ سے کچھ نہ ہوپایا تو انتقامی کارروائی کے طورپرمیں نے بھی اپنی پیشانی اسی زورسے زمین پردے ماری۔
تمھیں کم ازکم بدلہ لینے کاطریقہ مجھ سے سیکھنا چاہیے
قانون نافذکرنے والے غیرقانونی شخص نے مجھے ایک اور لات رسیدکی۔جوابی حملے کے طورپرمیں نے بھی اپنی لات زمین پردے ماری۔
کیاہم سب مٹی کے بنے ہوئے نہیں ہیں؟اور ہم نے کیڑے مکوڑوں کا رزق نہیں بننا؟
میں نے زمین پرتھوکااوراس جگہ کواپنے پاؤں کی ایڑی سے مسل دیا۔
پولیس افسر نے میری ہتھکڑی کومزیدکَس دیا،وہ سختی سے مجھے اپنی طرف کھینچ رہاتھا۔
میں نے پولیس والے کی شکل کو غورسے دیکھا۔وہ مجھے ہجمیری کاہم شکل لگا۔آپ ہجمیری کونہیں جانتے،یہ وہی شخص تھا جس کا میں نے فاقہ کشی کی حالت میں گدھا چرایاتھا،میں آسانی سے اپنا کام کرچکا تھا۔ وہ تو موت آئے اس کی بیوی کو جوبے وقت نیندسے بیدار ہوگئی اوراس نے چیخنا چلانا شروع کردیا۔شور کی آوازیں سن کر لوگ اکٹھے ہوگئے اور میراپول کھل گیا،تو میں یہ کِہ رہاہوں:یہ پولیس والا بھی ہجمیری کی طرح تنگ پیشانی والا تھا،بالکل جیسے کسی یتیم بچے کی تنگ پیشانی ہوتی ہے۔میرے پاؤں کی انگلیاں میرے جوتوں سے باہرنکل رہی تھیں۔
یہ صورت حال میرے لیے خاصی پریشان کن تھی۔میں وہاں سے فرار ہونے کا سوچنے لگا،میراذہن بڑی تیزی سے کام کررہاتھا۔خدانخواستہ اگرمیں فرار کی اس کوشش میں ناکام ہوجاتاتو پھرمجھے ساری عمرجیل میں گلتے سڑتے ہوئے گزارناپڑنی تھی۔میری بے گناہی سے کسی کوکوئی غرض نہ تھی۔قانون اندھا ہوتاہے اورعدالت بھی اس قانون کی پابندہوتی ہے۔ ایک جج ہرمعاملے میں تحریر شدہ دستاویزات کوسامنے رکھتاہے،ثبوت مانگتا ہے،چاہے وہ جھوٹ کاپلندہ ہی کیوں نہ ہوں۔
میں چوں کہ پاگلوں کی جنت میں رہتا ہوں اس لیے مکمل طورپراپنے حواس کھوچکاہوں،اب مجھے اقراری مجرم قرار دے دیناچاہیے۔کیوں کہ مجھے اب اپنے کسی بھی جرم کااقرار کرتے ہوئے ذرابھی خوف یاشرمندگی نہیں ہوتی۔مجھے پانچ سال کی سزا تو اپنی پہلے جرم پر مل سکتی تھی، وہی گدھا چرانے کاجرم۔
دوسرا جرم یہ تھا کہ میں نے مُکا مارکر صرافہ بازار کے ایک سودخورجیولر کے اگلے دو دانت توڑ دیے تھے۔ اس نے اپنی دکان پر میری بیوی کی شادی کی رہن رکھی ہوئی سونے کی انگوٹھی واپس کرنے سے انکارکردیاتھا۔یہ سچ ہے کہ مجھے ادھارلی گئی رقم واپس کرنے میں کچھ تاخیرہوگئی تھی لیکن اس میں میرا کوئی قصور نہیں تھا، میرے پولش نسل کے اسرائیلی مالک نے مجھے تنخواہ دینے میں اچھی خاصی تاخیرکردی تھی۔میرے اس جرم کی سزابھی کم ازکم پانچ سال ملے گی۔
اس وقت مجھے اپنی بیوی اور شیرخواربچے کی یاد بھی آرہی تھی،مجھے ان دونوں سے سخت نفرت ہے۔بچے سے خاص طورپر،کیوں کہ وہ سخت سردی میں پیداہواتھا۔اس کی پیدائش کے دوسرے ہی دن،مَیں ایک لانڈری سے بچوں کا اونی کمبل چراتے ہوئے پکڑاگیاتھا، لانڈری کے بڑی تونداور بھاری جیب والے مالک نے میرے خلاف شکایت کردی تھی۔اتنے بڑاجرم کی سزا کم ازکم عمرقیدتوہوتی ہے۔
سچ پوچھیے تومیں اب پاگلوں کی طرح ہرجرم کوتسلیم کرنے کاعادی ہوچکاہوں۔اس وقت میری دلی خواہش تھی کہ اپنی بیوی سے ملوں اور اسے اس خفیہ جگہ کے بارے میں بتاؤں جہاں میں نے ان جرائم سے حاصل ہونے والا اربوں روپے کا مال چھپایا ہواہے، تاکہ وہ میری اسیری کے دنوں میں اپنی اور بچے کی کفالت کرسکے۔
پولیس اسٹیشن کا فاصلہ اب دوسو میٹر رہ گیاتھا۔میں نے کنکھیوں سے پولیس افسر کی جانب دیکھا تووہ بڑی حقارت سے میری ہی طرف متوجہ تھا۔میں نے کسی میمنے کی طرح لجاجت سے گزارش کی:
کیاتم مجھ پرایک احسان کرسکتے ہو،میں اس کے بدلے میں تمھیں دس پاؤنڈ دوں گا؟
مجھے میرے بیوی بچوں کی قسم میں اپنا وعدہ پوراکروں گا۔
مجھے تھوڑی دیرکے لیے گھرجانے دو،میں واپس آجاؤں گا
تم ایک پولیس والے کورشوت دے رہے ہو،اس کی سزاجانتے ہو؟یہ توبہت بڑا جرم ہے
یہ بات کرکے اس نے اپنی رفتار تیزکرلی۔ہتھکڑی کی وجہ سے مجھے بھی تیز تیزچلناپڑا۔
راستے میں سڑک پرگاڑیوں کا تیزشور تھا، فٹ پاتھ پر پیدل چلنے والوں کی کثرت تھی۔
اوہ میرے خدا! بے جان مشینوں کو سڑکوں پرچلنے کی پوری آزادی ہے،ایک انسان ہے جو اس ملک میں نسل درنسل غلام بنالیے گئے ہیں۔ایک میں ہوں کہ زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے محروم کردیاگیاہوں۔میری آزادی کی کوئی قدرنہیں،میری نجی زندگی سے کسی کوکوئی دل چسپی نہیں۔
میں عدالت میں موجود جج کوکیسے اس بات کاقائل کرسکوں گا کہ مجھے اس معاشرے نے مجبور اور پاگل بناکرمجھ سے میری انسانیت چھین لی ہے۔
میں نے اپنی بیوی اوربچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے گدھا چوری کیا،کیوں کہ میں پاگل تھا۔
میں نے اپنے شیرخوار بچے کوسردی کی شدت سے بچانے کے لیے کمبل چوری کیا۔کیوں کہ میں پاگل تھا۔
میں نے لڑائی میں جیولرکے دودانت اس لیے توڑ دئیے تھے کہ وہ اپنے پاس رہن رکھی ہوئی میری انگوٹھی واپس نہیں کررہاتھا، اس دن وہ انگوٹھی بیچ کرمیں اپنے گھرکاراشن لینا چاہتاتھا۔ میرے بیٹے کو سکول کی نئی وردی چاہیے تھی اور میری بیوی کا جوتا پرانا ہوکر بگھارا بن گیاتھا۔
ہم پولیس اسٹیشن کے قریب پہنچے تو میں پوری طرح اپنے مستقبل سے مایوس ہوچکا تھا،اب کوئی بھی یہاں میری ضمانت دینے کے لیے نہیں آئے گا،شایدمیرے بیوی بچوں کوبھی مجھ سے ملنے کی اجازت نہ ہوگی۔مجھے زندگی کے بچے کھچے دن ایک بدبودار قیدخانے میں گزارنے پڑیں گے۔تاریک اور ویران قیدخانہ۔
میں خیالوں کے یہ تانے بانے بُن ہی رہاتھا کہ اچانک دور سے تیز روشنی چمکی جس سے ہماری آنکھیں چندھیاگئیں۔یہ ایک تیزرفتار کار کی ہیڈلائٹس تھیں،جو بڑی تیزی سے ہماری طرف بڑھ رہی تھی۔آن واحد میں وہ ہمارے قریب آن پہنچی۔میں نے موقع دیکھتے ہی پولیس والے کو جو میرے آگے آگے چل رہاتھا،زور سے گاڑی کی طرف دھکادیا۔مجھے اس کی خوف ناک چیخ سنائی دی۔تیزرفتار کارکی ٹکر سے وہ بے ہوش ہوچکاتھا۔میں نے ہتھکڑی اتاری اور تیزی سے بھاگناشروع کردیا۔
اب میں ہتھکڑی سے زخمی ہونے والی اپنی کلائی پرمرہم پٹی کروانے کے لیے ہسپتال میں موجود ہوں،اوریہاں اپنے بیوی اوربچوں کا
انتظارکررہا ہوں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انگریزی میں عنوان: The Mortgaged Ring
مصنف کا تعارف:ریاض حسین محمود
ریاض حسین محمود(Riad Hosain al.mahmoud) کا شمار فلسطین کے اہم افسانہ نگاروں میں ہوتاہے۔وہ 1936ء میں حیفہ میں پیداہوئے۔ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی۔ان کے والدین ہجرت کرکے اردن آگئے۔ ریاض حسین محمود نے وہاں سے انگریزی زبان وادب میں ایم اے کیا۔انھوں نے عربی اورانگریزی دونوں زبانوں میں لکھنا شروع کیا۔ ریاض حسین محمود نے فلسطینی افسانے میں اسرائیل میں موجود ظالمانہ قوانین اور عام فلسطینی شہریوں کی کس مپرسی کواپنی تحریروں کا موضوع بنایا ہے۔ ان کے طنزیہ اسلوب میں سے ایک خاص المیاتی فضا جنم لیتی ہے۔ ریاض حسین محمود کے افسانوں کے کردار بہ ظاہربڑے ہونق لگتے ہیں لیکن ان میں دانش مندی پائی جاتی ہے۔
٭٭٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں