کاسمیٹک سرجری کا بڑھتا رجحان۔۔جو شکل مل گئی اس پر خوش رہنا سیکھیں!!
شیئر کریں
٭ایلیٹ کلاس کے علاوہ اپر مڈل کلاس اور مڈل کلاس میں بھی موجود مرد و خواتین اپنے جسم یا چہرے میں کچھ نہ کچھ تبدیلی کروا ہی لیتے ہیں،بوٹوکس، فلرز، فیس لفٹنگ عام عوامل بن چکے ہیں
٭جن کے سر پر بال نہیں ہیں، وہ بال لگوانے پہنچ جاتے ہیں، جنہیں چہرہ بھرا بھرا سا نہیں لگتا وہ فلرز لگوا لیتے ہیں۔کچھ عرصے سے پی آر پی نامی مہنگے انجیکشنز بھی کافی مقبول ہو رہے ہیں
٭کاسمیٹک سرجری بھی اتنی ہی رسکی اور خطرناک ہوتی ہے جتنی کی باقی سرجریز،اگر سرجری کروانا ناگزیر ہو تو کسی ماہر سرجن سے ہی کروائیں تاکہ نقصان کا اندیشہ کم سے کم ہو(ڈاکٹرنوشیبا)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان میں بھی کاسمیٹک سرجریز کافی مقبول ہو چکی ہیں۔ ایلیٹ کلاس کے علاوہ اپر مڈل کلاس اور مڈل کلاس میں بھی موجود مرد و خواتین اپنے جسم یا چہرے میں کچھ نہ کچھ تبدیلی کروا ہی لیتے ہیں۔بوٹوکس، فلرز، فیس لفٹنگ عام عوامل بن چکے ہیں۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اپنے پسندیدہ فنکاروں کے چہرے تبدیل ہوتے ہوئے دیکھ کر خود اپنے چہرے سے غیر مطمئن ہو جاتے ہیں۔جن کے سر پر بال نہیں ہیں، وہ بال لگوانے پہنچ جاتے ہیں۔ جنہیں چہرہ بھرا بھرا سا نہیں لگتا وہ فلرز لگوا لیتے ہیں۔کچھ عرصے سے پی آر پی نامی انجیکشنز بھی کافی مقبول ہو رہے ہیں۔ یہ انجیکشنز دس سے 15 ہزار روپے میں لگتے ہیں۔اس عمل میں معالج مریض کے خون کے نمونے کو سینٹری فیوج نامی آلے میں ڈال کر پلیٹ لیٹس سے بھرپور پلازما بناتے ہیں۔ وہ اس پلازما کو انجیکشن میں بھر کر مریض کے جسم کے کسی دوسرے حصے میں لگاتے ہیں۔اس کا مقصد اس حصے میں مخصوص بائیوپروٹینز یا ہارمونز کے ارتکاز کو بڑھانا ہوتا ہے۔ یہ عمل گنج پن کے عارضی علاج اور اینٹی ایجنگ ٹریٹمنٹ کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔
اگرچہ سائنس سے ثبوت نہیں ملتا کہ پی آر پی انجیکشنز لگوانے سے بڑھتی عمر کے اثرات کم ہو سکتے ہیں لیکن لوگ عارضی فائدے کے لیے ہی اس عمل پر ہر چھ ماہ میں ہزاروں روپے خرچ کرتے ہیں۔لوگ پی آر پی انجکشن اپنے سر کی جلد اور چہرے کی جلد میں لگواتے ہیں۔ یہ انجیکشنز وقتی طور پر ان حصوں میں نشونما کو فروغ دیتے ہیں، لیکن چھ ماہ کے کورس کے بعد معاملہ پھر وہیں آ جاتا ہے۔ اس کے بعد پھر سے چھ ماہ کا کورس شروع کرنا پڑتا ہے۔بشریٰ انصاری کا ایک انٹرویو بھی کافی وائرل ہوا جس میں انہوں نے ایسے عوامل کو بڑھتی عمر کے مرد و خواتین کے لیے ٹھیک اور نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے لیے غلط قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ نوجوان بچیوں کو اپنے چہرے کو چھیڑنے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنی بڑھتی ہوئی عمر کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے کبھی کبھار اپنے چہرے پر کوئی عمل کروا لیتی ہیں، مگر انہیں اپنا چہرہ اسی طرح اچھا لگتا ہے، تاہم نوجوانوں کو ایسی سرجریز کروانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ جب انہیں ضرورت ہو تب بے شک کروا لیں۔ کاسمیٹک سرجری کی ضرورت کو عمر سے جوڑنا بھی غلط ہے۔ ہر عمر کا اپنا ایک حسن ہوتا ہے۔ انسان کو اپنی عمر اور اس کے اپنے اوپر ہونے والے اثرات کو اپناتے ہوئے اپنی زندگی گزارنی چاہیے۔جو شکل اور جسم مل گیا۔ اس پر خوش رہیں۔ اسے تندرست و توانا رکھنے کی کوشش کریں۔ اس میں تبدیلی لا کر اپنی شناخت تبدیل نہ کریں۔لوگ نہ آج آپ سے مطمئن ہوں گے نہ کل۔ تو ان کی خاطر خود کو ان عوامل سے نہ گزاریں۔ آپ جیسے ہیں خوبصورت ہیں۔ اس خوبصورتی کو قبول کریں اور معاشرے کی توقعات کو ایک طرف رکھ کر اپنے لیے اپنی زندگی گزاریں۔کاسمیٹک سرجری ایک ایسا عمل ہے جس میں طبی ضروریات کے بجائے چہرے اور جسم کے خدوخال کو خوبصورت بنانے کے لیے آپریشن کیا جاتا ہے۔ آج کل پاکستان سمیت دنیا بھرمیں اس کارجحان بڑھتا جارہا ہے جس کی وجہ اسکول،کالجز میں ایک دوسرے کی شکل اور جسامت کا مذاق اڑانا، میڈیا پر خوبصورتی کا معیار مقرر کرنا اور رشتے کے لئے گورے رنگ کی ڈیمانڈز وغیرہ شامل ہیں۔ پاکستان کی اگر بات کریں تو یہاں زیادہ تر ناک کی سرجری، لائپوسکشن اور فیس لفٹ کروانے کا رجحان زیادہ ہے اس کے علاوہ رنگ گورا کرنے والے انجیکشنز بھی بڑی تعداد میں لگوائے جاتے ہیں۔ یہ سرجریز کافی مہنگی ہوتی ہیں جن کی شروعات ہی 35ہزار سے ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ انسانی صحت کے لئے نقصان دہ بھی ہوتی ہیں۔کچھ عرصہ پہلے نوجوانوں میں پلاسٹک یا کاسمیٹک سرجری کے بڑھتے ہوئے رجحان کے پیشِ نظر اسلام آباد میں ہونے والی ایک کانفرنس میں ماہرین نے بتایا کہ لوگ فوری نتائج حاصل کرنے کے لئے کاسمیٹک سرجری کا سہارہ لیتے ہیں جس میں کسی حد تک خطرہ رہتا ہے کیونکہ معاملات غلط بھی ہوسکتے ہیں۔ چاقو سے علاج میں خطرہ تو ہوگا ہی جلد کے امراض کے ماہر ڈاکٹر ندیم احمد نیازی کہتے ہیں کہ چاقو یا لیزر سے علاج میں خطرے کا رسک تو زیادہ ہوتا ہی ہے۔ اور کچھ سرجریز میں خطرے کا رسک بہت زیادہ ہوتا ہے لیکن لوگ اس پر توجہ نہیں دیتے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اپنے پاس سرجری کے لئے آئے مریضوں کو ورزش کر کے قدرتی طریقے سے وزن کم کرنے کا مشورہ دیتے ہیں جس سے وقت تو لگتا ہے مگر کوئی نقصان نہیں ہوتا اور ہر لحاظ سے صحت بہتر ہوتی ہے۔ جبکہ سرجریز کا مشورہ وہ صرف ان لوگوں کو دیتے ہیں جن کا وزن اتنا زیادہ ہو کہ وہ چل پھر نہ سکتے ہوں اور فوری طور پر چربی ختم کرنا لازمی ہو۔ کس طرح کے نقصانات ہوسکتے ہیں؟ متلی رگوں سے خون رسنا جسم میں درد اعصابی نقصان گنج پن کا شکار ہونا مختلف الرجیز خون کی کمی کا شکار ہونا ایک اور ماہر سرجن اور کاسمیٹولوجسٹ محترمہ نوشیبہ نے کہا کہ کاسمیٹک سرجری بھی اتنی ہی رسکی اور خطرناک ہوتی ہے جتنی کی باقی سرجریز اور وہ اپنے مریضوں سے کہتی ہیں کہ سرجری کا فیصلہ کرتے ہوئے لفظ کاسمیٹک کو بھول کر سرجری کو یاد رکھا کریں۔ اگر سرجری کروانا ناگزیر ہو تو کسی ماہر سرجن سے ہی کروائیں تاکہ نقصان کا اندیشہ کم سے کم ہو۔
٭٭٭