سیاست نہیں معیشت بچاؤ
شیئر کریں
راؤ محمد شاہد اقبال
ایک دن مسند ِ خلافت پر متمکن ہوکر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے رفقاء کار سے ارشاد فرمایا ”میرا خیال تھا کہ امیر لوگوں پر زیادتی کرتاہے ، مگر اَب معلوم ہوا ہے کہ یہ عوام ہیں جو(اپنے ) امیر کے ساتھ زیادتی کے مرتکب ہوتے ہیں ”۔ مدینة العلم کے اِس مختصر سے جملہ میں اُمور مملکت کی یہ اہم ترین تلخ حقیقت مخفی ہے کہ بعض اوقات اہل یا نااہل حکمرانوں کی وجہ سے نہیں بلکہ عوام کی اپنی بداعتدالیوں کے باعث بھی ریاستیں تباہ و برباد ہوجایا کرتی ہیں ۔تھوڑی دیر کے لیے سوچئے کہ جس طرح کے جمہوری پارلیمانی نظام کے تحت ہمارے حکمران منتخب ہوکر آتے ہیں ۔ کیا یہ حکمران حقیقی معنوں میں اتنی قوتِ نافذہ رکھتے ہیں کہ جسے بروئے کار لاتے ہوئے،وہ اکثریتی عوامی رائے کے یکسر برخلاف جاکر ملک کو مختلف سیاسی، معاشی اور ثقافتی بحرانوں سے نکالنے کے لیے دور رَس اور نتیجہ خیز انقلابی اقدامات اُٹھا سکیں ؟ یقینا اِس سوال کا جواب ایک بہت بڑی ناں میں ہی دیا جاسکتاہے ۔ کیونکہ ہماری پوری سیاسی تاریخ چغلی کھا رہی ہے کہ ابھی تک تو کم ازکم ہمارے سیاسی نظام میں ایک بھی ایسا حکمران نہیں گزرا ، جس نے ملک کے وسیع تر مفاد میں اور عوامی رائے سے متصادم کوئی بھی حکومتی اقدام اُٹھانے کا فیصلہ کرکے اُسے کامیابی کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچایا ہو۔
لطیفہ ملاحظہ ہوکہ گزشتہ 76 برس میں نہ جانے کتنے سیاسی و جمہوری حکمرانوںنے ملک کو توانائی کے سنگین بحران سے نجات دلانے کے لیے بازار اور مارکیٹیں شام 6بجے بند کروانے کا منصوبہ ترتیب دیا۔ مگر پھر ہر مرتبہ کاروباری طبقہ کے ذرا سے احتجاج کی شدت کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ اپنا فیصلہ، خود ہی بیک جنبش قلم منسوخ کرکے خوشی کے شادیانے بجانے لگ جاتے ہیں ۔ ہمارے نام نہاد عوامی حکمران ملک میں بجلی کی چوری ، ڈالروں کی سٹہ بازی ، چینی اور پیٹرولیم مصنوعات کی اسمگلنگ ، ذخیرہ اندوزی ، ناجائز منافع خوری اور اسٹریٹ کرائمز کے منظم گروہوں کے خلاف کریک ڈاؤن فقط اِس لیے نہیں کر پاتے کہ عوام اُنہیں کبھی اپنے ووٹ سے اور کبھی احتجاج سے بلیک میل کرنا شروع کردیتی ہے اور سیاست دان بھی اقتدار کو دوام بخشنے کی حرص میں اتنے بے بس اور لاچار ہوتے ہیں کہ عوام کے ہاتھوں ہنسی خوشی بلیک میل ہو ناقبول کرلیتے ہیں۔
سادہ سی بات ہے کہ جن کے ووٹوں کی طاقت پر میرے حلقہ کا انتخاب جیتنا منحصر ہو ،میں واپڈا والوں کو اُن کا بجلی کا کنڈا کیسے کاٹنے دے سکتاہوں؟ نیز جو محلے والے پولنگ والے دن میرے پولنگ ایجنٹ بنتے ہوں ،میں اُن کی ڈالروں کی سٹہ بازی پر آخر کیسے اور کیونکر قدغن لگاسکتاہوں؟ جبکہ جلسے ، جلوسوں اور ریلیوں میں میرے پنڈال کو جولوگ بھی دامے،درمے سخنے چار چاند لگانے میں اہم کرداراداکرتے ہیں ، بھلا اُن مخلصین کو اسمگلنگ ،ذخیرہ اندوزی ،ناجائز منافع خوری سے روکنا کیاکوئی عقل کی بات ہوگی ؟ یا پھر میرے وہ سرپھرے کارکنان جو میرے ایک حکم پر ہروقت مرنے مارنے پرتیار بیٹھے رہتے ہیں ۔کیا میں ایسے وفادارجوانوں کا اسٹریٹ کرائمز کرنے کی ذرا سی خطا پر قانون کی گرفت میں جانا افورڈ کر سکتا ہوں؟ ۔ یقینا کبھی نہیں بالکل بھی نہیں ۔
یہ ہی وہ چند مبنی بر حقائق سیاسی مجبوریاں ہیں جن کے پیش ِ نظر ہمارے منتخب حکمران ملکی مفاد میں بہت بڑے کیا ،چھوٹے فیصلے بھی نہیں کرسکتے۔لیکن دوسری جانب نگراں حکومت چونکہ عوامی پسندیاناپسند کی بنیاد پر تشکیل نہیں دی جاتی ۔لہٰذا، اُس کے لیے بڑے فیصلے کرکے ، اُن پر من و عن عمل درآمد کروانا کوئی خاص مشکل کام نہیں ہوتا۔ مثلاً چند ہفتوں قبل وجود میں آنے والی نگراں حکومت کی تشکیل میں چونکہ عوام کے ووٹوں کے بجائے طاقت ور حلقوں کی مرضی و منشا کا عمل دخل زیادہ شامل ہے ۔ اِس لیے نگراں حکومت نے مہنگائی اور بے روزگاری کی ابتر صورت حال اور ملکی معیشت کی بہتری کے لیئے جو فوری اور ناگزیر فیصلے کئے ہیں ان میں بجلی کی چوری، ڈالروں کی سٹے بازی، چینی اور پیٹرولیم مصنوعات کی اسمگلنگ، ذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع خوری اور سٹریٹ کرائمز کے منظم گروہوں کے خلاف کریک ڈاؤن سب سے اہم ہے۔کیونکہ نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کا انحصار جمہوری یعنی عوام کے ووٹوں پر بالکل بھی نہیں ہے ۔ اِس لیے وہ پوری انتظامی قوت اور سیاسی ارادے کے ساتھ اپنے انتظامی فیصلوں کو نافذ کرنے جارہے ہیں ۔ دوسری طرف عوام کو بھی اِس بات کا اچھی طرح سے ادراک ہے کہ اُن کے احتجاج کی دھمکی کم ازکم نگراں وزیراعظم کی سیاسی صحت اور انتظامی کارکردگی پر تو کوئی خاص فرق نہیں ڈال سکتی ۔لہٰذا، عوام نے بھی نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن کے مصداق اپنا بگڑا ہوا عوامی مزاج درست کروانے کے لیے خود کو بسروچسم نگراں حکومت کے سپرد کردیا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں ،جن میں سے کم ازکم کسی ایک جماعت کا آئندہ قومی انتخابات کے بعد اقتدار میں آنے کا قوی امکان ہے ۔یعنی پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن، دونوں جماعتوں کی اعلیٰ قیادت بھی یہ دلی خواہش رکھتی ہے کہ نگراں وزیراعظم جناب انوارالحق کاکڑ ہی ملکی معیشت کو بحرانی کیفیت سے نکالنے کے تمام مشکل اور سخت فیصلے اپنے عبوری دورِ حکومت میں ہی کرگزریں ۔تاکہ جب اگلے انتخابات کے بعد اقتدار کی دیوی اُن پر مہربان ہو تو اُنہیں سخت فیصلے کر کے عوامی غیض و غضب کا نشانہ نہ بنناپڑے۔ جس کی تازہ ترین مثال پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری کی جانب سے ”سیاست کے بجائے ،معیشت بچاؤ” کا نعرہ بلند کرنے ہوئے یہ کہنا ہے کہ ” انہیں اچانک ہی ”ادراک” ہوا ہے کہ ہمارا پیارا وطن عزیز چونکہ سنگین معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ اس لئے پہلے معیشت کی فکر کرنی چاہئے سیاست بعد میں دیکھی جائے گی اور مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیاں بعد میں بھی ہوسکتی ہیں”۔
ملک کے سیاسی حلقوں میں جہاں آصف علی زرداری کے مذکورہ بیان کو اور خاص طور پر اس کی ٹائمنگ کو حیرت و استعجاب کے ساتھ دیکھا جارہا ہے، وہیں پاکستان پیپلزپارٹی کے راہنمائوں اور کارکنوں کے لیئے بھی یہ بیان انتہائی تشویش کا باعث بنا ہوا ہے کیونکہ صرف ایک دن قبل پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کراچی میں میڈیا بریفنگ کے دوران الیکشن کمیشن کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ملک میں وقت پر منصفانہ انتخابات کے انعقاد کو نہ صرف پارٹی کی اولین ترجیح قرار دیا تھا بلکہ 90دن کے اندر عام انتخابات کی تاریخ کا فوری اعلان کرنے کا مطالبہ بھی کیا تھا ۔مگر بظاہر لگ یہ ہی رہا ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن جان بوجھ کر سیاسی وکٹ کے دونوں اطراف کھیلنے کی زبردست حکمت عملی پر عمل پیراہیں۔ تاکہ کسی طرح زبوں حال معیشت کو نگراں حکومت بچانے میں کامیاب ہوجائے جبکہ سیاست کو تو یہ دونوں جماعتیں اگلی بار اقتدار میں آکربچاہی لیں گی۔
٭٭٭