سعودی سنیما: مملکت کا نیا کماؤ پوت
شیئر کریں
وسام الحربی
٭ سعودی مملکت میں ڈسپلے اسکرینوں کی تعداد 620 ، سینما گھروں کی تعداد 69سے زیادہ ریکارڈ کی گئی ہے، سینما گھروں کی نشستوں کی تعداد64,000 سے زیادہ ہے
٭ سعودی عرب میں فلم بینی اور فلم سازی میں بہت تیز رفتاری محسوس کی گئی ہے اور سعودی فلم سازوں کی بڑی تعداد تماش بینوں کو رجھانے کیلئے اپنی کاوشوں اور کیمروں کے ساتھ مصروف ہیں
٭باکس آفس پر "ٹاپ گن:ماورک سب سے دیکھی گئی فلم قرار دی جاتی ہے۔ اس فلم کی بارہ لاکھ سے زیادہ ٹکٹیں فروخت ہوئیں اور 84 ملین ریال سے زیادہ کی آمدنی حاصل ہوئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سعودی عرب میں سنیماؤں کی اجازت اور عالمی، علاقائی و مقامی فلموں کی اجازت کے بعد سنیما مملکت کا نیا کماؤ پوت بن چکا ہے۔ عرب میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق سعودی سنیما نے کمائی کے نئے ریکارڈ قائم کردیے ہیں۔ امسال ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سعودی سنیما کی سالانہ کمائی تین ارب ریال تک جا پہنچی ہے اور اس میں مزید اربوں ریال کا اضافہ متوقع ہے۔ سعودی عرب کی جنرل اتھارٹی برائے آڈیو ویژوئل میڈیا نے سنیما سیکٹر کی کمائی کے حوالے سے اعداد وشمار پر مبنی رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ مملکت میں سینما گھر کھلنے کے بعد سے 51ملین ٹکٹ فروخت ہوئے اور مملکت کو سینما سے حاصل ہونے والی آمدنی 3 ارب ریال سے تجاوز کرچکی ہے۔ سعودی مملکت میں ڈسپلے اسکرینوں کی تعداد 620 سے زیادہ ہوگئی ہے۔
مملکت میں سینما گھروں کی تعداد 69سے زیادہ ریکارڈ کی گئی ہے جب کہ سینما گھروں کی نشستوں کی تعداد64,000 سے زیادہ ہے۔ سعودی عرب کے 20 سے زیادہ شہروں میں 7 سے زیادہ سینما آپریٹرز کام کررہے ہیں۔ یاد رہے کہ سعودی عرب میں فلم بینی اور فلم سازی میں بہت تیز رفتاری محسوس کی گئی ہے اور سعودی فلم سازوں کی بڑی تعداد تماش بینوں کو رجھانے کیلئے اپنی کاوشوں اور کیمروں کے ساتھ مصروف ہیں۔ سعودی آڈیو ویژول اتھارٹی نے بتایا کہ دکھائی جانے والی سعودی فلموں کی تعداد سے تجاوز کر گئی، جب کہ باکس آفس پر "ٹاپ گن:ماورک سب سے دیکھی گئی فلم قرار دی جاتی ہے۔ اس فلم کی بارہ لاکھ سے زیادہ ٹکٹیں فروخت ہوئیں اور 84 ملین ریال سے زیادہ کی آمدنی حاصل ہوئی ہے۔ سعودی عرب میں سنیما ہالز تک تماش بینوں کی ایک بہت بڑی تعداد رسائی رکھے ہوئے ہے جن میں ایک بڑی تعداد خواتین کی ہے جو باقاعدگی کے ساتھ سنیماؤں کا رخ کررہی ہیں جہاں ان کی دل بستگی کیلئے عالمی انگریزی، اور عربی فلمیں موجود ہیں جبکہ دیگر ممالک کی فلمیں ڈبنگ کے ساتھ ان کی تفریح طبع کا اہتمام کرنے کیلئے لگائی جارہی ہیں۔ ایک سینئر عرب تجزیہ نگار کا کہنا تھا کہ جب سے مملکت نے اپنے ویژن 2030 کے منصوبوں کے تحت سینما گھروں پر سے 35 سالہ پابندی ہٹائی ہے تب سے اس انڈسٹری کو توانائی ملی ہے اور مارول فلموں سے لے کر ہالی ووڈ پر مزاح رومانوی اور آسکر ایوارڈ یافتہ بلاک بسٹر فلموں تک، بڑی اسکرین کے جادو نے سعودی عرب کے ناظرین کو گزشتہ پانچ سال سے اپنے سحر میں جکڑا ہوا ہے۔ سعودی ولی عہد ایم بی ایس کی جانب سے سعودی مملکت اور سماج کو روشن خیالی کی جانب لانے کیلئے جو اقدامات کیے گئے ہیں ان میں سنیما ہالز کا بھی ایک مخصوص کردار بتایا جاتا ہے جس کے نتیجہ میں تھیٹر چینز کے لیے ملک بھر میں سینما گھروں اور اسکرینوں کی ایک بڑی تعداد کام کرنا شروع کرچکی ہے اور سرمایہ کار سنیماؤں اور تھیٹرز کو کھولنے کیلئے بے چین ہیں جو اس وقت سماج میں کماؤ پوت کہلا رہے ہیں۔
امریکن چین اے ایم سی انٹرٹینمنٹ۔ سعودی عرب میں کام کرنے والے پہلے سینما نے 18 /اپریل 2018 ء کو ریاض میں مارول کے بلیک پینتھر کی تاریخی پہلی اسکریننگ کے ساتھ سینما انڈسٹری کو ایک نئی زندگی دی تھی۔ گزشتہ پانچ سالوں میں ووکس سنیما، عمارز رئیل سینما اور مووی سینماز جیسے بڑے ناموں کے ساتھ نئے تھیٹر اور سنیما ہالز نے کاروبار شروع کیا ہے۔ میڈیائی گفتگو میں مووی سینما کے سینئر ایگزیکٹیو ایڈن کوئن نے کہا کہ یہ پہلا ملکی سینما برانڈ تھا جو اب ملک بھر میں درجنوں سینما گھر اور سینکڑوں اسکرینز کوکامیابی کے ساتھ چلا رہا ہے۔ مووی سینما کی اس وقت 21 مقامات پر 205 اسکرینیں ہیں اور وہ مملکت کے 10 مختلف شہروں میں تماش بینوں کیلئے فلموں کا اہتمام کررہے ہیں۔ فلم کمپنی کے ایگزیکٹیو کا مزید کہنا ہے کہ کمپنی اسکرین اور مارکیٹ شیئر دونوں میں نمایاں ہے، جس میں 1,000 سے زیادہ ٹیم ممبرز ہیں۔ مزید پانچ سنیما ہالز کو امسال کھولا جارہا ہے تاکہ مزید سعودی شہری سنیماہالز تک آئیں۔ یاد رہے کہ سعودی عرب میں تمام سنیما ہاؤس اور تھیٹرز جدید ٹیکنالوجی کے تحت کام کررہے ہیں، جن کا ٹکٹ مہنگا لیکن سہولیات عالمی معیار کی ہیں۔ سعودی سنیماؤں میں جن ممالک کی فلموں کی سب سے زیادہ ڈیمانڈ ہے، ان میں سرفہرست پانچ فلمیں بنانے والے ممالک ہالی ووڈ، مصر اور سعودی عرب شامل ہیں لیکن بھارتی فلم سازوں نے بھی سعودی اتھارٹیز کے ساتھ نئے معاہدوں کی مدد سے سعودی عرب کے تماش بینوں کیلئے فلمیں پروڈیوس کرنے کے معاہدے کیے ہیں اور کئی سینئر سعودی پروڈیوسرز اور سرمایہ کاروں نے ممبئی، دہلی اور چنائے میں بھارتی فلم انڈسٹری کے اہم ناموں ایکٹرز اور پروڈیوسرز سے ملاقاتیں کرکے بھارتی فلموں کو مملکت میں بنانے اور نشر کرنے کی کوششیں تیز کردی ہیں۔ یاد رہے کہ سعودی تفریحی کمپنی ایم سی بی نے مملکت میں مزید مقامی فلمیں بنانے میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔
اسی وقت، دبئی میں مقیم مال آپریٹر ماجد الفطیم، جو ووکس سینماز چین کے مالک ہیں، نے بھی مارکیٹ میں قدم رکھ دیا ہے جب کہ کئی عالمی اداروں نے سعودی نوجوانوں کو مملکت میں فلمی صنعت کے فروغ اور فلم سازی کیلئے تعلیمی و تربیتی ادارے قائم کیے ہیں۔ سعودی عرب میں سنیما ہالز کا روشن مستقبل دیکھنے والی عالمی کمپنی اور مشاورتی فرم پی ڈبلیو سی مڈل ایسٹ کی ایک تحقیق کے مطابق، ملک کی سنیما انڈسٹری 32 ملین سے زیادہ سعودی مرد و خواتین اور بالخصوص نوجوانوں کو سنیما ہالز کی طرف کھینچ لانے کیلئے سر توڑ کوششیں کررہی ہے۔ سعودی حکومت ماضی میں کہہ چکی ہے کہ وہ سینما گھروں اور تھیٹروں کی تعمیر کے لیے 35 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کررہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 2021میں، سعودی فلم کمیشن نے اعلان کیا تھا کہ وہ مملکت کو عالمی معیار کے فلمی مرکز کے طور پر قائم کرنا چاہتا ہے اور اس مقصد کیلئے ایک ایسی صنعت کی تعمیر ان کا مقصد ہے جس کی سالانہ کمائی کم از کم پانچ سو ملین $500 تک ہو۔سعودی فلم کمیشن کی حکمت عملی کلیدی شعبوں میں عالمی معیاری ٹیلنٹ کے حصول اور خدمات، پیشکشوں اور مراعات کے لحاظ سے فلمی شعبہ بنانے۔ ملکی فلموں کی پیداوار کو بڑھانے، مزید بین الاقوامی پروڈکشن ہاؤسز کو راغب کرنے اور علاقائی اور بین الاقوامی منڈیوں میں سعودی فلموں کو فروغ دینے اور تقسیم کرنے کے تحت کام کررہی ہے۔اس مقصد کیلئے حکومتی سرپرستی میں سعودی فلم انسٹی ٹیوٹ بھی کام کررہا ہے، جو فلم پروڈکشن،ا سٹوری ٹیلنگ کی پیشہ ورانہ تربیت اور وسیع تر تخلیقی اور تکنیکی مہارتوں جیسے ساؤنڈ انجینئرنگ اور اینیمیشن کی تعلیم و تربیت دے رہا ہے۔
٭٭٭