49 کروڑ کرپشن والے کا نیب سے بچ جاناسنجیدہ معاملہ ہے، چیف جسٹس
شیئر کریں
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے ہیں کہ بے نامی کیخلاف کارروائی احتساب کا مرکز ہے۔چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے نیب ترامیم کیخلاف کیس کی سماعت کی۔ایڈووکیٹ مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ نیب ترامیم کے ماضی کے اطلاق سے متعلق سوال کیا گیا تھا، قانون سازی کے ماضی کے اطلاق کی آئین میں کوئی ممانعت نہیں ہے، خود جسٹس منیب نے ہائیکورٹ میں اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ ماضی سے اطلاق ہونے والے قوانین کالعدم نہیں قرار دیے جا سکتے۔چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ ایمنسٹی اسکیم کو نیب آرڈیننس سے استثنی کیوں دیا گیا ہے؟ بے نامی دار سے متعلق نیب ترامیم پر دلائل دیں، بے نامی دار ریفرنسز میں بنیادی کیس آمدن سے زائد اثاثہ جات کا تھا، نیب ترامیم میں بے نامی دار کی تعریف تبدیل کر دی گئی ہے، اب نیب ترامیم سے یہ لازم قرار دیا گیا ہے کہ پہلے پراسیکیوشن ثابت کرے کہ کرپشن کے پیسے سے بے نامی جائیداد بنی یا نہیں، نیب ترامیم سے استغاثہ پر غیر ضروری بوجھ ڈالا گیا ہے، بے نامی کے خلاف کارروائی تو احتسابی عمل کا مرکز ہے، کم از کم یہ تو طے ہونا ضروری ہے اثاثے کرپشن سے تو نہیں بنائے گئے۔مخدوم علی خان نے جسٹس منصور علی شاہ کے خورشید شاہ کیس کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہر بے نامی دار ٹرانزیکشن کرپٹ ٹرانزیکشن نہیں ہے، استغاثہ اگر کرپشن کے الزامات لگا رہی ہے اس کے پاس کوئی تو شواہد ہونے چاہئیں، کرپشن ثابت کرنے کے لیے صرف بے نامی دار کا الزام لگا دینا کافی نہیں ہے، پراسیکیوشن کو ثابت بھی کرنا ہو گا کہ بے نامی دار ہے یا نہیں، نیب نے لوگوں کے گھروں پر چھاپے مارے اور لاکرز توڑے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ ذرائع آمدن اثاثوں سے مطابقت رکھتے ہیں یا نہیں، اگر ذرائع آمدن بھی ملزم نے نہیں بتانے تو یہ جرم ثابت ہی نہیں ہو سکتا۔